ہم نے جنگ جیت لی، لیکن کیا بنگلہ دیش آزاد ہوا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-12-2021
ہم نے جنگ جیت لی، لیکن کیا بنگلہ دیش آزاد ہوا؟
ہم نے جنگ جیت لی، لیکن کیا بنگلہ دیش آزاد ہوا؟

 

 

سلیم صمد : ڈھاکہ

 امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کیسنجر نے بنگلہ دیش کے بننے کے فورا بعد اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ بے پیندے کی ٹوکری ہے۔ مطلب صاف تھا کہ کچھ بھی ڈالتے رہیں کبھی نہیں بھرے گی۔مگر پانچ دہائیوں کے بعد بنگلہ دیش نے اس رائے کا غلط ثابت کردیا۔ بنگلہ دیش ایک خوشحال ملک ہے،مضبوط معیشت پر کھڑا ہے۔ قابل رشک اور قابل تقلید ۔مگر اب ایک مسئلہ ابھررہا ہے۔ نئے حالات بن رہے ہیں  ہیں، نفرت انگیز تقریروں کا زور ہے۔ شدت پسندی سر ابھار رہی ہے ۔ ملک اور معاشرہ رواداری کے  معاملہ میں سکڑرہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش کے آگے بڑے چیلنجز ہیں۔

 

دنیا میں آزادی کی کوئی جنگ بنگلہ دیش کی طرح فیصلہ کن نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ننگے پاؤں، نیم برہنہ سپاہیوں کا مقابلہ پاکستان کی اسلامی ملیشیا سے ہوا تھا اور وہ فاتح بن کر ابھرے تھے۔

 آزاد مشرقی بنگال کے لیے مزاحمت کی قیادت کرنے والے مشرقی پاکستان عوامی لیگ کے رہنما ایک فاتح شیخ مجیب الرحمٰن کو جنوری 1972 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔جب انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو ان کے سامنے ایک بہت بڑا مشن تھا۔ بدعنوانیوں کا عروج تھا، ملک میں قحط پڑ رہا تھا اور ایک دہائی سے زیادہ کی جدوجہد کی تباہ کاریوں نے لوگوں کو الگ کر دیا تھا۔

 انہیں ملک کو سنوارنے اور سنبھالنے کا موقع ملا تھا لیکن ان کے ہم وطنوں نے ہی انہیں دھوکہ دیا۔ انہیں 15 اگست 1975 کو ایک فوجی بٹالین نے قتل کر دیا ،یہ سب ایک ایسے وقت ہوا تھا جب ہندوستان اپنا یوم آزادی منا رہا تھا۔

بنگلہ دیش کا المیہ یہ ہے کہ اس کا پہلی تقسیم 1905 میں ہوئی تھی جب برطانوی وائسرائے آف انڈیا لارڈ کرزن نے بنگال کو تقسیم کیا تھا۔1947 میں ہندوستان کی ایک تقسیم ہوئی اور پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا۔ لیکن بنگلہ دیش کو تین بار تقسیم کیا گیا۔ایسا 1905۔ا1947 اور 1971میں ہوا ۔

بنگلہ دیش کی ابتدا کا متنازعہ نظریہ یہ ہے کہ یہ 1905 میں برطانوی وائسرائے آف انڈیا لارڈ کرزن نے بنگال کو تقسیم کیا تھا۔ ہندوستانی قوم پرستوں اور بنگال کے دانشوروں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ بنگالی قوم پرستی کے بیج بوئے جا چکے تھے۔

جب دو ملکی نظریہ کا ظہور ہوا تو مسلمانوں کے لئے نئے وطن پاکستان کا نام 1933 میں برطانیہ کے ایک نوجوان تعلیم یافتہ وکیل چودھری رحمت علی نے تجویز کیا تھا۔اس نام کا اصل مطلب اس میں پوشیدہ تھا کہ پی فار پنجاب، اے فار افغان صوبہ (اب خیبر پختونخوا)، کے فار کشمیر، آئی فار انڈس، ایس فار سنگھ اور 'سٹین فار بلوچستان۔ مشرقی بنگال کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ اس سے بنگال کے انقلابی ناراض ہو گئے۔

دراصل 1940 میں بنگال کے شعلہ بیان سیاست دان اے کے فضل حق نے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور قرارداد تجویز کی جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا تھا اور قوم پرستوں نے آزاد مشرقی بنگال کا تصور کرنا شروع کر دیا تھا۔1960 کی دہائی تک یہ ایک تحریک میں تبدیل ہو چکی تھی۔ بنگا بندھو (بنگلہ دیش کا دوست) مجیب، جو کبھی آزاد اور کبھی قید میں رہے تھے۔انہیں 1968 میں بدنام زمانہ 'اگرتلہ سازش' کیس میں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا تھا۔

جس کے خلاف غصہ سڑکوں پر پھیل گیا اورپھرپاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا، 1969 میں پاکستان کی فوجی جنتا کے خلاف طلبا کے پرتشدد مظاہرے ہوئے۔

حکومت مخالف تحریک نے جنرل ایوب خان کی ایک دہائی سے جاری فوجی آمریت کا خاتمہ کردیا تھا۔ مجیب نے دسمبر 1970 میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ وہ حکومت پاکستان کے سربراہ بننے کے لئے تیار تھے۔

تین ماہ بعد پنجاب، سندھ، بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبے (اب خیبر پختونخوا) کے صوبوں کے حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مجیب کے چھ نکاتی سیاسی ایجنڈے سے وفاداری کا عہد کیا جس میں پاکستان میں صوبوں کے لیے علاقائی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

 مجیب کی جیت اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس ایجنڈے کو قبول کیے جانے کے درمیان مشرقی کمانڈ کے کمانڈر جنرل خادم حسین راجہ نے آپریشن بلٹز کی منصوبہ بندی کی۔ اس کا مطلب تمام سیاسی سرگرمیوں کو معطل کرنا اور فوجی حکومت کی واپسی ہوگا۔ پاکستان کی مسلح افواج کو "نافرمان سیاسی رہنماؤں" کے خلاف جانے اور انہیں "حفاظتی تحویل" میں لینے کی اجازت ہوگی۔

 لیکن لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان جو مشرقی کمانڈ کے چیف آف جنرل اسٹاف تھے اور ایڈمرل سید محمد احسن جو مشرقی پاکستان کے گورنر تھے، نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔حالانکہ یہ زیادہ دنوں تک کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ پاکستان کے مایوس صدر جنرل یحییٰ خان نے خان اور احسن دونوں کو معزول کر دیا۔ بعد میں جنرل راجہ کو بھی دروازہ دکھایا گیا

مکتی باہنی کیوں بنی

دراصل 25 مارچ 1971 کی نسل کشی کی مہم سے چند ہفتے قبل آپریشن سرچ لائٹ کے کوڈ نام سے مشرقی بنگال رجمنٹ اور سرحدی محافظوں ایسٹ پاکستان رائفلز کے بیشتر افسران اور فوجیوں نے بغاوت کر دی۔ باغی افسران اور فوجی سرحدی محافظوں کے سیکڑوں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے۔ 

ہندوستانی سرحدی سیکورٹی فورس کی جانب سے فائر کور کے ذریعے انہیں بچایا گیا باغی افسران نے 12 اپریل کو سلہٹ کے ٹیلیاپارا میں ایک اہم اجلاس منعقد کیا - مکتی باہنی (بنگلہ دیش لبریشن فورس) کرنل (بعد میں جنرل) ایم اے جی اعثمانی  کی کمان میں تشکیل دی گئی تھی۔مکتی باہنی نے فیصلہ کیا کہ وہ روایتی جنگ کے بجائے ویتنام کے باغیوں کی طرز پر گوریلا راستے پر چلے گا۔

مکتی باہنی میں خواتین سمیت ہزاروں طلبا، نوجوان اور کسان شامل ہوئے۔

بنگلہ دیش اب کہاں ہے؟

 اب ان کی بیٹی شیخ حسینہ ہیں جنہوں نے 2009 میں ملک میں تین دہائیوں کی حکومتوں کو دیکھنے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ معیشت نے اڑان بھری۔ انہوں نے ملک کو ہندوستان، جاپان، جنوبی کوریا، امریکہ، ترکی اور یورپی ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کھول دیا۔

 جلد ہی بنگلہ دیش ریڈی میڈ گارمنٹس کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ اس کی دوسری بڑی برآمد  دوا سازی کی مصنوعات 70 سے زائد ممالک میں اکسپورٹ ہورہی ہیں، اس کے ساتھ یورپ کو منجمد مچھلی اور دیگر فوڈ آئیٹم سپلائی ہورہے ہیں ۔ بنگلہ دیش اب ایک مثال ہے ترقی اور معیشت کی ترقی کے لیے۔ لیکن مسئلہ اب اس سوچ اور ماحول کا ہے جو ملک میں سر ابھار رہی ہے۔یہی ہے بنگلہ دیش  کے لیے وقت کا سب سے بڑا چیلنج۔