پانی کی جنگ : چین کا نیا جنون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-02-2021
چین ہے کہ مانتا نہیں
چین ہے کہ مانتا نہیں

 

 

منصور الدین فریدی/نئی دہلی

چین نے سرحدی تنازعہ اور ٹکراو میں منھ کی کھائی ہے، جارحیت کے بعد جانی نقصان کا بھی اعتراف کیا ہے ۔مگر پس پردہ چین کے ہندوستان کے خلاف گھناونے کھیل کا سلسلہ بہت پہلے سے جاری ہے ۔جس کے تحت چین کی کوشش ہے کہ ہندوستان کو جغرافیائی طور پر پریشان کیا جائے۔اسی مقصد کے تحت چین نے تبت سے نکلنےوالے یرلانگ ژانگبو دریا پر ایک ڈیم تعمیر کرنے کا اردہ ظاہر کیا ہے۔یہ ہے پانی کی جنگ۔جس کو سیاسی اور سفارتی مقاصد کی تکمیل کےلئے استعمال کیا جائے گا۔جس کے نشانہ پر ہوگا ہندوستان۔

اس ڈیم کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دنیا میں کسی بھی منصوبے سے زیادہ ہوگی۔ کچھ اندازوں کے مطابق اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 70 ہزار میگاواٹ فی گھنٹہ سے زیادہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والے تھری گورجز ڈیم سے بھی تین گنا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی سرکاری معاہدہ نہیں ہے لیکن دونوں کے درمیان پانی کے بہاؤ کے متعلق ڈیٹا کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔چین پہلے ہی دریائے یارلنگ سانگپو پر ایک درجن کے قریب ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔

ہندوستان کےلئے خطرہ

یہ ڈیم دریائے یارلنگ سانگپو، جسے ہندوستان میں براہم پترا دریا کہتے ہیں، پر بنایا جائے گا۔ چین کی کمپنی "پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنا" نے اس ڈیم کی تعمیر کا اعلان پچھلے سال نومبر میں کیا تھا۔تبت ،ہندوستان کے شمال مشرقی صوبے ارونچل پردیش کے ساتھ واقع ہے۔ اب تک ڈیم کی تعمیر شروع نہیں ہوئی ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے تنازعہ کی شکل لے گا۔

بنگلہ دیش کو بھی اس ڈیم کی تعمیر پر تشویش ہے جو تازہ پانی کے لئے اس دریا پر انحصار کرتا ہے۔ ہندوستا نی ماہراور تجزیہ کارریگیڈیئر ارون سہگلنے پچھلے دنوں اس معاملہ پر کہا تھا کہ

جب چین اتنا بڑا منصوبہ مکمل کرے گا تو اس کی حفاظت کےلئے بڑے پیمانے پر فضائی فورس بھی تعینات کرے گا، شاہراہیں تعمیر ہوں گی اور نئے قصبے بھی بنائے گا۔ ہندوستان کو سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ چین یکطرفہ طور پر اس ڈیم کی تعمیر کرے گا اور یوں وہ کئی ممالک میں گزرنے والے اس دریا کے بہاؤ کو یکطرفہ طور پر کنٹرول کرے گا۔چین ہندوستان سے اپنے تنازعات کو پانی کے بہاؤ سے مشروط کرے گا تاکہ نئی دہلی پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

چین کی اپنی دلیل

چین اس معاملہ میں کچھ اور دلیل دیتا ہے۔ وہ اس کی سیاسی اور فوجی اہمیت کو نظر انداز کررہا ہے اور بجلی کی پیداوار کی ضرورت کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔چینی تعمیراتی کمپنی کے چیئرمین یان زہیونگ کہتے ہیں کہ اس ڈیم سے پیدا کی جانے والی بجلی سے چین اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور اپنی پانی کی سیکیورٹی کو مستحکم کرے گا۔

وہ کہتے ہیں چین کے لئے بجلی کی پیداوار کا یہ تاریخی موقع ہے۔دوسری طرف دفاعی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائینہ کے چیئرمین یان زیانگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دنیا میں اس جیسے منصوبے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔مگر ماہرین کے مطابق اس کی تعمیر سے ہندوستان کو دو نقصان دہ صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں یعنی سیلاب اور پانی کی قلت۔

سفارتی دعوے اور دلائل

اس تنازعہ کے بعد چین نے کچھ وضاحت پیش کی تھی اور دہلی میں چین کے سفارت خانے نے ان تحفظات پر کہا تھا کہ یہ منصوبہ ابھی محض اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔سفارت خانے کے گزشتہ ماہ جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین ہمیشہ سرحد سے گزرنے والے دریاؤں پر ترقیاتی کاموں کے متعلق ذمہ دارنہ رویہ اپناتا ہے۔ چین ہر منصوبے کو سائنسی انداز میں دیکھے گا ۔

اس بات کو سامنے رکھے گا کہ اس سے دریا کے بہاؤ کے اونچے اور نچلے مقامات اور ممالک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔لیکن ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین نے 2018 کے سرحدی تنازع کے بعد سیلابوں کی پیشگوئی کرنے میں مددگار معلومات کا ہندوستان سے تبادلہ نہیں کیا تھا۔

بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ چین کے سپر ڈیم سے وہ ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہو گا کیوں کہ اس ڈیم سے بنگلہ دیش میں بہنے والا پانی گنجان آباد علاقوں میں انسانی اور زراعتی ضروریات پوری کرنے کےلئے بہت اہم ہے۔ لہذا ڈیم تعمیر کرنے والے دریا کے نچلے بہاؤ کے ممالک سے مشورہ بہت ضروری ہے۔خشک موسم میں برہما پترا دریا بنگلہ دیش کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بہاؤ میں رکاوٹ سے کئی قسم کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔