جب مولانا محمد علی شنکراچاریہ کے لئے عدالت میں کھڑے ہوئے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2021
تحریک خلافت کے روح رواں علی برادران
تحریک خلافت کے روح رواں علی برادران

 

 

نئی دہلی: “مجھے (مولانا محمد علی) اور میرے بھائی (مولانا شوکت علی) کو اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہے کہ ہمیں ہمارے لقب مولانا سے پکارا جائے ۔ یہ ہمارے لئے بہت کم اہمیت رکھتا ہے اور ذاتی طور پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن مجھے شنکراچاریہ جی کی طرف سے ضرور بولناہے ۔ شنکراچاریہ جی کو اسی طرح خطاب کیا جانا چاہئے جو ان کے اعلی مقام اور منصب کے شایان شان ہو“۔

تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے قد آور رہنماؤں میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر نے 25 اکتوبر 1921 کو سندھ کے کمشنر بی سی کینیڈی کے سامنے یہ اعتراض اس وقت کیا جب کراچی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) زمان شاہ محبوب شاہ نے شنکراچاریہ کو خطاب کرتے ہوئے انہیں ان کے اعزازی لقب کے بغیر ان کے نام وینکٹ راما سے پکارا ۔ یہ موقع تھا جب خالق دینہ ہال کراچی میں برطانوی فوج کے مسلمان سپاہیوں کو بھڑکانے اور برطانوی سلطنت کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے الزام میں سات ملزمین پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا ۔

خالق دینہ ہال کراچی

حکومت نے برطانوی فوج کی خدمت کو حرام قرار دینے کا فتویٰ جاری کرنے پر مولانا حسین احمد مدنی ، پیر غلام مجدد اور مولانا نثار احمد پر فرد جرم عائد کی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے چار افراد جن پر فتوے کی توثیق کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا ان میں سے ایک تھے شری شاردا پیٹھ کے جگدگورو شنکراچاریہ۔ خلافت موومنٹ اور فتویٰ کے حق میں شنکراچاریہ نے دلیل دی کہ "تمام مذاھب ایک ہیں" کے نظریے پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہر ہندو کو خلافت کے مقصد کے ساتھ لازمی طور پر ہمدردی رکھنی چاہئے۔

بعد میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ مقدمہ ہندوستان کی سرزمین سے شروع ہونے والی اس جدوجہد کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے جس کا مقصد خدا کے قانون کو انسان کے تشکیل دئے ہوئے قوانین پر مقدم رکھنا ہے ۔انگریز حکومت اور اس کے ماتحت کام کرنے والی صوبائی حکومتیں کھلے طور پر اس نظریے کے مد مقابل آ چکی ہیں جو ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاھب کے پیرو کاروں کے اخلاقی اور روحانی جذبات سے متصادم ہے ۔اس لئے اب یہ صرف ہندوستان کے تعزیراتی ضابطہ   کا سوال نہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ معرکہ ہے خدا بمقابلہ انسان کا جس میں ہندوستان کے عوام اول الذکر کے ساتھ ہیں اس لئے ہمیں لازمی طور پر انگریز حکومت کی اس نظریاتی یلغار کا جواب دینا چاہئے۔

دوسری طرف جب مجسٹریٹ نے شنکرریا سے کہا کہ وہ کھڑے ہوں اور اپنا بیان ریکارڈ کروائیں تو محمد علی اٹھ کھڑے ہوئے اور مجسٹریٹ کو بتایا کہ سنیاسی ہونے کی حیثیت سے شنکراچاریہ اپنے گرو کے سوا کسی کے لئے نہیں کھڑے ہوسکتے ۔ لہٰذا  شنکراچاریہ نے گرو کے سوا کسی اور کے لئے کھڑے نہ ہونے کا اپنا مذہبی فریضہ نہیں چھوڑا جس کے نتیجے میں مجسٹریٹ نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا ۔

لندن میں  گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد علی جوہر

انگریزوں کا خیال تھا ، جیسا کہ عدالتی کارروائی سے ثابت ہوتا ہے ، کہ خلافت موومنٹ ہندوستان میں قوم پرست سرگرمیوں کو چھپانے کے لئے ایک دھوکہ ہے۔ اگرچہ واضح طور پر اس نے مذہبی زبان کو اپنایا تھا لیکن اس کے کی پشت میں کارفرما قوم پرست ایجنڈا ہر کسی پر واضح تھا۔

انگریز ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے علی برادران ، سیف الدین کیچلو ، حسین احمد، نثار احمد اور پیر غلام کے برخلاف صرف شنکراریہ کو  ہی کھڑے ہو کر بیان کو ریکارڈ کرنے کی اجازت دی اور ان کو مخاطب کرنے کے لئے اعزازی کلمات ادا نہیں کئے ۔ ان حربوں کا ان کے ساتھیوں نے خاص طور پر محمد علی نے سختی سے مقابلہ کیا اور انہوں نے ان کی تذلیل کی سخت مخلفت کی ۔ مزید یہ کہ وہ بغیر کرسیوں کے شنکراچاریہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔

اس کے بعد ، عدالت نے دیگر چھہ ملزمین کے برعکس شنکرریا کو بغیر کسی سزا کے چھوڑ دیا۔ شنکراچاریہ نے اس فیصلے پر اپنا احتجاج درج کرایا اور لکھا کہ وہ اس تحریک سے مکمل اتفاق رائے رکھتے ہیں ۔ شنکراچاریہ کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا جبکہ دیگر چھ افراد کو دو سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

ہندوستانی قوم پرستوں نے اس قدم کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ بعد میں شنکراچاریہ نے لکھا کہ وہ کیوں ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی اور پارسی کو ہندوستان کے لئے یکساں طور پر نا گزیر سمجھتے ہیں۔