کنہیا لال قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
کنہیا لال قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں
کنہیا لال قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

کوئی ہندو کوئی مسلمان کوئی عیسائی ہے

سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

 ندا فاضلی

دل بہت پریشان ہے۔ ہم آخر کہاں پہنچ گئے؟ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کونسا ملک، کون سا معاشرہ ہے جہاں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔آج ایک ویڈیو دیکھا- ادے پورکے کنہیا لال کو محمد ریاض اور غوث محمد نے دھاردار ہتھیاروں سے مار ڈالا۔اس وقت سے میری طبیعت بےچین ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہمارے معاشرے میں جرائم نہیں ہوا کرتے تھے اور قتل نہیں ہوتا تھا۔ یقیناً انسانی معاشرہ جتنا پرانا ہے قتل کا گھناؤنا جرم بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ لیکن پہلے مجرم اپنا جرم چھپانے کی کوشش کیا کرتےتھے اور آج مجرم سینہ چوڑا کرکے اپنے جرم کو مشتہر کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟

یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آج سے تین سال پہلے راجستھان میں ہی افرازُل نامی ایک مزدور کو شمبھولال ریگر نے قتل کر دیا تھا اور اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کیاتھا۔

اس وقت بھی میں نے اپنے ایک مضمون میں اس فعل کو معاشرتی زوال سے جوڑ دیا تھا۔ مجھے آج پھر یہی کہنا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ان قاتلوں کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ جب عوام کو ان کے جرائم کا علم ہوگا تو وہ ان سے نفرت کرنے کے بجائے انہیں اپنا ہیرو سمجھیں گے۔

درحقیقت ہم معاشرتی زوال کے دور میں جی رہے ہیں۔ لوگوں کو سیاست، مذہب، ملک وغیرہ کے نام پر نفرت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اقبال کا قول ’’مذہب آپس میں دشمنی رکھنا نہیں سکھاتا‘‘ پرانے زمانے کا قصہ بن چکا ہے، اب ہر نظریے کی بنیاد نفرت پر ہے۔

چند سال پہلے جب میں نے شام سے یہ خبر سنی کہ داعش کے دہشت گردوں نے کسی کا سر قلم کرنے کی ویڈیو بنائی ہے اور اسے جہاد کا نام دیا ہے تو بہت عجیب لگا۔ لیکن اب یہ بیماری ہمارے ملک تک پہنچ چکی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ نفرت ہمارے گھروں تک نہ پھیل جائے۔

آخر ہوا کیا ہے؟ ہوا یہ ہے کہ آج سوشل میڈیا کے دور میں نوجوان نسل کو دن بھر ایسے لوگوں کے فالوورز بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صرف نفرت کی باتیں کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ مذہب، ملک یا معاشرے کے دفاع میں مجرمانہ نوعیت کا تشدد ضروری ہے۔ یہ بھی گمان ہونے لگتا ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے ایسے جرائم کرنے پر ہیرو سمجھے گا۔

یہ مفروضہ بھی بے بنیاد نہیں ہے، ہم نے دیکھا تھا کہ شمبھولال جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کیسے ہوا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نفرت کرنے والے ریاض اور غوث کو بھی ہیرو بنانے کی کوشش نہ کریں، اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے معاشرے کی ایک اور شکست ہوگی۔

ہم اورہمارا معاشرہ نفرت پھیلانے والےچند گمراہ لوگوں کی زد میں آرہے ہیں لیکن ایسا کیوں؟ کیونکہ ہم نے نفرت کے ان ٹھیکیداروں کو معاشرے اور مذہب کا ٹھیکیدار بنا دیا ہے۔آج نصف صدی سے زیادہ کاعرصہ گزر چکا ہے جب ساحر لدھیانوی نے ان لوگوں کے لیے لکھا تھا :

یہ دن کےتاجریہ وطن بیچنے والے

انسانوں کی لاشوں کے کفن بیچنے والے

  تاہم یہ ڈاکو محلوں میں بیٹھے ہوئےہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کا ٹھیکہ ان کے ہاتھ سے لیا جائے۔

آج دو قاتلوں نے ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دین اسلام کی خدمت کی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ باقی تمام مسلمانوں کو بھی ان جیسا ہونا چاہیے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے مذہب کو ان نفرتوں کے سوداگروں سے بچائیں۔ گھروں میں اپنے بچوں کو، محلے میں اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے دین میں کسی کا ناحق خون بہانہ نہیں ہے۔

 کسی بے گناہ کی جان لینا جہاد نہیں بلکہ جرم ہے۔ جنہیں اس بات پریقین نہ آئے، انہیں نام نہاد جہاد سےقبل پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے احکامات میں پڑھنا چاہئے۔ پیغمبر اسلام کی یہ سخت ہدایت تھی کہ اگر دشمن کا سپاہی میدان سے بھاگنے لگے تو اس کا پیچھا کرنا اور اسے قتل کرنا جہاد کا حصہ نہیں ہے، چاہے دشمن کی فوج نے مسلمانوں کی فوج کے اتنے لوگ کیوں نہ مار ڈالے ہوں۔

کیا یہ سمجھانا ہمارا فرض نہیں کہ خود اللہ کے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خلاف کھڑے دشمنوں کو قتل نہیں کیا بلکہ آخر دم تک انہیں حق کا راستہ دکھاتے رہے۔ یہاں تک کہ جب مکہ ان کے زیر تسلط آیا تولوگوں کےمذہب کوبرا بھلا کہنے یا انہیں سزادینے کے بجائے،انہیں مذہب کا سبق سکھانے کی کوشش کی گئی۔

اسلام وہ مذہب ہےجو لوگوں کو سمجھنے کی بات کرتا ہے۔ یہ مذہب حق کے راستے پر نہ چلنے والوں کو قتل کرنےکی بات نہیں کرتا بلکہ صرف ان کوسمجھانے کی بات کرتا ہے۔ اگر کسی نے اللہ کے نبی کے بارے میں غلط بات کہی ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ انہیں بتائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے اور ان کا دین کیا ہے؟لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کریں۔قتل کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

 اسلام آپ کے عمل سے پہچانا جائے گا،اسلام وہ ہے جسے مسلمان دنیا کے سامنے پیش کریں۔

بات یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ "میں ویروگ کی ہوں صدا،میں بڑے دکھی کی پکار ہوں۔

 میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہم سب کو نفرت کی اس تجارت کو روکنا ہوگا۔ ورنہ ہم ہر بار مجاز کا یہ 75 سال پرانا شعر لکھتے رہیں گے:

ہندو چلاگیا نہ مسلمان چلا گیا

انسان کی جستجو میں ایک انسان چلا گیا

 اب یہ شیر کبھی پرانا نہیں ہوگا۔