کیا گوادرسی پی ای سی کے لیے واٹر لو ثابت ہو گا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-11-2021
کیا گوادرسی پی ای سی کے لیے واٹر لو ثابت ہو گا؟
کیا گوادرسی پی ای سی کے لیے واٹر لو ثابت ہو گا؟

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئی دہلی

گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستان کا ’بحیرہ عرب کا موتی‘ کہا جانے والے گوادر شہر بدامنی کا شکار ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی شہری سہولیات مثلاً بجلی، پانی کی فراہمی، چیک پوسٹوں کی غیرضروری تعداد اور چینی فشنگ ٹرالروں کی موجودگی کے خلاف شہر کی سڑکوں پر ہے۔

یہ مظاہرے دن میں21 گھنٹے تک بجلی کی شدید کٹوتیوں کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ عام شہریوں کے پینے کا پانی چینی بستیوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں چینی کارکنوں کی جانب سے مقامی لوگوں کے روزگارچھیننے کے امکانات کے خلاف بھی شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ گوادر کے آس پاس مبینہ طور پر غیر قانونی ماہی گیری میں ملوث بڑے بڑے چینی ٹرالر مقامی ماہی گیر برادری کی روزی روٹی پر لات مار رہے ہیں، جو چھوٹی مچھلی پکڑنے والی کشتیوں پرکام کرتے ہیں۔

گوادر کے بحران کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ہمیں گوادر کی مختصر تاریخ میں جانا ہوگا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا یہ بندرگاہی شہر 1958 تک سلطنت عمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ عمان نے ہندوستان کو اس شہر کی پیشکش کی لیکن نہرو نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ ہندوستان اپنی قدرتی سرحدوں سے باہر کوئی کالونی نہیں چاہتا۔ چنانچہ پاکستان کو پیشکش کی گئی جس کے پاس ادا کرنے کے لیے 3 ملین امریکی ڈالر نہیں تھے۔چنانچہ مبینہ طور پر پرنس آغا خان نے اسے خرید کر پاکستان کو دے دیا۔

awaz

  یہ  گہرے پانی والا ایک قدرتی بندرگاہ ہے۔ خیال رہے کہ پانی کی گہرائی میں سولہ میٹر تک بڑے بڑے بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔گوادر کو اپنی تحویل لینے کے بعد پاکستان نے 1964 میں اسے بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا اور چین کی مدد سے اسے ترقی دینا شروع کیا۔اسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) منصوبے میں شامل کیا گیا۔گوادر میں چین کی دلچسپی دو وجوہات کی بنا پر تھی۔ (الف)گوادروسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ چین کے لیے بحیرہ عرب کا ایک بہت اچھا گیٹ وے ہے۔(ب) پی او کے، پنجاب اور سندھ کے راستے گوادر تک بحیرہ عرب تک براہِ راست رسائی حاصل کرنے کی وجہ سے چین مشرق وسطیٰ یا یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے طویل راستوں سے بچ سکتا ہے، بشمول موجودہ آبنائے ملاکا اور جنوب میں سوئز کینال تک۔

گوادر بندرگاہ کو ترقی دے کر چینی بحریہ بحیرہ عرب میں قدم جما سکتی ہے، جو کمیونسٹ ملک کے طویل مدتی توسیع پسندانہ ڈیزائن کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ چین گوادر کو فوجی اڈہ بنانے کے کسی بھی منصوبے کی بارہا تردید کرتا رہا ہے، لیکن ایک عام بندرگاہ کے لیے درکار تقریباً دس گنا رقبہ کے حصول اورسخت سیکیورٹی اور چیک پوسٹوں کے ساتھ باڑ لگانے کا آخر کیا مطلب ہے؟اس سے چین حکومت کی نیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے چینی قیادت گوادرکی آبادی کا تناسب بدل کرایک چینی شہر میں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ 28 اکتوبر 2017 کوسی پی آئی سی(China Pakistan Investment Corporation) نے چین کے مضافات میں نئے تصور کردہ'چائنا پاک ہلز ٹاؤن'میں ایک کالونی بنا کر 2023 تک 50 لاکھ چینی باشندوں کو آباد کرانے کے لیے ایک چینی تعمیراتی کمپنی ٹی آئی ای سی(TIEC) کے ساتھ شراکت کی ہے۔ گوادرمیں توسیع کے پہلے مرحلے کے طور پر ایک منصوبے کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ جب کہ پاکستانی حکومت نے گھریلو دباؤ کے تحت اس طرح کے کسی منصوبے کے وجود سے انکار کیا توسی پی آئی سی( CPIC)  نے اپنے دعوے کی تائید کے لیے دستاویزی ثبوت پیش کیے۔

گوادرمیں ایک اندازے کے مطابق مقامی آبادی1,38,000 ہے جب کہ یہاں 500,000 چینی آباد ہیں، ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بندرگاہی شہر کی مقامی آبادی کو چینی اقلیت میں تبدیل کر دیں گے۔ مقامی بلدیاتی وسائل جیسے بجلی اور پانی کا زیادہ تر حصہ چینی آبادی کی طرف موڑا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ گوادر میں غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں چیک پوسٹوں کے قیام نے مقامی لوگوں کومزید مشتعل کردیا ہےاوراس طرح سیکورٹی کے نام پر ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں تک محدود کر دی گئیں ہیں۔

اس میں شک نہیں پاکستانی قیادت نے گوادر کے قریب پاکستانی سمندری حدود میں چینی ٹرالروں کے غیر قانونی آپریشن پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، جس سے ماہی گیروں کے مقامی قبیلے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔گوادر مظاہرے میں مبینہ طور پر مقامی بچے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ وہ بچے اسکولوں میں اساتذہ، منشیات سے پاک گوادر، بہتر صحت کی دیکھ بھال اور مقامی حکام اور چینی کارکنوں کی طرف سے ان کے والدین کے احترام کا مطالبہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ان مظاہروں کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم 'گوادر کو حق دو' کر رہی ہے۔احتجاجی مظاہروں کو جماعت اسلامی سمیت بعض سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ معاہدے پر بات چیت کی تمام ترکوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں اور امکان ہے کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے سمندری امور اس ہفتے کے آخر تک گوادر کا دورہ کرے گی تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔

چینی کمپنیوں کے دباؤ کے باعث وفاقی حکومت مشکل میں ہے۔ یہاں تک کہ اگر عمران خان کی سویلین حکومت مہمانوں کو لگام ڈالنے کی کوشش کرتی ہےتوملٹری اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی بھی اقدام کو ویٹو کر دگے گی، کیوں کہ ان کے مفادات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔

awaz

سی پی آئی سی میں کرپشن کوئی نئی بات نہیں۔ گوادر میں بڑھتی ہوئی بدامنی دارصل اس بے اطمینانی کا ایک اور مظہر ہے جو پاکستان کی پیدائش کے بعد سے ابل رہا تھا۔ بلوچستان،پاکستان کے تقریباً چالیس فیصد رقبے میں پھیلا ہوا ہے، جہاں ملک کی آبادی کے دس فیصد سےزائد معدنی وسائل موجود ہیں، مگر ابھی تک یہ ملک کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے اور بدقسمتی سے پنجابیوں اور سندھیوں کو وفاقی حکومت نےاپنی دکانیں لگا کر صوبے کو ترقی کی طرف گامزن کرنے بجائے لوٹ مار کرنے کی اجازت دی ہے۔ 

سی پی ای سی(CPEC) کے تحت جن دو روڈ ریل پراجیکٹس کا تصور کیا گیا تھا، ان میں سے گوادر کو ویسٹرن زون سے ملانے والا ایک منصوبہ بند کر دیا گیا ہے اور صرف پنجاب اور سندھ سے گزرنے والی دوسری سڑک کی تعمیر کام جاری ہے۔ گوادر اور اس کے گردونواح میں زیادہ تر تعمیراتی کام چینی مزدور اور پنجابی ذیلی کنٹریکٹ کے ذریعے کرتے ہیں، اس طرح سی پیک کے آغاز پر حکومت کی جانب سے 20 لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے کے دعوؤں کے باوجود مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

awaz

 ان بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی ایک آڈٹ کمیٹی کے مطابق CPEC منصوبوں میں بدعنوانی اتنی زیادہ ہے کہ کچھ معاملات میں چینی کمپنیوں کوعام لاگت سے دو- تین گنا ٹھیکے دیے گئے۔وہیں عمران حکومت نے'آل ویدر فرینڈ' چین کے غصے کے خوف سے کمیٹی کی رپورٹ کو ابھی تک پبلک نہیں کیا، حالانکہ کچھ نتائج منظر عام پر آچکے ہیں۔بلوچستان میں پائی جانے والی بے اطمینانی کے پیش نظر مستقبل قریب میں اس بحران کا کوئی پرامن حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وفاقی حکومت بلوچ آبادی بالعموم اور گوادر کے مقامی لوگوں کے مخصوص مسائل کی بنیادی وجہ کو حل نہیں کرتی۔