گنگاجمنی تہذیب کیا اور کیوں ضروری ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-03-2021
ایسا دیس ہے میرا ۔۔۔۔۔۔
ایسا دیس ہے میرا ۔۔۔۔۔۔

 

 

awazurdu

پروفیسر اخترالواسع

ہندوستان خوش نصیبی سے تمام مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی روایات سے پوری طرح آراستہ ہے۔ تیج تہوار اور جلسے جلوس ہمارے زندگی کی علامت ہیں۔ یہاں ہولی کوئی مناتا ہے اور ان کی ساج سجا کا کام دوسرے دیکھتے ہیں۔ مرتا کوئی ہے لیکن اس کی آخری رسومات کی تیاری میں کوئی دوسرا سرگرم یوگدان کرتا ہے۔یہاں کی درگاہوں پر حاضری دینے والوں میں بڑی تعداد میں غیرمسلم مرد، عورت اور بچے ہوتے ہیں اور ان سب سے مل کر بنتا ہے ہندوستان۔ یہ وہ ملک ہے جہاں بھارت رتن استاد بسم اللہ خان ہیں، بمبئی والوں کی فرمائش پر کہا تھاکہ آپ مجھے تو بمبئی لا سکتے ہیں گیگا میّا کو نہیں۔ جہاں ہمارے عہد کے ایک عظیم تخلیق کار راہی معصوم رضا نے نئے عہد کا وید ویاس بننے کے لئے بی آر چوپڑا سے کہا تھا کہ وہ نئے یُگ کی مہابھارت کی پٹ کتھا خود ہی لکھیں گے کیوں کہ وہ گنگا کے بیٹے ہیں۔ یہ باتیں اس لیے یاد رکھنے کی ہیں کہ کچھ لوگ اس ساجھی سنسکرتی کو بھلا دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں بقول رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری قافلے آتے گئے اور ہندوستاں بنتا گیا، جو آیا وہ اس مٹی کا حصہ بنتا گیا۔ وہ یہاں اسی طرح رچ بس گیا جیسے آنکھ میں کاجل اور رت میں خوشبو بس جاتی ہے۔ 

    یہاں تصوف کی روایت میں وصل خواہی اور صلح کل کی روایت کو جنم دیا تو دوسری طرف بھکتی کی پرمپرا میں مانو پریم کی اس پرواہ کو آگے بڑھایا جس میں شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے۔ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔

یہ سلسلہ ہماری شاعری، ہماری سوچ اور ہمارے باہمی رشتوں میں برسوں سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ سرو دھرم سنبھاؤہو یا وسودھیو کٹمبکم، ساری مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھنا۔ دھرم میں کسی زور زبردستی کو جگہ نہ دینا۔ پڑوسی کو حقیقی رشتے دار سے زیادہ اہمیت دینا۔ یہ سب اسی کے خمیر اور ضمیر سے بنے ہیں۔ یہ سب کل تک ہمارے شعور اور شخصیت کا ایسا حصہ تھے جسے ہم سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ادھر نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ ہم اس سے بیزار بیزار سے رہتے ہیں۔ جب کہ ہندوستان کو جنت نشان بنانے کے لئے، دنیا میں ایک بہتر مقام دلانے کے لیے، ایشیا میں ایک مستحکم اور مقتدر طاقت بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ساجھی سنسکرتی، اپنی گنگا جمنی تہذیب اور اپنی خیرسگالی کو اور زیادہ وقیع اور مضبوط بنائیں۔ ہمیں بقول اقبالؔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ:

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

 برسوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

تو اس دشمنی کو شکست دینے میں ہم اس لیے کامیاب ہوئے ہیں کہ ہم نے شر کو نہیں خیر کو اپنایا ہے، ہم نے ظلم کی جگہ انصاف کا ساتھ دیا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ تاریخ ہی اس کی گواہ ہے کہ اشوک اسی وقت اشوک اعظم بنا جب اس نے کلنگا کے بعد نفرت، جنگ اور تشدد سے توبہ کی۔

آج ایک ایسی دنیا جو علاقائی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے اس میں خودانحصاری ناگزیر ہو گئی ہے، زمین کی طنابیں کھنچ گئیں ہیں، فراق و فصل کے تمام پرانے تصورات فرسودہ ہو گئے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے خود کو قریب لانا چاہیے نہ کہ دوریوں کو بڑھانا چاہیے۔ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جو کہ اس کا ایک بہترین، مثبت اور اچھا نمونہ پیش کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ پچھلے ہزاروں سال سے اس ملک میں مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور تحمل کا جو نمونہ پیش کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہمارے پاس رام جیسا مریادا پروشوتّم، کرشن جیسا کرم یوگی، مہاتما بدھ جیسا انسان دوست، مہاویر جیسا شانتی دوت، بابا گرو نانک دیو جیسا خدا پرست اور تمام سامی مذہبی روایات جن میں اسلام کی جلوہ گری ساری دنیا کے لیے خاص طور پر قابل ستائش ہے، موجود ہے۔ ان سب کو جمع کرکے اپنے وطن کی زینت کو شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کے لفظوں میں

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

 اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

 کو حقیقت میں بدلنا چاہیے۔

اس بات کو دہرانے کی بالکل ضرورت نہیں کہ دنیا میں کوئی ملک و قوم اس وقت تک اپنی جگہ نہیں بنا سکتا جب تک کہ اس کے اپنے داخلی دائرے میں محبت، پیار، یقین، اعتماد اور اعتبار نہ پایا جاتا ہو۔ اگر ہندوستان کو ہمیں جیسا کہ ہماری خواہش ہے اور بجا ترین خواہش ہے کہ ہم ایک دفعہ تاریخ کے پردے پر اسے اسی طرح نمایاں کریں جیسا کہ کبھی اس کی پہچان تھی۔ ایک عالمی طاقت بنائیں نہ صرف مادّی بلکہ روحانی بھی۔ جہاں سے ویدک عرفان کی روایات دنیا کو ایک بار پھر ملیں، جہاں اوپ نیشد کے دانشوری سے فیض یاب ہوں، عقل و وجدان کے نئے رشتوں سے ہم آہنگ ہوں اور ساتھ میں دوسری مذہبی بصیرتوں سے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ اسلام کی وحتِ الٰہ، وحدتِ آدم اور وحدتِ کردار کے سبق کو حاصل کر سکیں اور ہم عصر دنیا میں کس طرح اسلام نمایاں ہوسکے اس کو بھی پیش کر سکیں۔جس کی دنیا نہ جانے کب سے متلاشی ہے اور منتظر بھی۔

 ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب جب سیاست مذہب کا اپنے مقاصد فاسدہ کے لیے استعمال کرتی ہے تو رام کو بن واس کے لیے جانا پڑتا ہے، عیسیٰ کو صلیب پر چڑھنا پڑتا ہے، حسین کو کربلا میں شہید ہونا پڑتا ہے اور ہمارے زمانے میں مہاتما گاندھی کو گولی کھانی پڑتی ہے۔

کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ان حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم شر کی جگہ خیر، فرقہ پرستی کی جگہ خیرسگالی اور کبیر کے ڈھائی اکچھر کو اپنا مول منترا بنا لیں۔ انسانی زندگیوں اور اپنے پیارے وطن کو محبتوں کی خوشبو سے سرشار کر دیں۔ آئیے ہندوستان کو خسرو، میرا و میر اور تلسی و نظیر کی دھرتی بنائیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم بھارت کی عظمت کے لیے، ایکتا کے لیے، آپسی محبت کی قیمت پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)