عالمی یوم گوریا اور اسلامی تعلیمات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
پرندوں کی چہچہاہٹ دراصل فطرت کی دلکش آواز ہے
پرندوں کی چہچہاہٹ دراصل فطرت کی دلکش آواز ہے

 

 

samad

سلمان عبدالصمد

پرندوں کی چہچہاہٹ دراصل فطرت کی دلکش آواز ہے۔پرندے حسن ِکائنات ہیں۔ ہر انسان مختلف پرندوں کی آوازیں سننا پسند کرتا ہے اور بہت سے لوگ پرندوں کو پنجرے میںرکھتے ہیں، تاکہ جب چاہیں پرندوں کو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کو سرور بخشیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 20مارچ کو’’یوم گوریا/چڑیا‘‘ کے موقع پر دانشوران پرندوں کی نسلوں کے تحفظ کے لیے بات چیت کرتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے کے لیے منصوبے بناتے ہیں تاکہ انسانوں کی صحت بہتر رہے اور پرندوں کی نسلیں بھی پھلتی پھولتی رہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو پرندے ہمارے ماحولیاتی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔

دانشوروں کے مل بیٹھنے کا دراصل مقصد یہ ہے کہ کیسے پرندے اپنے حقوق حاصل کرسکیں۔ کیوں کہ اگر ہم پرندوں کی آوازوں پر سر دھنتے ہیں تو ہمارا بھی فریضہ ہے کہ ہم پرندوں کی حفاظت اور اس کے حقوق پر غور کریں۔ نیچر فار اِوَرسوسائٹی بھارت،ایکوسیس ایکشن فاؤنڈیشن (فرانس ) کی مشترکہ جدو جہد کی وجہ سے یہ عالمی دن منا یا جاتا ہے ۔ ناسک کے محمد دلاور نے گوریا کی کم ہوتی تعداد کے مدنظر مہم چلائی تھی ۔ انھیں2008میں ’’ہیر و آف انوارمینٹ ‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ 2010میں پہلی دفعہ ملک اور بیرون ممالک کے بہت سے خطوں میں ’’عالمی یوم گوریا‘‘ منایا گیا۔ یوں تو اس کی شروعات میں گوریا کا تحفظ کرنا ہی مشن تھا ، تاہم اس دن دنیا بھر میں چڑیوں کی گھٹتی تعداد کے موضوع پر لوگوں کو بیدار کیا جاتا ہے ۔

ایک سروے کے مطابق ہر سال 1بلبن چڑیا فقط امریکہ میں مرجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 20مارچ کو عالمی یوم چڑیا کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ پرندوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو این ایف ایس کی جانب سے 20مارچ 2011سے ایوارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔گوریا کو دہلی کی ریاستی حکومت نے ریاستی چڑیا قرار دیا ہے۔

قرآن میں پرندوں کے نام اور سورتیں

 قرآن کی تقریبا 200آیتوں میں کسی نہ کسی سطح پر چرند وپرند کا تذکرہ کیا گیا۔ یہاںتک کہ قرآن میں سورہ بقرہ (گائے) کے علاوہ سورہ فیل(ہاتھی)، سورہ نمل(چیونٹی)، سورۃ عنکبوت( مکڑی) اور سورۃ نمل ( شہد کی مکھی )وغیرہ موجود ہے۔پرندوں کے نام سے جو سورۃ منسوب ہے اس کا نام ’’ابابیل ‘‘ ہے۔ ان کے علاوہ چند اور پرندوں کے نام قرآن میں ملتے ہیں ، مثلاً: سلوی، بٹیر ۔ ہد ہد ، غراب ، کوا۔ نون وحوت ، مچھلی۔ ضفادع ، مینڈک ۔اس ان آیتوں سے اندازہ کیا جانا آسان ہے کہ قرآن میں کس طرح پرندوں کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ یہاں تو چند ایک مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے ، ورنہ سینکڑوں کی تعداد میں چرند وپرند کا تذکرہ قرآن میں ملتا ہے۔ َٔ

اسلام میں پرندہ پالنے کا حکم

بہت سی احادیث میں پرندوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کاذکر موجود ہے، مگر کم از راقم کی نگاہ سے کوئی ایسی حدیث نہیں گزری جس میں آپ صلی اللہ علیہ نے پرندہ پالنے کا حکم دیا ہو ، البتہ بخاری کی حدیث (6129نمبر) میں ہے کہ حضرت انس ؓ کے بھائی عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تھے اور عمیر سے پوچھتے تھے کہ ’نُعیر‘ کے کیا احوال ہیں۔ عمیر اس پرندے سے کھیلتے تھے ۔ بخاری کی اسی حدیث کی روشنی میں فقہا کا کہنا ہے کہ پرندے پالنا ناجائز ہے ۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمیر کی تربیت کرتے ۔

انھیں اس کے پالنے سے منع کرتے، مگر آپ نے عمیر کی تنبیہ نہیں کی ۔ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اسلا م میں پرندہ پالنا جائز ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں کہا کہ پنجرے میں بندکرکے پرندہ پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ پرندہ پالنے والوں پر لازم ہے کہ وہ پرندوں کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔ ضرورت کے مطابق خوراک ورسد دے۔(عسقلانی، فتح الباری، 10: 584)‘‘۔ گھر وں کی زینت اور تجارتی مقصد سے کبوتر ، تیتڑ اور بٹیر وغیرہ کو رکھنا جائز ہے ۔ البتہ مقابلہ بازی وغیرہ کے لیے ناجائز ہے ۔ کیوں کہ مقابلہ فضول کی مصروفیت ہے۔ اگر رقم طے کرکے کبوتربازی کی جائے تو یہ اور زیادہ حرام ہے ۔ کیوں کہ یہ مقابلہ بازی جوا کے زمرے میں آجائے گا۔

awaz

پرندوں کے ساتھ حسن سلوک اور اسلام

 یوں تو ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی پرندے کو پنجرے میں قید رکھ کر دیکھ بھال نہ کرے ۔ کیوں کہ پنجروں میں قید کرکے پرندوں سے لطف اٹھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت میں پرندوں اور جانوروں سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے، مگر دنیا میں سب کچھ ممکن ہے ۔ کیوں کہ آج انسان ، انسان کو پریشان کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتا تو پرندوں کا کیا ذکر ۔اسلامی تعلیمات ایسے ہی لوگوں کے لیے ہیں جو پرندوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ ان کا حق ادا نہیں کرتے ہیں۔ متعدد احادیث میں چرند پرند سے حسن سلوک پر ابھارا گیا ہے۔ بخاری کی ایک حدیث ہے ،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت کو بلی کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا ۔ اس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا ۔ اس کی دیکھ بھال نہ کی ۔ یہاں تک کہ بلی مرگئی اور عورت جہنم میں داخل کی گئی ۔ کیوں کہ اس عورت نے نہ بلی کو آزاد کیا اور نہ ہی اسے کھلایا پلایا ۔ اگر وہ آزاد کردیتی تو بلی کیڑے مکوڑے سے گزارا کرسکتی تھی۔ (صحیح مسلم:2242)‘‘۔

اس حدیث سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مخصوص جانوروں اور پرندوں کو پالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ان سے حسن سلوک کرنا فرض ہے ۔حسن سلوک نہ کرنے والوں پر سخت عذا ب ہے ۔مذکورہ حدیث کے علاوہ بے شمار احادیث میں پرندوں سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔ ہم ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اسی درمیان ہماری نظر دو بچوں والی ایک چڑیا پڑی ۔ ہم نے ایک بچہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔بچے کی ماں چڑیا بے چینی سے ہمارے ارد گرد پھڑ پھڑانے لگی ۔ اسی حال میں سرورِ کائنات تشریف لے آئے اور چڑیا کو اسی حالت میں دیکھا اور فورابول اٹھے کس نے اس چڑیا کو مضطرب کردیا ہے ۔ اس کے بچے کو واپس کردو ۔ اس نوعیت کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اونٹ ، بکری ، چرند وپرند کے ساتھ حسن سلوک کا پیغام دیا گیا ۔ اونٹوں کو بھوکا رکھنے والوں کو بھی رسول اللہ نے تنبیہ کی ۔ اسی طرح پرندوں کو داغنے سے اور باندھ کر پریشان کرنے سے منع کیا ہے ۔

پیغام

دنیا کی تیز رفتار ترقیوں نے فطری مناظر کو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچایا ہے ۔ اسی طرح گذشتہ چند برسوں میں موبائل ٹاور اور دیگر آلات کی تاب کار ی کی وجہ سے بہت سے پرندے ختم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک وہ دورتھا کہ جب کھیتوں میں پرندے غول کے غول اترتے تھے۔ اس لیے کھیتوں میں بجوکے لگائے جاتے تھے ،لیکن اب کھیتوں سے بھی بہت سی نسلوں کے پرندے غائب ہوگئے ہیں۔ شہر میں تو بس کبھی کبھی ہی پرندے نظر آجاتے ہیں۔ ایسے دور میں ماحولیات کا تحفظ کس قدر ضروری ہے، ہم خود سوچ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب فطری نظام میں تبدیلی آئے گی تو ملکوں کا نظام بھی متاثر ہوگا اور انسانوں کے جسم کا نظام بھی الٹ پلٹ کر رہ جائےگا۔ اس لیے جس طرح ماحولیات اور چڑیا کے تحفظ وحقوق پر عالمی ادارے بات کررہے ہیں ، اسی طرح اہل ایمان خصوصاً علمائے اسلام کو بھی اس حساس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے ۔

(مضمون نگار اسلامیات پر نظر رکھتے ہیں اور انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف تھیالوجی پلول کے ممبر ہیں)