زندگی کی حقیقت کیاہے؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 25-08-2023
زندگی کی حقیقت کیاہے؟
زندگی کی حقیقت کیاہے؟

 



غوث سیوانی،نئی دہلی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

 برج نرائن چکبست کے اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ دو مصرعوں میں زندگی اور موت کی حقیقت کو بیان کردیاہے۔ اس موضوع پراتنا اچھا شعر شاید ہی ملے۔حالانکہ زندگی کیا ہے؟ اس سوال پر اکثر بحث ہوتی رہی ہے مگر زندگی کا فلسفہ سمجھنا آسان بھی نہیں ہے۔

زندگی کیا ہے؟ اس کا جواب صرف اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے جب زندگی کے علاوہ بھی کچھ ہو۔ بس یوں سمجھ لیں کہ زندگی ہے اور کچھ نہیں۔ کوئی آپ سے پوچھےکہ آپ کس چیز پر کھڑے ہیں؟ تو آپ کہیں گے چھت پر۔۔۔ اور چھت کس پر کھڑی ہے؟ تو آپ کہتے ہیں، دیواروں پر اور دیواریں کس پر کھڑی ہیں؟ تو آپ کہتے ہیں کہ زمین پر اور زمین کس پر کھڑی ہے؟ تو آپ کہیں گے کشش ثقل پر۔۔۔ کشش ثقل کس چیز پر کھڑی ہے؟ تو چاند سورج پر۔۔۔ اور چاند ،سورج ،ستارے کس چیز پر ہیں؟ ۔۔۔۔ہر چیز کسی نہ کسی پر قائم ہے۔۔ کیونکہ چیز کسی دوسرے کے وجود کی محتاج ہوتی ہے اور جو کسی کا محتاج نہ ہو اور خود سے موجود ہو ، اسے خدا کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ پر قائم ہے۔ وہ خود پر مرکوز ہے، اس کا مطلب ہے، اس کا وجود کسی کا محتاج نہیں۔زندگی خدا کی محتاج ہے اور خدا سب سے بے نیاز ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق عدم سے وجود میں آنا زندگی ہے مگر یہ زندگی لازوال ہے۔ یہ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ بس دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک زندگی وہ ہے جو موت سے پہلے ہے اور دوسری وہ ہے جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اصل میں دنیا کی زندگی ، آخرت کی زندگی کو تلاش کرنا ہے۔ اس زندگی کا مقصد اس زندگی کو حاصل کرنا ہے۔ ایک زندگی وہ ہے جو نظر آتی ہے اور دوسری زندگی وہ ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔  زیادہ تر لوگ نظر آنے والی چیزوں میں زندگی کو تلاش کرتے ہیں، پیسے میں تلاش کرتے ہیں، پوزیشن میں تلاش کرتے ہیں۔ عہدہ اور دولت میں ڈھونڈتے ہیں۔آخرت کی تیاری لازمی ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ انسان با اصول زندگی جیئے اور دنیا کو ایک بہتر جگہ کے طور پر چھوڑ کر دنیا سے جائے جو بعد والوں کے لئے بہتر جگہ رہے۔

معروف عالم دین مولانا جاوید احمد غامدی کا کہنا ہے کہ اللہ نے دنیا جس اصول پر بنائی ہے، اس کا ایک پہلو آخرت ہے۔ انسان اپنے ظاہری وجود کو کتنا پاکیزہ بناتا ہے اس کی بنیاد پر آخرت کا فیصلہ ہوگا۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتیں دی ہیں۔ جو آپ کے اندر ہے اسے باہر آنے کے لئے مواقع بھی ہونے چاہئیں۔۔ ایک مکافات ہے جو ہماری صلاحیتوں کے مطابق دنیا میں برپا کی گئی ہیں۔ اگر دنیا میں صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرتے ہیں تو یہاں اس کا نتیجہ نکلتا ہے اور اگر پاکیزگی کے باب میں کمی ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ آخرت میں نظر آئے گا۔ ۔۔۔۔

مولانا غامدی کا مزید کہنا ہے کہ "ہم دنیا میں آئے ہیں اور ہمیں ساٹھ ستر سال یا کچھ زیادہ یہاں رہنا ہے تو ہمیں دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ۔۔۔ اپنی زندگی کے لئے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، اس کا انتظام کیا گیا ہے، مواقع بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنائیں اجتماعی سطح پر بھی ۔۔۔ انفرادی سطح پر بھی۔۔۔ ہر انسان کو اس کے لئے جد وجہد کرنی چاہئے۔ یہ اللہ کو پسند ہے۔ اس کو وابتغوا من فضل اللہ کہا گیا ہے۔یعنی اللہ کہتا ہے کہ جب تم اس زندگی کو بہتر کرنے کے لئے نکلتے ہو،تو تم میرے فضل کی تلاش میں نکلے ہو۔۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے۔ ۔۔۔ دونوں زندگیوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہئے اور ترجیح اس زندگی کی ہونی چاہئے جو دائمی زندگی ہے"۔

زندگی واقعی بہت خوبصورت ہے، اگر کوئی بوجھ ہے تو وہ خواہشات ہیں۔ بہرحال اگر زندگی کی تلخی، پریشانی اور مصائب، ہماری اقدار کی مٹھاس اور عاجزی ہم سے چھین لی جائے تو سمجھ لیجئے کہ ہم نے اپنی زندگی کھو دی ہے۔

زندگی ہمارے لیے ایک درس گاہ ہے جس میں ہر قسم کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی صلاحیت، ذہانت اور وسعت نظر کے مطابق دنیا کے بارے میں جانتا ہے۔ زندگی، بلاشبہ، ایک شاندار چیز ہے جس میں ہر گھنٹے، ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی گنجائش رہتی ہے۔

زندگی کو غم اور خوشی کا ڈرامہ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی انسان اس دنیا میں آتا ہے اسے مختلف جذبات اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں اسے اپنی زندگی میں بہت سی خوشیاں اور شادمانیاں ملتی ہیں وہیں اسے سنگین حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کی اس کوشش میں کبھی انسان کامیابی سے وابستہ ہوتا ہے اور کبھی ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔ جو لوگ زندگی کے مسائل اور مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں وہ اپنی ہمت اور کوشش سے ان پر قابو پا لیتے ہیں لیکن بزدل یا کم ہمت لوگ ان عارضی ناکامیوں سے خوفزدہ ہو کر زندگی سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

زندگی کا مطلب ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ پوچھا جائے گا لیکن ہر ایک کے پاس مختلف جواب ہیں۔ کبھی کبھی زندگی بے مقصد لگتی ہے لیکن آخر میں آپ کو بہت سے عوامل ملیں گے جن کی وجہ سے آپ کو لگتا ہے کہ زندگی اچھی اور پرلطف ہے۔بہرحال زندگی جس قدر انسان کے لئے پر کشش ہے، اسی قدر اس کے خاتمےکا تصور آدمی کے لئے تکلیف دہ اور ڈرانے والا ہے۔ مولانا وحیدالدین خان کا خیال ہے" موت  کے لفظ کو اگر آپ ڈکشنری میں دیکھیں تو اس ہیں موت کا مطلب یہ لکھا ہوا ہوگا کہ زندگی کا ابدی خاتمہ:

Permanent cessation of life

موت کی یہ لغوی تعریف، موت کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آدمی مکمل انسان کی حیثیت سے پیدا ہو، لیکن تھوڑی مدت تک زندہ رہ کر ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کی تمام آرزوئیں اور اس کی تمام صلاحتیں اس طرح مٹ جائیں کہ دوبارہ ان کا وجود میں آنا ممکن نہ ر ہے ۔

اسلام اس کے مقابلے میں ، زندگی کا مثبت تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق ، موت زندگی کا خاتمہ نہیں ، موت کا مطلب انسان کے لیے اس کے دوسرے دور حیات کا آغاز ہے"۔

آپ اپنی زندگی کیسے گزارنا چاہتے ہیں؟ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے مگر اسلام ، زندگی کو اللہ کی عنایت مانتا ہے اوراسی لئے اس پر حق بھی اللہ کا ہی ہوتا ہے۔ اس کی مرضی کے مطابق زندگی جی جائے۔ یہ زندگی تب ہی بہتر ہوتی ہے جب مثبت نظریات اور تصورات کے ساتھ جی جائے۔ جو سانسیں ہم دوسروں کی بھلائی کے لیے گزارتے ہیں ، وہی اچھی زندگی ہے لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ زندگی کب اور کیسے بامعنی بنتی ہے۔

مولانا وحید الدین خان کے مطابق "زندگی ایک آرٹ ہے۔ جو لوگ اس آرٹ کو جانیں وہی اس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ جو لوگ اس آرٹ سے بے خبر ہوں، ان کے لئے اس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔ اس آرٹ کو اگر ایک لفظ میں بیان کرتا ہو تو اس کو مثبت طرز فکر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی رد عمل کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر کھلے انداز میں سوچنا، اور پھر غیر متاثر ذہن کے تحت رائے قائم کر کے اپنا منصوبہ بنانا۔ مثبت طرز فکر کے برعکس وہ طرز فکر ہے جس کو منفی طرز فکر کہا جاسکتا ہے۔ مثبت طرز فکر اگر اپنی فکری صلاحیتوں کو عمل میں لانے کا نام ہے تو منفی طرز فکر یہ ہے کہ آدمی کی اپنی فکر کی صلاحیت ارتقاء نہ کر سکے ، وہ صرف خارجی احوال کے زیر اثر سوچے اور اسی کے مطابق اپنی رائے بنائے"۔