کووڈ کارکن امین مدثر سوشل میڈیا پر اشک بار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-04-2021
امین مدثر
امین مدثر

 

 

پرتیبھا رمن / بنگلورو

"میں اپنے جذبات کو قابو نہیں کر پا رہا ہوں۔ کووڈ نے شہر میں تباہی مچا دی ہے ۔ اسپتالوں میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ آکسیجن کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگوں کو آئی سی یو سے بھی فارغ کرکے گھر بھیجا جا جارہا ہے۔ لوگوں کو اسپتال کے بیڈ نہیں مل پا رہے ہیں۔ اسپتالوں کے باہر قطاریں ہیں۔ مجھے الفاظ نہیں مل رہے اس حالت کو بیان کرنے کے لئے ۔ ہم نے ایسے بنگلور کی کبھی بھی توقع نہیں کی تھی ۔ میری بنگلور کے ہر باسی سے عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم آپ لوگ گھر پر ہی رہیں۔ باہر قدم نکالنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچئے۔ یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ براہ کرم آگے آئے اور ریمڈیسیویر ، آکسیجن سپلائی اور اسپتال کے بیڈوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرئے''۔

یہ کسی کووڈ سے متاثرہ کنبہ کے فرد کی فریاد نہیں ہے ۔ یہ اس سرکردہ اور مخلص کووڈ کارکن کی جذباتی التجا ہے جو کووڈ ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے ساتھ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

امین سی آئی جی ایم اے انڈیا کے بانی اور سی ای او ہیں ، ان کی کمپنی ہندوستان اور بیرون ملک کے طلباء کو کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہے۔

امین مدثر ایک دن میں کم سے کم 100 کالیں سنبھالتے ہیں ، جس میں زیادہ تر لوگ کورونا کے حوالے سے کسی قسم کی مدد کے خواہاں ہوتے ہیں۔ امین کہتے ہیں کہ دو دن پہلے تین کیسز میری زندگی کے فیصلہ کن لمحات میں سے ہیں ۔ ایک لڑکی جو کورونا سے متاثرہ اپنی ماں کے لئے بیڈ کی التجا کر رہی تھی۔ میں اس بچی کو بچپن سے جانتا ہوں۔ جب میں کیریئر کا مشیر تھا تو وہ میری طالبہ تھی۔ ایک دوسرا کیس میرے دوست کا تھا جس کے والد آئی سی یو میں ہیں۔ رضاکاروں میں سے دو افراد کال کے دوران اپنے جذبات کو قابو کرنے سے قاصر ہوگئے۔

جب امین نے یہ پیغام ریکارڈ کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر آے تو ان کی آنکھیں اشک بار تھیں اور وہ زار و قطار روتے جا رہے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ وبا کی ہولناکی کتنی شدید ہے اور وہ خود کو محفوظ رکھنا کتنا ضروری ہے ۔

امین کہتے ہیں کہ لوگ اس کی شدت کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ وہ ماسک کے بغیر ہی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ دوران گفتگو وہ اسے نیچے کر دیتے ہیں ۔ امین نے اس صورتحال کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم کو روزانہ کم سے کم 300 کالز موصول ہوتی ہیں جو کہ ریمیڈیسیوور انجکشن کی دستیابی سے متعلق ہوتی ہیں ۔ ان کے بقول نجی ایمبولینسیں صرف 2 کلومیٹر سفر کرنے کے لئے 6000 سے 8000 روپے وصول کرتی ہیں۔ جب مریض کو بستر نہیں ملتے ہیں تو ایمبولینسیں مریض کو واپس لے جانے سے انکار کردیتی ہیں۔

لوگوں کو یہاں تک نہیں پتہ کہ انہیں بستر کو بک کرنے کے لئے پہلے 1912 پر فون کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امین اور ان کی ٹیم کے ساتھیوں نے اس رسپانس ٹیم کو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ آن لائن چیک کرتے ہیں کہ فلاں اسپتال میں بستر دستیاب ہے پھر جب آپ وہاں جاتے ہیں تو حقیقت بالکل مختلف ہوتی ہے۔

آمین نے بتایا کہ کچھ لوگ ریمیڈیسیر کے لئے پوچھ رہے ہیں ، کچھ دوسرے ویکسین کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں ، ان میں سے بیشتر بستروں کی درخواست کررہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود حکومت ابھی بھی انکار کرنے کی اپنی عادت سے باز نہیں آ رہی ہے۔ حکومت ابھی بھی قبول نہیں کر رہی کہ بیڈ کی دستیابی میں کمی ہے۔ امین نے مزید کہا کہ حکومت کچھ دنوں قبل تک ریمیڈیسویر کے بلیک مارکیٹ میں داخل ہونے کی بھی تردید کر رہی تھی۔ حکومت آکسیجن کی فراہمی کے بارے میں بھی بے پرواہ معلوم ہوتی ہے ۔

کورونا کی دوسری لہر کی آمد کے ساتھ ہی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن لوگوں کی رپورٹ مثبت آئی ہے وہ غیر ضروری طور پر اسپتالوں کی طرف بهاگ رہے ہیں۔ اگر وہ گھر پر ہیں تو بھی وہ مبینہ طور پر آکسیجن سلنڈر جمع کر رہے ہیں۔ امین نے زور دے کر کہا کہ 5 ایسے اسپتال ہیں جنہوں نے اپنے آئی سی یو مریضوں کو گھر جانے کو کہا ہے کیونکہ وہاں آکسیجن کی فراہمی نہیں ہے۔

غریبوں کے مکمل طور پر لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر آمین بنگلورو کے لئے سختی کے ساتھ شام 8 بجے سے صبح 8 بجے تک کرفیو لگانے پر زور دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ شہر آئی ٹی ہب کے طور پر جانا جاتا ہے ، لیکن آمین سسٹم کی ناکامی اور پہلی لہر کے مقابلے میں دوسری لہر کے سلسلے میں قوت ارادی کے فقدان پر تشویش ظاہر کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا ایک جنگ ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی وار روم نہیں ہیں۔ اس وبا سے نمٹنے کے لئے کوئی ڈیش بورڈ نہیں ہے۔ امین نے کہا کہ عوام کو بیدار کرنے کے لئے بابوؤں ، سرکاری عہدیداروں کے مابین کسی قسم کی کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔

حکومت کے اس دعوے کے بر خلاف کہ تقریبا 90 فیصد معاملات میں علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں امین کہتے ہیں کہ اس طرح کے کیس صرف 70 فیصد ہی ہوسکتے ہیں۔

امین کورونا کی پہلی لہر کے دوران بھی مرسی مشن نامی اس گروپ کا حصہ تھے جس میں لوگ بھوک اور غربت سے دوچار افراد کو مدد کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے تھے اور جس نے 800 کے قریب افراد کی آخری رسومات ادا کی تھیں ۔ جب پچھلے سال امین ، ان کے والد ، بیوی اور 2 بچوں کو کورنا ہوا تو انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ اسپتال میں بستر کیسے ملے گا ۔ جس کے بعد انہوں نے 5 دن میں ایک ویب سائٹ قائم کی۔ ویب سائٹ کو اب روزانہ 2 لاکھ ہٹ ملتی ہیں۔

امین نے بتایا کہ جیان نگر کے اپولو اسپتال نے پہلی لہر کے دوران اپنے تمام 200 بستروں کو کورونا مریضوں کے لئے وقف کر دیا ۔ لیکن اس بار اسپتال میں صرف 100 بستر ہی کورونا مریضوں کے لئے مختص ہیں۔ امین اشک بار آنکھوں سے بیحد جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ جب لوگ فون کرتے ہیں اور روتے ہیں اور سو بار التجا کرتے ہیں تو میں خود کو بے بس پا تا ہوں ۔