جب مسلم خواتین نے تعدد ازدواج کو مسترد کیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-05-2022
جب مسلم خواتین نے تعدد ازدواج کو مسترد کیا
جب مسلم خواتین نے تعدد ازدواج کو مسترد کیا

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم،نئی دہلی

 اپنی بہن،بیٹی اور دوسرے رشتے داروں کی شادیاں ان مردوں سے نہ کرو جو بغیر کسی وجہ سے دوسری شادی کے خواہش مند ہیں۔

سنہ 1920 میں ساتویں آل انڈیا مسلم ویمنز کانفرنس میں بیگم جہاں آرا شاہنواز کی طرف سے پیش کی گئی مذکورہ قرارداد کو سینکڑوں مسلم خواتین نے متفقہ طور پر تسلیم کر لیا تھا۔خیال رہے کہ آل انڈیا مسلم ویمنز کانفرنس 1914 میں بھوپال کی حکمران بیگم سلطان جہاں اور بیگم وحید، ابو بیگم اور بیگم شفیع جیسی خواتین کی قیادت میں قائم کی گئی تھی۔

اس تنظیم کے قیام کا خاص مقصد مسلم خواتین میں سماجی، تعلیمی اور معاشی اصلاحات لانا تھا۔ اس کے قیام کے چھ سال کے اندر، کانفرنس کی رکنیت چند درجن سے بڑھ کر سینکڑوں تک پہنچ گئی تھی۔ان خواتین نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں لڑکیوں کے اسکول کھولنے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز اکٹھے کیے اور تعلیم کی حمایت میں رائے عامہ تشکیل دی۔

سنہ1920تک نوجوان خواتین بڑی عمرکی خواتین کے مقابلے میں زیادہ انقلابی خیالات پیش کر رہی تھیں۔ ان خواتین نے مسلم معاشرے میں موجودہ سماجی برائیوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ جہاں آرا شاہ نواز، ان نوجوان خواتین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے ایک قرارداد پیش کی جس میں انہوں نے کنونشن پر زور دیا کہ تعدد ازدواج کو ایک غیر اسلامی عمل کے طور پر فروغ دیا جائے۔انہوں نےیہ دلیل دی کہ ہندوستانی مسلم معاشرے میں تعدد ازدواج کا رواج قرآن کے بتائے گئے پیرامیٹرز کے مطابق نہیں ہے۔انہیں سینکڑوں خواتین کی واضح حمایت حاصل ہوئی۔ ہندوستان کے تقریباً ہرخطےکی نمائندگی کرنے والی ان خواتین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ روا رکھے جانے والے تعدد ازدواج کو اسلام نے پروجیکٹ نہیں کیا ہے۔

اس تجویز کی کامیابی سےحوصلہ پاکرجہاں آرا بیگم نےمزید ایک اور تجویز پیش کی۔ مؤخرالذکر قرارداد بہت زیادہ انقلابی تھے ۔اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ تعدد ازدواج کے خلاف قراردادیں اس وقت تک پاس کرتے رہنا چاہئے، جب تک ہندوستانی مسلم معاشرے سے تعدد ازدواج کو ختم نہیں کیا جاتا۔اپنی بہن، بیٹی اوردوسرے رشتوں کی شادیاں ان مردوں سے نہ کرو جو بغیر کسی وجہ سے دوسری شادی کرنے کے خواہش مند ہیں۔

وہیں اس بات کا حلف اٹھایا گیا کہ تمام ممبران اپنے اپنے علاقوں میں تعدد ازدواج کے خلاف رائے عامہ بنانے کے لیے کام کریں گے۔ قرارداد کو اس کی اصل شکل میں منظور کیا گیا اور اس طرح ہندوستانی مسلم خواتین نے اپنے حقوق کے لیے ایک نئی جدوجہد شروع کی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بیگم جہاں آرا ایک ایسی ہندوستانی خاتون تھیں، جنہیں ووٹ کا حق ملا تھا۔ انہوں نے خواتین کے حق رائے دہی کے لیےایک زبردست مہم چلائی تھی۔

خواتین کے ووٹنگ کے حقوق پر بحث گول میز کانفرنسوں کے دوران طے پائی اور بعد میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے ذریعے حاصل ہوئی۔ واضح رہے کہ بیگم جہاں آرا شاہنواز پہلی گول میز کانفرنس (RTC) میں شامل دو خواتین مندوبین میں سے ایک تھیں۔ دوسری آر ٹی سی میں تین خواتین اور پہلی اور تیسری آر ٹی سی میں واحد خاتون تھیں۔ بعد میں جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو حتمی شکل دینے کے لیے جوائنٹ سلیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تو جہاں آرا اس کی واحد خاتون رکن تھیں۔

بیگم جہاں آرا، بیگم گیٹیارا، بیگم وحید، ذکیہ سلطانہ، اصغری خانم، عزیز فاطمہ اور دیگرخواتین جو اس کنونشن میں شریک ہوئی تھیں،انہوں نے دنیا اور آنے والی نسلوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوستانی مسلم خواتین اپنے لیے قدم اٹھا سکتی ہیں۔اپنے لیے حق کی لڑائی لڑ سکتی ہیں۔