گرانڈ اسٹریٹیجی کیا ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-06-2021
حکمت عملی کا کھیل
حکمت عملی کا کھیل

 

 

 دیپک ووہرا

میں اپنے ملک ہندوستان کے ان دانشوروں سے تنگ آ چکا ہوں جو آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اپنے عالیشان گھروں میں یہ تبصرہ کرتے پاے جا تے ہیں کہ ہندوستان کے پاس کوئی "گرینڈ اسٹرٹیجی" نہیں ہے۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ "گرینڈ اسٹرٹیجی" یا "عظیم حکمت عملی" کا کیا مطلب ہے تو وہ کوئی مربوط جواب نہیں دے پاتے ۔

گرینڈ اسٹرٹیجی ایک طویل عرصے کے دوران اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی ملک کی فوجی ، سفارتی اور معاشی طاقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے جس میں سب سے اہم مقصد بین الاقوامی سطح پر اگر قیادت نہیں تو کم از کم احترام اور قبولیت کا حصول ہے ۔ اس کے اجزاۓ ترکیبی لچکدار ہوتے ہیں جو حالات اور معروزی صورتحال کے تقاضوں کے مطابق مختلف شکلوں میں یکجا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سن 1960 کی دہائی میں ، میں نے جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی شاندار "حکمت عملی" کے بارے میں بہت سی بکواس سنی۔ اگر اس سے پاکستان کی آخر کار تقسیم ہو گئی تو اس کا فائدہ کیا ہوا ؟ اس طرح 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کی "عظیم حکمت عملی" دوبارہ ناکام گئی جب وہ خوشی خوشی ایک امریکی باج گزار ریاست بن گیا ۔ سن 2002 میں پاکستانی طالبان کے دوبارہ ظہور کے بعد جب اسلام آباد نے پتھر کے زمانے میں جانے سے بچنے کے لئے ان کے ساتھ متعدد امن معاہدے کیے۔ لیکن آئرش ڈریگر کی طرح پاکستانی طالبان بھی اب اپنے خالق کا خون چاہتے تھے کیوں کہ اب ارد گرد روسی خون موجود نہیں تھا ۔

پاکستان کی جدید ترین "عظیم الشان حکمت عملی" اس کے وزیر خارجہ کے الفاظ میں ، اس کی خود کی پرانی "عظیم حکمت عملی" کو تبدیل کرنا ہے۔ کیا سابقہ ​​یو ایس ایس آر کے پاس عالمی تسلط کے لئے عمدہ "عظیم حکمت عملی" نہیں تھی؟ براہ کرم 1950-1980 کی دہائی کے دوران سوویت تجربہ کی تعریفوں میں   لکھے گیے  مواد کو پڑھ لیں ۔  پھر 1991 میں کیا ہوا؟ یو ایس ایس آر بغیر کسی سے پوچھے خود کے حصے بکھرے کرا بیٹھا ۔

امریکہ کے پاس کمیونزم سے دنیا کو بچانے کے لئے ایک "عظیم الشان حکمت عملی" تھی۔ لیکن وہ بھی بری طرح ناکام ہوئی جیسا کہ ویتنام جنگ میں اس کی ہزیمت سے ظاہر ہوتا ہے ؟- جب 1979 میں جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو امریکی قیادت نے ، چاہے اس وجہ جو بھی رہی ہو (قومی سلامتی کے مشیر زیبگنیو برزنزکی کے مطابق ) امریکہ نے دشمن ک ختم کرنے کے لئے اپنے گھر کے پچھواڑے میں گندگی کو پنپنے دینے کا فیصلہ کیا اور اپنی "عظیم حکمت عملی" کے تسلسل میں ایک اسلامی مزاحمت کی حوصلہ افزائی کی ۔ امریکا کو بخوبی علم تھا کہ افغانستان کا معرکہ ایک ناقابل تسخیر جنگ ہے جس کے نتیجے میں اسے وسائل ، فوجیوں کے حوصلے اور خواہش کے فقدان کا سامنا کرنا پڑے گا ، جیسا کہ ویتنام نے امریکیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اسی طرح افغانستان نے 19 ویں صدی میں انگریزوں کے ساتھ کیا تھا اور ماضی بعید میں ہندوستان 2،300 سال پہلے نام نہاد "عظیم" جنگجو سکندر کے ساتھ کیا تھا ۔ ٹیکسن سے کانگریس کے رکن اور افغان مجاہدین کے حمایتی چارلی ولسن نے کبھی کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ ماسکو جانے والے لاشوں کے تھیلوں کی گنتی کرے ۔ مجاہدین کو تربیت دی گئی ، جدید ترین اسلحہ دیا گیا (بشمول انسان کے کندھوں سے چلنے والے اسٹرنگر میزائل ) تاکہ سوویت فوجیوں کو حقیقی معنوں میں فوجی طور پر شکست ہو سکے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ مجاہدین اپنی مرضی سے قابو کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے شکر گزار ہوں گے کہ انہوں نے نفرت انگیز "روسی" سے نجات دلانے میں ان کی مدد کی۔

امریکہ فیلکس شوارزن برگ کے اصول کو بھول گیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آسٹریا ماگیار باغیوں کو شکست کے لئے روسی مدد کا شکر گزار ہوگا ، آسٹریا کے وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ آسٹریا اپنی ناشکری سے دنیا کو حیران کردے گا۔ لال ریچھ یا سوویت روس کے گرنے کے دس سال بعد نائن الیون کا سانحہ پیش آیا۔ افغان "حریت پسندوں" کی وفاداری کا کیا بنا ؟ وہ تو اچانک سے دہشت گرد بن گئے!

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی "عظیم حکمت عملی" خود اس کے لئے مضر ثابت ہوئی ہے ؟ برزنزکی نے برسوں بعد بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا کہ "عالمی تاریخ کے لئے کون سا نقطۂ زیادہ اہم ہے --- طالبان یا پھر سوویت یونین کی شکست ؟

جب 2001 میں حملہ ہوا تو امریکہ کے لئے ملنے والی عالمی سطح کی ہمدردی حقیقی تھی۔ اس دن ہم سب امریک کے ساتھ تھے کیونکہ امریکہ انتخاب اور آزادی کے انتخاب کی بات کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی اس کی تباہی کے بعد باز یابی کیلئے جاپان کی "عظیم حکمت عملی تھی " اسٹریٹجک صنعتوں جیسے کہ اسٹیل ، مشینری ، الیکٹرانکس ، کیمیکلز ، آٹوز ، جہاز سازی اور طیاروں کو بنا کر اسے مغربی منڈیوں میں سپلائی کر دینا ۔ جاپان نے امریکا کی خواہش کے خلاف مزاحمت کی جس کہ تحت اسے غیر ملکی سامانوں کے لئے اپنا مارکیٹ مزید کھولنا تھا ۔ 1980 کے عشرے میں جاپانی مخالف جذبات اس وقت نظر آئے جب امریکی کانگریس نے جاپانی الیکٹرانکس کی اشیاء کو توڑ دیا ، اور سینیٹ نے جاپانی تجارت کے "غیر منصفانہ" طریقوں کی مذمت کے لئے قرار دات پیش کی ۔

سن 1985 میں ہونے والے پلازہ معاہدے کے نتیجے میں جاپانی کرنسی کی قدر میں کمی ہو گئی اور جاپانی برآمدات مہنگی ہو گئیں- اس وجہ سے 1980 کی دہائی کے آخر میں جاپانی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوئی جس کے اثرات اب بھی جاپان محسوس کرتا ہے ۔

اس "عظیم حکمت عملی" کا پھر کیا بنا ؟ چینی وسوسے کسی زمانے میں مقبول کھیل ہوتے تھے۔ لوگوں کی ایک لمبی لائن کے ذریعے کسی پیغام کو جاری کیا جاتا تھا لائن کے ہر فرد سے منتقل ہوتا ہوا یہ لائن کے آخری شخص تک پہنچتا تھا ، اس طرح یہ دیکھا جاتا تھا کہ کس طرح وقت اور فاصلے کے ساتھ حقائق مسخ ہو جاتے ہیں ۔ . چین کی "عظیم حکمت عملی" ہے کہ وہ دنیا کی قیادت کرے یہ تو تبھی ممکن ہوگا جب سامنے والا ملک اس کی قیادت کو قبول کرے ۔ بات 1950- 1970 کی دہائی کی ہے جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی ۔ چین نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرکے زبردست خیر خواہی حاصل کی تھی ۔ جب 1970 کی دہائی میں کمیونسٹ چین نے اقوام متحدہ میں تائیوان کی جگہ لی تو چند ممالک نے ہی اس پر اعتراض کیا۔ جب چین کی معاشی طاقت میں اضافہ ہوا تو اس نے "چیک بک سفارت کاری " پر ہی انحصار کیا اور اپنی نرم طاقت کو تقویت دینے کے لئے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کا ایک سلسلہ کھولا۔ اسے مغربی ٹکنالوجی اور پیسے کی ضرورت تھی لہذا "غیر ملکی شیطان" "غیر ملکی دوست" بن گیا لیکن اب جب کہ وہ دودھ پی کر جوان اور تواناں بن چکا ہے تو اس نے اپنے ڈنک بھی نکالنے شروع کر دئے ہیں ۔

تیس سالوں تک مغربی لبرل جمہوریت پسندوں کا خیال تھا کہ مغرب کے ساتھ مشغولیت سے چین کا طرز عمل معتدل ہو گا اور اسے زیادہ پرامن بنایا جا سکے گا۔ امریکی کمپنیوں نے چین سے حاصل ہونے والے بھاری منافع پر نجات دیدی۔ چین نے مغرب کی ٹکنالوجی کو ریورس انجینئرنگ کے ذریعہ حاصل کیا ، مغرب کے تحقیقی اداروں میں دراندازی کی اوراپنے "پُرامن عروج" کا زور زور سے اعلان کیا۔ چین، آہستہ آہستہ دنیا کی منڈی بننے کے بجائے ، دنیا کی فیکٹری بن گیا۔ پچھلی دہائی کے وسط تک اس نے اپنی طاقت کو بخوبی محسوس کیا اور مغرب سے کہا کہ وہ ہمالیہ اور بحیرہ جنوبی چین میں اپنے اپنے اثر و رسوخ کو ختم کرے ۔ "پُرامن عروج" کا منتر ترک کردیا گیا ۔

باراک اوباما کے اکیسویں صدی کے امریکی چین شراکت داری کے کے اصول کو اس وقت زبردست دھکا لگا جب 2015 میں چینی فوج نے فخریہ انداز میں دعوا کیا کہ اس کی طاقت امریکی فوج کے برابر ہے ۔

چین نے اپنی جارحانہ حکمت عملی کو ختم نہیں کیا اور لگاتار اپنے مخالفین کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ملائیشیا نے احتجاج کیا ہے کہ چینی جنگی طیاروں نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ۔

چین کی ضد برقرار کیا چینی گرینڈ اسٹریٹیجی کامیاب ہوچکی ہے؟ تبت ، تيان آن من ، تائیوان ، سنکیانگ ، ہانگ کانگ میں چینی مداخلت نے اسے بہت سے دوستوں سے محروم کر دیا حالانکہ چین کو یقین ہے کہ معاملات دھیرے دھیرے نرم پڑ جائیں گے۔ لیکن چین کی "عظیم حکمت عملی" کو ناکام بناتے ہوئے یہ سارے معاملات ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

چین کے عالمی نظم و نسق کے چیلنج سے ناراض "کویڈ ری لیٹرل سیکیورٹی ڈائیلاگ" کو جو 2007 میں قائم ہوا تھا (2004 سونامی کے دوران ہندوستان ، امریکی ، جاپانی اور آسٹریلیائی بحری فوج کی کامیاب کوششوں کے بعد) ، اسے ایک مضبوط حفاظتی پلیٹفارم کے طور پر 2017 میں دوبارہ زندہ کردیا گیا تھا۔ حیرت زدہ چین نے بظاہر اسے نون اسٹارٹر قرار دے کر مسترد کردیا ۔ لیکن یہ نون اسٹارٹر ثابت نہیں ہوا۔ اس بات سے کہ وہ "کویڈ ری لیٹرل سیکیورٹی ڈائیلاگ" کی سمندری فائر پاور کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، چین بخوبی آگاہ ہے اور اسی خفت کو مٹانے کے لئے اس نے ہندوستان کے خلاف ہمالیہ میں ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کی اور اپنی ناک کٹائی ۔

ہندوستان نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے متعدد چینی ایپس پر پابندی عائد کر دی اور چینی کمپنیوں کو ہندوستان کے 5 جی رول آؤٹ میں حصہ لینے سے منع کر دیا ۔ کویڈ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوگیا اور چین سے ناراض دیگر طاقتیں اس کا حصہ بننے لگیں ۔

چین کے بی آر آئی پروجیکٹ کے متاثرین کی آنکھیں کھولنی شروع ہو گئیں ۔ چین اپنے ہی جال میں پھنسنے لگا ہے ۔ بہت سےممالک نے یا تو اپنے پروجیکٹ منسوخ کردیئے یا اس پر نظر ثانی شروع کر دی ہے ۔

کیا یہ ہے "عظیم حکمت عملی" ؟ انسانی تاریخ کی تیز ترین رفتار سے اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کو کھونے کا چین نے ریکارڈ بنا لیا ۔ چین کو شدید داخلی مسائل بھی درپیش ہیں اور چین کے رہنماؤں نے اپنا زیادہ تر وقت ان پریشانیوں سے نمٹنے میں صرف کیا۔ سن 2020 تک چین نے محسوس کیا کہ اس کے اندرونی چیلنیج (بدعنوانی ، غربت ، دولت اور آمدنی میں عدم مساوات ، ایک عمر رسیدہ آبادی ، کمزور معاشرتی حفاظت کا جال ، اور ماحولیاتی خرابی ) جلد دور نہیں ہونے والے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر اپنے لوگوں کو مجبور کریں اور ایک نیے لانگ مارچ میں عوام کی قربانی مانگیں ۔ چین کی اس آمرانہ فطرت نے ایک دوسرا ہتھیار بھی استعمال کیا جسے ہم ووہا ن وائرس کی شکل میں دیکھتے ہیں ۔ چین اب واپس بیٹھ چکا ہے اور اس دنیا کو بحال کرنے کے وعدے کے ساتھ مگر مچھ کے آنسوں بہا رہا ہے ۔

دوسری طرف ہندوستان نے اس بحران میں دنیا کی مدد کی جس سے اس کی ساکھ اور بڑھ گئی۔ چین نے ہندوستان کو گرانے کے لئے گلوا ن پڑ حملہ کیا جیسا کہ اس نے 1962 میں کیا تھا جب ہندوستان کا مرتبہ عالمی سطح پر بہت بلند تھا۔ چین کی ناک اور وقار دونوں بری طرح سے مجروح ہوئے ۔ اس کے نام نہاد سفارتکار اور جنگجو بھیڑے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے گٹر کے لیول کی غلط زبان اور دھمکیوں پر اتر آئے اور جس نے ایک عظیم تہذیب کی حیثیت سے چین کی ساکھ کو بگاڑ کے رکھ دیا ۔

جب آسٹریلیا نے اس وائرس کی ابتدا کے بارے میں آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو چین نے اسے ایشیاء کا سفید کوڑا کرکٹ اور چین کے بوٹ میں پھنسی چیونگم کہ کر مسترد کر دیا ۔

چونکہ عالمی سطح پر چین سے صفائی مانگنے کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویروولوجی میں امریکی حمایت یافتہ فوجی تجربہ کے غلط ہو جانے کے پختہ ثبوت کے ملنے سے یہ معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے ۔ چین کی خصوصیات کی حامل اس کی "عظیم حکمت عملی" نے اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے اور اب اس کی شبیہہ عالمی سطح پر اپنے نچلے ترین مقام پر ہے۔

وبائی مرض پر غصے میں مبتلا کینیڈا ، امریکا ، برطانیہ اور یوروپی یونین نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر چینی عہدیداروں پابندی لگا دی۔ اس کے جواب میں ایک سینئر چینی سفارتکار نے بے شرمی کے ساتھ کینیڈا کے وزیر اعظم کے بارے میں ٹویٹ کیا کہ "لڑکے! آپ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ چین اور کینیڈا کے مابین دوستانہ تعلقات کو خراب کردیا ، اور کینیڈا کو امریکہ کا کتا بنا دیا"۔ کسی بھی دوسرے ملک میں اس کے کسی سفارت کار کے ذریعہ اس طرح کی توہین آمیز زبان سرزنش کا سبب بنتی ۔ لیکن آزادانہ تقریر کی جنت چین میں اسے ترقی ملی ۔

اسی طرح اسلام آباد میں موجود چین کے نمبر دو کے عہدیدار نے امریکہ میں نسلی علیحدگی کو اجاگر کرتے ہوئے ایک مہم کا آغاز کیا۔ امریکی قومی سلامتی کے ایک سابق مشیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ “آپ نسل پرست ہیں۔ اور حیرت انگیز طور پراسے سے لاعلم بھی ہیں - اور اسے وطن واپس بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ کیا ہوا ہوگا ؟ وہ چینی وزارت خارجہ کا ترجمان بن گیا ۔

چین کو یقین ہے کہ امریکہ ایک عظیم عالمی طاقت بننے کے اس کے عزائم کے لئے ایک خطرہ ہے ۔ یہ مفروضہ امریکہ کے حوالے سے چین کی "عظیم حکمت عملی" کا ایک لازوال حصہ بن گیا ہے جو "حکمت عملی" میں ایک بنیادی گناہ ہے اور لچک اور موافقت کا تقاضا کرتا ہے۔

نشے میں دھت کسی متشدد کی طرح چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وائرس کی غیر ملکی بنیاد کے بارے میں سازش کے نظریات کو ٹویٹ کرتے ہیں ، افواہیں پھیلاتے ہیں اور 2022 کے بیجنگ سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کرنے والی کسی بھی قوم کو کڑی سزا دینے کی دھمکی بی دیتے ہیں ۔

سن 2020 سے وائرس سے نکلنے والی قوم پرستی چینی طرز عمل کا جزوہ لاینفک بن گیا ہے۔ چین اپنی بیان بازی سے ہی خود کو زہر دے چکا ہے۔ سن 2020 میں اس نے غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدر کردیا اور پھر بی بی سی پر پابندی عائد کردی۔ اپریل 2021 میں برسلز نے سنکیانگ میں ایغوروں کو دبانے کے الزام میں چینی عہدیداروں پر پابندی لگا دی ، لیکن خاموش ردعمل کے بجائے بیجنگ نے جوابی پابندیاں عائد کردیں اور اس نے یورپی یونین کے ساتھ سرمایہ کاری کے قیمتی معاہدوں کو خطرے میں ڈال دیا۔

تو بڑھتی ہوئی بین الاقوامی مخالفت سے بچنے کے لئے چین کی نظر ثانی شدہ "عظیم حکمت عملی" کا کیا مطلب ہے؟ جون 2021 میں اس نے چینی عہدیداروں سے چین کے لئے ایک "قابل اعتماد ، پیار کرنے والی " امیج بنانے کی اپیل کی تھی ۔ بدھ مت سے تعلق رکھنے والوں کو کیا اچانک گوتم بدھ کا مشاہدہ یاد آیا کہ تین چیزیں زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں ہوسکتی ہیں - سورج ، چاند اور سچائی؟

چینی بھیڑیوں ! براہ کرم واپس پلٹو کیونکہ تمھاری جارحیت نے تمھیں ہی دسنا شروع کر دیا ہے ۔ ژی کی موجودہ "عظیم حکمت عملی" چین کی معیشت کو اندرونی طور پر مستحکم کرنے کے لئے نیا پانچ سالہ منصوبہ ہے جس میں تنہا رہنا ، چین کی اپنی گھریلو مارکیٹ پر انحصار کرنا ، غیر مستحکم اور غیر یقینی دنیا پر انحصار کم کرنا اور تکنیکی خود کفالت کو حاصل کرنا ہے ، کیونکہ وہ ہمیشہ تو غیر ملکی اعلی تکنیک کی نقل تو نہیں کر سکتا ۔ ہندوستان نے چین کو زہر دیکر یا سینہ ٹھوک کر سے نہیں بلکہ خاموشی سے اور بڑے مؤثر انداز میں چیلنج کیا ہے۔ یہ "عظیم حکمت عملی" نہیں تو پھر کیا ہے؟