استقبالِ مبارک ماہِ رمضان المبارک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-04-2021
رمضان المبارک  کی آمد
رمضان المبارک کی آمد

 

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع

اسلام کے جو پانچ ستون ہیں ان میں سے ایک صوم یا روزہ بھی ہے۔ قرآن کریم میں روزے کی فرضیت کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تم پر بھی ایک مہینے کے روزے اسی طرح فرض کیے گئے جیسے تم سے پچھلی امتوں پر کئے گیے تھے۔ اس طرح پتا چلا کہ روزہ اسلام سے قبل کی گزشتہ روایتوں میں بھی کسی نہ کسی روپ میں موجود تھا چاہے اسے ورت کہا گیا ہو یا اُپواس، اسے فاسٹ کہا گیا ہو یا کچھ اور نام دیا گیا ہو۔ روزہ جو فارسی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ایک طرح سے فاقہ کشی ہے جب کہ قرآن میں جو عربی لفظ صوم استعمال ہوا ہے وہ زیادہ جامع، معنی خیز اور اجتماعی خوبیوں سے عبارت ہے اس کا مطلب ”اپنے آپ کو روکنا“ ہے۔یہ روکنا کھانے اور پینے سے ہی نہیں، دنیا کی تمام خواہشات، لذات اور برائیوں سے روکناہے۔ مثال کے طور پر آپ سحری یعنی صبح صادق سے پہلے کچھ کھا پی کر روزے کی نیت کرتے ہیں اور غروب آفتاب تک کتنی ہی شدت سے بھوک اور پیاس لگی ہو لیکن آپ کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ موسم شدید ہے، گرمی کی وجہ سے پیاس میں حلق میں کانٹے ڈال دیے ہیں، زبان خشک ہو رہی ہے، آپ کی دسترس میں شربت بھی ہے اور ٹھنڈا پانی بھی، کوئی دیکھنے والا اور روکنے والا بھی نہیں ہے لیکن آپ اپنے نفس کے تقاضوں کو مارتے ہیں اور خدا وند قدوس کی رضا اور خوشنودی کے لیے صبر سے کام لیتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں۔

آپ اتنا ہی نہیں کرتے بلکہ غیبت، چغلی اور تہمت سے بھی اپنے کو محفوظ رکھتے ہیں۔ نا بد گوئی کرتے ہیں اور نا فحاشی۔ آپ کا روزہ آپ کو محض لذت کام و دہن یا بری باتوں سے روکنے کے لیے نہیں تھا بلکہ آنکھ برا نا دیکھے، زبان برا نا بولے، دماغ برا نا سوچے، دل برے کی طرف راغب نہ ہو، ہاتھ اور پاؤں برے کی طرف نا بڑھیں ان سب کا نام ہے۔ دنیا میں ہر مشین کا اپنا ایک سروِس پیریڈ ہوتا ہے، رمضان کا مہینہ بھی انسانی جسم کے لیے سروس کا مہینہ ہے جس میں آپ کم کھاتے، کم سوتے اور کم بات کرتے ہیں۔ اس طرح اپنے اعضاء اور جوارح بالخصوص نظام ہضم کو کسی حد تک آرام پہنچاتے ہیں، ان پر کم بوجھ ڈالتے ہیں اور اس طرح اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا میں زیادہ بیماریاں، پریشانیاں اور انتہا یہ کہ اموات زیادہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہیں جب کہ کم کھانے سے اتنی پریشانیاں انسانوں کو لاحق نہیں ہوتی ہیں۔ رمضان کا مہینہ اس کا بھی عملی طور پر احساس کراتا ہے۔ رمضان کے روزوں کا ایک فطری اثر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ لوگ جو متمول اور صاحب ثروت ہیں یعنی مالدار ہیں، جب وہ روزہ رکھتے ہیں تو انہیں ذاتی طور پریہ پتا چلتا ہے کہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کیا ہوتی ہے اور سماج کے غریب غرباء اس تکلیف کو کس طرح برداشت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے یہاں سماج کے معاشی اعتبار سے پچھڑے ہوئے مفلس اور نادار لوگوں کے لیے ہمدردی کا وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو انہیں زکوٰۃ، صدقے اور فطرے کی ادائیگی کے ذریعے ان کی مدد پر آمادہ کرتاہے۔

اسی لیے یہ بات سب کو پتا ہونی چاہیے کہ رمضان کا مہینہ اسلامی کلینڈر میں مالی سال یا ٹیکس کی ادائیگی کا مہینہ نہیں ہے۔ مگر لوگ عام طور پر رمضان میں ہی اپنی مذہبی روایات کے تحت زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ رمضان کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ تمام جلیل القدر پیغمبروں کو منشائے الٰہی سے رسالت کا جو منصب ملااور انہیں جس طرح اللہ نے اپنا برگزیدہ نبی بنایاوہ روزے کی حالت ہی میں ان کے حصے میں آیا۔ حضرت موسیٰؑ کے احکام عشر ہوں، حضرت عیسیٰؑ کا کوہِ سعیر کا الٰہی پیغام ربّانی یا غارِ حرا میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی الہی کا تجربہ۔ رمضان کے مہینے کو قیام الیل کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے یعنی اللہ کی عبادت کے لیے راتوں میں قیام کرنا یعنی اللہ کی عبادت میں لگ جانا۔

پانچ وقت کی نمازیں تو روزانہ ہر مسلمان پر فرض ہیں لیکن رمضان کے مہینے میں تراویح کی نمازوں کا خصوصی اہتمام اس کی ایک خاص پہچان ہے۔ اس میں عام طور پر کم سے کم ایک بار پورا قرآن نماز میں سنا جاتا ہے اور ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ رمضان کا مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ بھی ہے۔ وہ رات جو ہزار راتوں سے افضل ہے اور رمضان کے آخری عشرہ میں 21، 23، 25، 27اور 29 تاریخوں کی طاق راتوں میں تلاش کی جاتی ہے، یہ کھلی ہوئی کتابِ ہدایت ان لوگوں کے لیے ہی نازل ہوئی جو اللہ سے ڈرتے ہیں، اَن دیکھے پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں، اسی دوران نازل ہوئی۔ ایسا تجربہ انسانی تاریخ میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دوسری دفعہ ہے کہ رمضان کا مبارک مہینہ کورونا وائرس کی لپیٹ اور چپیٹ میں ایک بار پھر سے آگیا ہے اور اس لیے ہر اس شخص کو جو رمضان کی اہمیت کو بھی جانتا ہے اور کورونا وائرس کی خطرناکیت کو بھی، اس پر ایک طرح دوہری مار پڑی ہوئی ہے۔

جنہیں جان ودل بھی عزیز ہے اور اپنے رب کی خوشنودی بھی، اپنے نظام اوقات، رمضان کے تمام معمولات کو اس طرح سے سنبھال کے نبھانا ہے کہ نہ ہم خود آزمائش میں پڑیں اور نہ ہماری وجہ سے ہمارے اپنے پیارے۔ ہمیں ماسک کا استعمال کرنا ہے، ممکنہ حد تک سنیٹائزر بھی رکھنا ہے۔ صحیح حد تک دوری کو یقینی بنانا ہے، کورونا کا سبب بننے والی سرگرمیوں اور غذاؤں سے پرہیز کرنا ہے اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹیکہ کاری کو بھی یقینی بنانا ہے۔ ساتھ میں دن اور رات جب جب ممکن ہو، مسبب الاسباب، قاضی الحاجات اور مشکل کشائے حقیقی یعنی اپنے رب کے حضور سربہ سجود ہوکر انسانیت کی صلاح، فلاح اور خیر و خوبی کے لیے دعاء کرنا ہے کہ وہ ہمیں کورونا کی اس وباء اور اس کے برھتے ہوئے عذاب سے محفوظ رکھے۔ (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)