تعلیم ِ نسواں : چیلنجز اور حل

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 03-05-2023
تعلیم ِ نسواں : چیلنجز اور حل
تعلیم ِ نسواں : چیلنجز اور حل

 

awazurdu

ڈاکٹر ریحان اختر

اسسٹنٹ پروفیسر ، فیکلٹی آف تھیولوجی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ

تعلیم کسی بھی  فرد کی زندگی میں آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔  والدین، اسکول اور یونیورسٹیاں فرد کو تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  تعلیم خود اعتمادی، خود قبولیت ،اعتماد نفس ،اعتبار ذات  کو جنم دیتی ہے اور ایک شخص کو اپنے اردگرد کے ماحول اور دنیا کو درپیش مسائل سے زیادہ آگاہ کرتی ہے۔  اس مسابقتی اور ترقی یافتہ دنیا میں ایک فرد کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بیحد  ضروری ہے۔   ایک پڑھے لکھے فرد میں ان پڑھ کے مقابلے میں خود اعتمادی زیادہ پائی جاتی ہے۔   تعلیم یافتہ افراد قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور قوم کی ترقی میں مدد کرتے ہیں۔

 نیلسن منڈیلا کے مطابق’’ تعلیم شخصی ارتقاء کے لئے ایک انجن کا رول ادا کرتی ہے۔ تعلیم کی فطرت میں بدلاؤ اور تبدیلی کا عنصر ودیعت رکھا گیا ہے جس کے سبب  فرد کو اپنے خاندان، معاشرے، قوم اور دنیا کے تئیں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے میں مدد  ملتی  ہے۔  یہ ایک فرد کو دنیا اور حالات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے اور تشدد، ناانصافی، بدعنوانی اور دیگر مختلف حادثات کے خلاف لڑنے میں مدد کرتی ہے۔  یہ انسان کو زیادہ مستحکم اور عقلمند بناتی ہے ، یہ ایک فرد کے لیے مختلف شعبوں میں کئی مواقع فراہم کرتی ہے۔تعلیم ہی وہ واحد شاه کلید ہے جس نے ہر قفل کو کھولا ہے ۔ تحقیق کو نئی جہت بخشی ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی سے مرصع نئے دور کی راہیں متعین کی ہیں۔ اس دور میں تعلیم کی اہمیت سے انکار اپنے وجود کی خود کی نفی کے مترادف ہے۔

عورت کا ئنات ہستی کا وہ پھول ہے کہ جس کے بغیر ساز ہستی میں سوز باقی نہیں رہتا زندگی کا پہیہ گردش نہیں کر سکتا اور نہ ہی حیات انسانی میں کوئی رنگ و بو باقی رہتا ہے۔ گھریلو زندگی جو کسی بھی سماج و معاشرے  کی بنیادی اکائی ہے عورت کے بغیر کسی معاشرے کا تصور ممکن نہیں ہے، عورت نصف انسانیت اور نصف حیات ہے، مرد اور عورت اس کے دو پہیے ہیں۔ مرد اپنے کنبے کا کفیل ہے تو عورت اپنے بچوں کی اتالیق، خاتون اگر پڑھی  لکھی ہوگی تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے تربیت کرکے اپنے بچوں کو معاشرے کا کار آمد شہری بننے میں مددگار ثابت  ہوگی۔ اور  تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ کرسکیں اور نسلوں کی بھی بہتر پرورش ہوسکے۔

انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اس کی تربیت بچے کے اچھے کردار کی بنیاد بنتی ہے۔ بچے کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور وہ اس کے طور طریقے، عادات اور دلچسپیوں کو مستعار لیتا ہے۔ ماں بچے کو اچھے بُرے کی تمیز اور صحیح غلط کی پہچان سکھاتی ہےاسی لئے عورت کا تعلیم یافتہ اور باکردار ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ آنے والی نسل کی تہذ یب اور تربیت کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عورت تہذیب یافتہ ہوگی تو پورا معاشرہ تہذیب یافتہ ہوگا۔نیپولین کے مطابق عورتیں قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ان کو نظر انداز کرکے قوموں کی ترقی محال ہے۔اس کے برعکس اگر خاتون ان پڑھ اور  دور جدید کے تقاضوں سے نابلد ہوگی تو اپنی اولاد کی مناسب تربیت نہیں کرسکے گی۔

موجودہ دور سائنس اور ترقی دور کہلاتا ہے آئے دن نئی نئی تحقیق سےدنیا روشناس  ہوتی ہے لیکن ایک اہم مسئلہ اور جیلنج جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور جس کو پروان چڑھانے میں اہم کردار معاشرتی رسوم و رواج اور مذہبی تعلیمات کی خلط ملط  کا  رہا ہے کہ جہاں عورت کو انتہائی حقیر ، کھیل کود اور نفسانی خواہش کا سامان اور گناہوں کی جڑ سمجھا گیا اور اس کو معاشرہ سے گویا الگ تھلگ رکھا گیا اسی عورت کی تعلیم کا مسئلہ ہے جسے ہم تعلیم نسواں سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔

جب ہم مذہب عالم کی مقدس کتب ، مآخذ و مصادر کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی مذہب میں تعلیم نسواں کی مناہی نہیں ہے البتہ کچھ شرائط ہیں کہ جنکو سامنے رکھ کر عورت کو تعلیم حاصل کر نے کا حق ہے ۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں ہندو دھرم اور اسلام کے متبعین تعداد میں دیگر مذاھب کے بالمقابل زیادہ ہیں اور ان دونوں ہی مذاہب میں خواتین کی تعلیم کے تعلق سے واضح اشارات ملتے ہیں چناچہ رگ وید میں ایسی بہت سی مثالوں کا پتہ چلتا ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کرتی تھی اور اسلامی لٹریچر میں  سب سے پہلی آیت تعلیم کے متعلق ہی نازل فرما کر اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،نیز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں ایسی بہت سی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دور میں عورتیں باقاعدہ آپ سے علم حاصل کرتی تھی ۔ چنانچہ طبرانی کی روایت ہے کہ جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی ۔

امام بخاری نے تو خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں باقاعدہ الگ سے باب قائم کیا ہے ۔  بلاذری نے فتوح البلدان میں یہ بات  نقل کی ہے ایک صحابیہ حضرت شفاء بنت عدویہ  تعلیم یافتہ خاتون تھیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: ”تم نے جس طرح حفصہ کو ”نملہ“ (پھوڑے) کا رقیہ سکھایا ہے، اسی طرح لکھنا بھی سکھادو۔

لیکن ان سب کے باوجود تعلیم نسواں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں خواتین کی جو حصہ داری ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہے اس کی پس پشت کیا وجوہات ہیں ان تک پہونچنا انتہائی اہم کام ہے ۔ جتنا میں نے ہندوستان کے تناظر میں غور و خوض کیا ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی پیچھے چند وجوہات رہی ہیں جو ذیل میں درج ہیں ۔ ایک تو عورت کو چہار دیواری میں قید رکھنا اور اس کی  ملازت کو معیوب سمجھنا   ۔  دوسرے  تعلیمی اخراجات کا متحمل نہ ہونا ۔ تیسرے سازگار ماحول کا نہ ہونا ۔

قدیم زمانے سے ہی ہندوستان میں یہ رواج اور دستور رہا ہے کہ عورت کے ذمے صرف گھر کے کام کاج ہے، اسے   گھر کی چہار دیواری میں اس طرح محصور کردیا جائے کہ ان کا تعلق خانہ داری امور کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ہو،  حتی کے انہیں تعلیم دینا، مردوں کی طرح انہیں علم سے آراستہ کرنا بھی مناسب نہیں، بلکہ ان کے خیال میں وہ عورت بہتر ہے جو تعلیم یافتہ نہ ہو اس کے علاؤہ تمام امور کو انجام دینا خواہ ملازمت ہو یا دیگر کام ان کو برائی اور قباحت کی نظر سے دیکھا اور تصور کیا جاتا رہا ہے جب کہ مذ ہب کی رو سے ایسی کوئی تعلیم یا ھدایت دیکھنے کو نہیں ملتی ہے ۔

جہاں ہندو مذہب کی مقدس مصادر سے ایسا کوئی حکم نہیں ملتا تو اسلامی نقطئہ نظر سے بھی عورت ملازمت کا کام انجام دے سکتی ہے بلکہ بعض اوقات خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاً امراض نساء وولادت کی ڈاکٹر، معلمات جو لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیم کا نظم کرسکیں۔ غرضیکہ عورت شرعی حدود وقیود کے ساتھ ملازمت یا کاروبار کرسکتی ہے۔

آزادی کے بعد سے اس تعلق سے بہت حد تک  کمی دیکھنے کو ملی ہے اور گھر کے ذمہ دار افراد اب کسی حد تک اس چیز کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ خواتین بھی گھر کے کام کاج کے علاوہ تعلیم یافتہ ہو کر ہاتھ بٹا سکتی ہیں ۔ اس تعلق سے مزید آسانی اور سہولت کے لیے حکومتی سطح پر ایسے اسکول و کالجز یا ایسے دفاتر کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جہاں خواتین آسانی سے اپنے فرائض انجام دے سکے اور ان کے اہل خانہ بھی اطمینان سے ان کو ملازمت وغیرہ کی اجازت دے سکیں تاکہ ان کی تعلیم کو سہل بنایا جا سکے ۔

کسی بھی کام کے آغاز اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اخراجات کا متحمل ہونا اشد ضروری ہے موجودہ دور میں تعلیم کا خرچ برداشت نہ کرنا بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے ۔ آزادی کے بعد سے ہی تعلیم نسواں کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سطح پر اہم اقدامات اٹھائے گئے لیکن ان میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی مثلاً اگر کسی کو اعلی تعلیم حاصل کرنی ہو تو وہ اخراجات کو دیکھ کر تعلیم ترک کرانے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے اس کے لیے حکومت کو تعلیم نسواں مفت اور دیگر پرائیوٹ کالجز میں نصف فیس طے کرنی چاہیے تا کہ ہر خاص و عام ، امیر و غریب کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو جائے ۔

 تعلیم وتربیت میں اچھے ماحول کی فراہمی نہایت اہمیت کی حامل ہے موجودہ دور میں حالات نے بڑی تیزی سے کروٹ لی ہے روز مرہ کی زندگی میں ہمارا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اسکول و کالج کی طالبات استحصال کا شکار ہوتی ہیں آئے دن کسی نہ کسی علاقے سے اس طرح کی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جو لڑکیوں اور ان کے والدین کو خوف زدہ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں بہت سی بچیاں تعلیم سے محروم ہو جاتی ۔

اس تعلق سے حالاں کہ حکومتی سطح پر سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور عورت کے تحفظ کے تئیں سخت قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں لیکن پھر بھی اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں خوش آئند بات نہیں ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون کو عملی جامہ پہنایا جائے اور ایسے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ وہ بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ کا باعث نہ بن پائے ۔

مخلوط تعلیم اور اسلام

آج کل کالج و یونیورسٹی میں تعلیم کا جو طریقہ رائج ہے یعنی لڑکے و لڑکیاں ایک کلاس میں ایک ہی وقت میں  ایک جیسے مضمون کی تعلیم حاصل کرے اس کو مخلوط تعلیم کہا جاتا ہے جو اسلامی نقطئہ نظر سے جائز نہیں ہے کہ  جب لڑکے اور لڑکی بالغ یا قریب البلوغ ہوجائیں تو اب ان کے لیے ایک ساتھ بغیر حجاب و پردہ کے تعلیم حاصل کرنا درست نہیں رہتا تو اس خاص صورت میں تعلیم کا حصول کیسے ہو ؟ اس کے لیے ارباب حکومت یا معاشرے کے ذمہ دار افراد کو چاہیئے کہ ایسی یونیورسٹی یا کالج قائم کریں جہاں الگ الگ تعلیم کا نظم ہو یا اگر اس پر قادر نہ ہو تو  جہاں تک پردہ ممکن ہو کیا جائے ۔

اعلی تعلیم و خواتین(اہمیت)

سماجی تبدیلی کی رفتار کو تیز تر بنانے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کا طبقہ بہتر رول ادا کرسکتا ہے ۔صنفی تفریق کا انصاف کی بنیاد پر خاتمہ اور صنفی مساوات کا انصاف بر مبنی فروغ اعلیٰ تعلیم ہی کے ذریعہ ممکن ہے ۔ پورے خاندان پر ایک عورت سے بہتر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا۔ عورت کی تعلیم اور شعور و آگاہی پورے خاندان کے لیے فریم کا کام انجام دیتی ہے ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت بچوں کی صحت، غذائیت اور تعلیم کا بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔نہ صرف وہ، بلکہ اس کے بچے اور پورا خاندان ہی سماجی تبدیلی کا فعاّل کردار ثابت ہوتے ہیں اور ملک کی سیاسی و معاشی ترقی کی ضامن بنتی ہیں نیز خواتین کو بااختیار بنانے کے طریقوں اور ذرائع کو تیز کرنے میں اعلیٰ تعلیم کا بڑا دخل ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے بھارت میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے تناسب میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو ایک خوش کن چیز ہے ۔ اور گزشتہ کچھ سالوں سے لڑکیوں نے ہر میدان میں لڑکوں کا مقابلہ کیا ہے بلکہ ان سے بھی ایک قدم آگے نظر آئی ہے سول سروسز امتحانات میں ان کا تناسب بہتر رہا ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہمیں قدیم رسوم و رواج کو خیر آباد کہہ کر ترقی یافتہ زمانے کا مقابلہ کر نے کی لئے تعلیم نسواں کو عام کرنا ہوگا اور لڑکیوں کو اعلی تعلیم کی طرف رغبت دلانی ہوگی ساتھ ہی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر بلکہ اپنے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں۔ آج دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے، جو اُس کے ساتھ نہیں چل پاتا، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ناصرف معیارِ تعلیم بہتر ہو بلکہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو۔