بی اماں کون تھیں اور انھوں نے اپنے بیٹوں کو کیا ہدایت کی تھی جس کی گونج ہندوستان بھر میں سنائی دی؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-11-2022
بی اماں کون تھیں اور انھوں نے اپنے بیٹوں کو کیا ہدایت کی تھی جس کی گونج ہندوستان بھر میں سنائی دی؟
بی اماں کون تھیں اور انھوں نے اپنے بیٹوں کو کیا ہدایت کی تھی جس کی گونج ہندوستان بھر میں سنائی دی؟

 

 

 جاوید علی خان

آج جدوجہدِ آزادی کی نام ور راہ نما، باہمّت اور نڈر خاتون بی امّاں کا یومِ‌ وفات ہے۔ 13 نومبر 1924ء کو فرشتہ اجل کی آواز پر لبیک کہنے والی بی امّاں کا اصل نام عبادی بانو بیگم تھا۔ تحریکِ پاکستان کے دو عظیم راہ نما مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر بی امّاں کے صاحب زادگان تھے۔

یہ دونوں علی برادران کے نام سے ہندوستان میں‌ مشہور ہوئے۔بی امّاں 1852ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ رام پور کی ایک معزز شخصیت عبدالعلی خان سے بیاہی گئی تھیں۔ زندگی نے وفا نہ کی اور شوہر کے انتقال کے بعد اولاد کی پرورش اور دوسری ذمہ داریاں‌ تنہا نبھانے والی

عبادی بیگم نے اس سے پہلے بھی مشکلات دیکھی تھیں اور ان کا خاندان وطن پرستی کے سبب معتوب رہا۔ ان کے چچا کو پھانسی دی گئی تھی۔ والد کو گمنامی کی زندگی گزارنا پڑی۔ یوں عبادی بیگم نے بیوہ ہونے کے بعد بھی حالات کا بہادری سے مقابلہ 

وہ ہندوستان کے سیاسی اُفق پر پہلی خاتون تھیں جنھوں‌ نے تحریکِ آزادی کے لیے نہ صرف خود کو میدانِ عمل میں‌ متحرک رکھا بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی انگریزوں کے خلاف اور آزادی کی خاطر لڑنے اور وقت پڑنے پر مال اور جان کی قربانی دینا سکھایا۔1921ء میں جب علی برادران کو قید و بند کی صعوبت کا سامنا کرنا پڑا تو بی اماں نے یہ زمانہ بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ گزارا۔ہندوستان کے گوشے گوشے میں انھوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے مسلمانوں میں وطن پرستی کا جذبہ ابھارا اور ان کو آزادی کے لیے لڑنے کا درس دیا۔

اس عظیم خاتون کو ہندوستان کے نام ور سیاسی لیڈر، مسلمان، ہندو، سکھ الغرض سبھی شخصیات نہایت عزت اور احترام سے بی امّاں کہتے تھے۔

بی اماں کی کہانی

بی اماں 1839 اترپردیش کے شہر رامپور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا عقد عبد العلی خان سے ہوا، جو رامپور صوبہ کے ایک اہم ملازم تھے۔ بی اماں ملک کی تحریک آزادی میں شریک رہیں اور اپنے کارنامے بخوبی انجام دئے۔ ان کی ایک دختر اور پانچ فرزند تھے۔ جن میں ان کے دو فرزند محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تحریک آزادی میں شریک رہے اور بی الخصوص خلافت تحریک کے لیے جانے اور مانے جاتے ہیں

بی اماں صرف قرآن شریف اور اردو پڑھنا جانتی تھیں جو اُس دور میں عورت کے لیے بہت بڑی چیز تھی۔ ان کی شادی کم عمری میں رام پور کے عبدالعلی خان سے ہوئی تھی۔ بی اماں کے والد 1857ء کی جنگ ِآزادی میں بھرپور طور پر شریک ہوئے تھے۔

ان کے شوہر وہاں کے ایک معزز شخص تھے۔ بی اماں کے شوہر کا انتقال ہوا تو بچے چھوٹے تھے۔ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی، دو بیٹوںکا انتقال ہوگیا۔ دو بیٹوں شوکت علی اور محمد علی جوہر نے انگریزی اقتدار سے ٹکر لی۔ انہوں نے اس راستے میں سختیاں جھیلیں۔ ریاست رام پور نے برطانوی ہند کی حکومت کی خوشنودی کی خاطر ان کی تمام جائداد ضبط کرلی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے 

یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی مسلمان عورت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ مسلمانانِ ہند کی آزادی کیا چیز ہے۔ ایسے دور میں رام پور جیسے قدیم الخیال لوگوں کے درمیان بی اماں اپنے انفرادی کردار کے باعث حیرت انگیز طریقے سے سامنے آئیں۔‘

انہیں تحریکِ آزادیِ مسلمانانِ ہند کی پہلی مجاہد خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں جگہ ملی۔ بی اماں کے بیٹے جب جیل میں ڈال دیے گئے تھے تو انہوں نے برقع پہن کر ایک بڑے اجلاس کی صدارت کی۔ جب وہ دونوں ’’چھندواڑے‘‘ میں نظر بند تھے تو بی اماں وہاں موجود تھیں۔

حکومت کے لوگ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کے پاس ایک ٹائپ شدہ معافی نامہ لے کر آئے کہ وہ ان پر دستخط کردیں۔ بی اماں دوسرے کمرے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھیں، اُن کو خیال ہوا کہ کہیں ان کے بیٹے دستخط نہ کردیں، انہوں نے بے تابی سے محمد علی کو پکارا۔ وہ آئے کہ نہ معلوم ماں کیا کہنا چاہتی ہیں؟

دودھ نہیں بخشوں گی

بی اماں بولیں ’’تم دونوں بھائی معافی نامے پر دستخط نہیں کرو گے، اور اگر تم نے دستخط کردیے تو میں نہ تمہارا دودھ بخشوں گی، نہ تمہاری شکل دیکھوں گی، نہ تم کو کبھی گھر کے اندر گھسنے دوں گی، ذلت کی آزاد زندگی سے جیل کی کوٹھری ہزار درجہ بہتر ہے جہاں انسان کا وقار قائم رہے۔‘‘ بی اماں نے 30 دسمبر 1921ء کو آل انڈیا لیڈیز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ہر مذہب کی خواتین شریک تھیں۔

خدا کا قانون ایک ہے سب کے لئے

انہوں نے اس میں کہا کہ ’’بہنو! خدا کا قانون مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے، قومیں مردوں اور عورتوں دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے جو فرائض مردوں پر عائد ہوتے ہیں وہی عورتوں پر۔ ہندوستان کی یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ یہاں کی عورتیں عیش و آرام کی عادی ہوگئی ہیں اور خود کو حب الوطنی کے فرائض سے الگ کرلیا ہے۔

بہنو! اب وقت آگیا ہے کہ ہر وہ مرد و عورت جس میں ذرّہ برابر ایمان اور خودداری ہو، اپنے آپ کو خدا کی فوج کا سپاہی سمجھے، ہم میں سے ہر مرد اور عورت والنٹیئر ہے۔ ملک و قوم کی حالت بے حد نازک ہے، قید خانوں سے خوف نہ کھائو، اپنے فرائض ادا کرو اور ساتھ ہی مذہبی اور سوشل ذمہ داریاں بھی فراموش نہ کرو، میں تم کو نصیحت کرتی ہوں کہ جذبات کو مشتعل کرکے اپنی گرفتاری کا سبب بھی پیدا نہ کرو، لیکن اگر گرفتار ہوجائو تو اس سے بھاگو بھی نہیں۔اگر ہمارے مرد جیلوں میں چلے جائیں گے اُس وقت آزادی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے۔

تو یہ تھی ایک غیر تعلیم یافتہ مگر سرفروش ماں کی تقریر، جس کو اللہ نے شوکت علی اور محمد علی جیسے آزادی کے علَم بردار بیٹے دیے

 انہوں نے محدود وسائل میں بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، اپنے زیور بیچ کر علی گڑھ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔بچوں کے چچا نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تو انہوں نے اپنا زیور بیچ کر چپکے چپکے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی پورا خیال رکھا۔ نہ صرف دینی تعلیم دلائی بلکہ ان کے دلوں میں دین سے گہرا لگائو بھی پیدا کیا۔

دراصل۔ 1887ء میں بی اماں نے مولانا محمد علی کو مزید تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا۔ پہلی جنگِ عظیم (1914-18) کے بعد برطانوی سامراج نے خلافتِ عثمانیہ کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنایا اور اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا تو مسلمانانِ ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔خلافت کی بحالی کے لیے زبردست تحریک چلائی گئی

 مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے بی اماں کے ساتھ مل کر ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑا۔ 1921ء میں دونوں بھائیوں کو انگریز حکومت نے گرفتار کرلیا اور مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔

اس مقدمے کی سماعت کراچی کے خالق دینا ہال میں ہوئی۔ اُس زمانے میں کسی صاحبِ دل نے ’’صدائے خاتون‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئی۔ حالانکہ اس نظم کو پھیلانے میں سوائے زبان کے اور کسی میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس نظم کا پہلا مصرع آج بھی لوگوں کو خوب یاد ہے:۔

ایک تقریر جس نے ملک کو جھنجھوڑدیا 

تحریک آزادی میں حصہ داری ترميم 1917ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں بی اماں کی تقریر اہل امت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ تحریک خلافت میں مصروف رہیں۔ اپنے دونوں بیٹے محمد علی اور شوکت علی جو علی برادر کے نام سے مشہور تھے، جیل میں رہے، اسی دوران میں بی اماں تحریک خلافت کے لیے ملک بھر کا دورہ کیا اور اس تحریک کی روح رواں رہیں۔ ان کا علانیہ نعرہ رہا کہ ” بولی محمد علی کی اماں کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دو

 اس مقدمے کی سماعت کراچی کے خالق دینا ہال میں ہوئی۔ اُس زمانے میں کسی صاحبِ دل نے ’’صدائے خاتون‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئی۔

حالانکہ اس نظم کو پھیلانے میں سوائے زبان کے اور کسی میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس نظم کا پہلا مصرع آج بھی لوگوں کو خوب یاد ہے کہ  --

بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ساتھ تیر ہے شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ہو تم ہی میرے گھر کا اجالا ،تھا اسی واسطے تم کو پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو

یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون راہ نما، جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑ بندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہندکی راہ میں پہلا قدم بڑھایا۔ ایسی ہی ماؤں کے پیروں تلے جنت ہے۔

خلافت تحریک ختم ہو گئی۔ بی اماں کی طبیعت بھی علالت میں ڈھل گئی 12 نومبر 1924ء کو انتقال کرگئیں