ثاقب سلیم
بہار میں انتخابی ماحول بن چکا ہے، جیسے ہی انتخاب قریب آتے ہیں، سوشل میڈیا پر سیاسی تجزیہ کار اور خودساختہ دانشور مینڈکوں کی طرح اُچھلنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ جمہوریت ہے، جس کے پاس موبائل اور انٹرنیٹ ہے، وہ کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ لیکن جب کچھ لوگ عوامی مفاد کے نام پر ایسے خیالات پھیلاتے ہیں جو معاشرے اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوں، تو ان پر بات کرنا ایک سماجی ذمے داری بن جاتی ہے۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے کئی ایسے لوگ جو خود کو مسلم صحافی یا سماجی کارکن کہتے ہیں، سوشل میڈیا پر یہ بات زور شور سے کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی غیر مسلم پارٹی کو ووٹ نہیں دینا چاہیے بلکہ صرف اپنی قیادت یعنی کسی مسلم سیاسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے۔ ایک مشہور مسلم صحافی نے ، جن کے لاکھوں فالوورز ہیں،تو یہ تک لکھ دیا کہ اگر راشٹریہ جنتا دل (RJD) یا کانگریس کے ٹکٹ پر 50 مسلمان بھی جیت جائیں تو وہ پارٹی کے لیے کام کریں گے، مسلم قوم کے لیے نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو صرف اپنی قیادت کو ووٹ دینا چاہیے،اگر ایسی پارٹی نہیں ہے تو بنانی چاہیے۔
دیکھنے میں یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ ایک پسماندہ طبقے کی اپنی سیاسی پارٹی ہو جو اس کے مسائل اٹھائے، لیکن جب آپ ذرا گہرائی میں جا کر سوچتے ہیں تو یہ خیال نہ صرف مسلم سماج بلکہ پورے ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔پہلے تو سمجھ لیجیے کہ ’’صرف اپنی قیادت کو ووٹ دینا‘‘ دراصل مطلب یہ ہے کہ مسلمان صرف ایسی پارٹی کو ووٹ دیں جو مسلم مسائل اٹھائے اور جس کا سربراہ مسلمان ہو۔ بہار کے تناظر میں یہ بات دراصل اسد الدین اویسی کی پارٹی AIMIM کے لیے ووٹ مانگنے کے مترادف ہے۔
اب فرض کیجیے کہ مسلمان واقعی ایسا کرتے ہیں یعنی وہ صرف ایک مسلم پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ بھارت کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔ پورے ملک میں صرف 15 لوک سبھا سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی اگر سارے مسلمان مل کر ایک ہی مسلم پارٹی کو ووٹ دیں تو وہ بمشکل یہ 15 سیٹیں جیت سکتی ہے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ 30 سے 40 فیصد مسلم آبادی والی سیٹوں پر بھی وہ کامیاب ہو جائیں، تب بھی لوک سبھا میں ان کی تعداد 20 سے 25 سیٹوں سے آگے نہیں بڑھ سکتی یعنی کل پارلیمنٹ کا 9 فیصد بھی نہیں۔
اب ذرا دوسرا پہلو دیکھئے۔ اگر مسلمان کھل کر کہہ دیں کہ وہ صرف اپنی پارٹی کو ووٹ دیں گے، تو باقی پارٹیاں کیا کریں گی؟ ظاہر ہے، وہ مسلمانوں کے علاقوں میں ووٹ مانگنے ہی نہیں جائیں گی۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ یہ ووٹ انہیں ملنے والا نہیں۔ نتیجہ یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل پر کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لگے گی۔

جمہوریت میں ہر پارٹی اپنے ووٹروں کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔ اگر مسلمان کسی ایک پارٹی کے ووٹر بن گئے تو باقی پارٹیاں انہیں نظرانداز کر دیں گی۔ اس کے برعکس اگر مسلمانوں کے ووٹ مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوں جیسے ہندو، دلت، راجپوت یا برہمن ووٹ ہوتے ہیں تو ہر پارٹی کو یہ امید رہے گی کہ وہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کر سکتی ہے، اس لیے وہ ان کے مفاد میں کام کرنے کی کوشش کرے گی۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1967 تک کانگریس کا پورے ملک میں دبدبہ تھا۔ لیکن جیسے جیسے دوسری پارٹیاں مضبوط ہوئیں، ہر پارٹی مسلمانوں سمیت ہر طبقے کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں کئی ریاستوں میں مسلم وزیرِ اعلیٰ بنے۔ بھارتی جن سنگھ (جو بعد میں بی جے پی بنی) میں بھی مسلمان رہنما ہوا کرتے تھے، جیسے امداد صابری۔
لیکن 1990 کی دہائی کے بعد مسلمانوں نے بی جے پی کو ’’حرام پارٹی‘‘ سمجھنا شروع کیا،اس سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی نے بھی مسلمانوں کو نظرانداز کر دیا۔ آج اس کے پاس نہ مسلم وزیر ہیں، نہ بڑے مسلم چہرے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اسے مسلم ووٹ ملنے والا نہیں۔ دوسری پارٹیوں نے بھی اسی بنیاد پر مسلمانوں کے تئیں اپنی گرمجوشی کھو دی۔
اب اگر مسلمان اپنی الگ پارٹی بنا لیتے ہیں، تو یہ مذہب کے نام پر سیاست کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا دے گا۔بات سیدھی ہے جو لوگ سوشل میڈیا پر ’’اپنی قیادت‘‘ کے نام پر یہ زہر گھول رہے ہیں، وہ یا تو جذباتی لائکس کے لیے ایسا کر رہے ہیں یا پھر خود کو دانشور ثابت کرنے کے لیے۔ لیکن اگر یہ سوچ عام ہوگئی تو اس کا نقصان صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ پورے جمہوری نظام کو ہوگا۔ یہ کھیل خطرناک ہے کیونکہ سیاست میں الگ تھلگ پڑ جانا، کسی قوم کے لیے طاقت نہیں، کمزوری کی نشانی ہے۔