کیا ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی کانشی رام کے پیش رو تھے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-12-2021
 کیا ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی کانشی رام کے پیش رو تھے؟
کیا ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی کانشی رام کے پیش رو تھے؟

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہندوستان کی انتخابی سیاست عمومی طور پراور ریاست اتر پردیش کی سیاست خاص طورسے 'پسماندہ طبقات' کے عروج کی کہانی ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں کی سیاست پسماندہ طبقات مثلاً او بی سی(OBC)،ایس سی(SC) اور (ST) وغیرہ کے گرد گھومتی ہوئی نظرآتی ہے۔

 عام طورپر پسماندہ طبقات میں سیاسی بیداری کا سہرا کانشی رام اور وی پی سنگھ  کو دیا جاتا ہے۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ پر عمل آوری سنگھ حکومت کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ ایک عام خیال ہے کہ کانشی رام نے تمام مذاہب میں15 فیصد اعلیٰ ذاتوں کے تسلط کے خلاف 85 فیصد نچلی ذاتوں کے سیاسی محاذ کی تجویز پیش کی تھی۔

نئی نسل کے بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ لکھنؤ کے ایک مسلم لیڈرڈاکٹرعبدالجلیل فریدی نے اونچی ذات کی سیاسی بالادستی کے خلاف تمام پسماندہ طبقوں و برادریوں کے سیاسی اتحاد کا تصور پیش کیا تھا۔

ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی ایک کامیاب ڈاکٹر تھے جنہوں نے سیاست میں قدم رکھا تاکہ ان جگہوں پر لوگوں کو بااختیار بنایا جائے، جہاں معاشی اور سماجی عدم مساوات موجود ہے۔ 1951 کے پہلے عام انتخابات سے لے کرتقریباً 1960 تک وہ پرجا سوشلسٹ پارٹی (PSP) کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد1960کی دہائی میں وہ اپنے سوشلزم کے  نظریے سے مایوس ہو گئے۔

  ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی قانون ساز کونسل میں پارٹی کے لیڈر تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سوشلسٹ پارٹیوں نے صرف اپوزیشن میں بیٹھ کر مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے آواز اٹھائی،تاہم جب وہ اقتدار میں آئیں تو وہ ان برادریوں کو بھول گئیں۔

یہ وہ وقت تھا جب شمالی ہندوستان میں کانگریس، سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات کی بالادستی تھی۔ ان کے علاوہ کچھ مسلم سیاست داں طویل مدتی سماجی تعمیری منصوبہ کے ساتھ سامنے آنے کے بجائے ملی جذبات کو بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب فریدی نے 1968 میں مسلم مجلس پارٹی قائم کی۔ اسی سال انہوں نے لکھنؤ میں ایک کانفرنس کا بھی انعقاد کیا، جس میں پیریار سمیت دیگر نامور دلت رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔

awazthevoice

ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی ایک پروگرام کے دوران رفقا کے ساتھ

مسلم مجلس پارٹی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس خیال کو آگے بڑھایا کہ مسلمانوں کوملی مفادات کے لیے کسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹرفریدی نے اس وقت یہ بھی کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 85 فیصد او بی سی پر 15 فیصد یوسی(UC) کی حکومت ہے۔

  دولت، تعلیم اور روزگار کے مواقع کی مساوی تقسیم ان کے اہم سیاسی ایجنڈے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے اندر ذات پات کے مسئلے پر توجہ دی ۔ وہ دونوں او بی سی کے لیے اقدامات کرنا چاہتے تھے۔

اس سوچ کے ساتھ انہوں نے پورے ملک میں بیداری مہم چلائی۔ 1974 میں اپنی وفات تک فریدی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی۔ یہ انہی کا اثر تھا کہ مسلم مجلس پارٹی نے بھارتیہ کرانتی دل کے ساتھ مل کر 1974 کے انتخابات میں تقریباً ایک درجن اسمبلی کی سیٹیں جیتیں۔  کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلم مجلس پارٹی نے اپنی حکومت نہیں بنائی تھی،تاہم اس نے اپنے بڑے ووٹ بینک کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے منشوروں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔

اگرچہ فریدی بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہو گئے، تاہم وہ ایک عظیم ہندوستانی رہنما تھے، جنہوں نے 1947 میں پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سرکاری عہدوں کو ٹھکرا دیا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ انہوں نے ایک خاص قسم کی سیاست کے بیج بوئے جوملک و قوم کے مستقبل کو متعین کرتی چلی گئی۔ جب ممتاز سیاست داں کانشی رام نے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کی موت کے تقریباً ایک دہائی بعد بہوجن سماج پارٹی کے لیے سیاسی طور پرمتحرک ہونا شروع کیا تو انہوں نے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر، جیوتیبا پھولے اورساہوجی مہاراج کے ساتھ مل کر فریدی کو پسماندہ اور مظلوم طبقات کی آزادی کی سیاست کا علمبردار بتایا تھا۔

نوٹ: یہ مضمون درج ذیل کتابوں کے تعاون سے تیار کیا گیا۔

(1) ڈاکٹر فریدی: ساحل سے طوفان تک از جاوید حبیب

(2)ڈاکٹر فریدی: سیاسی دانش کی شاعری از پروفیسر اختر الواسع (الیاس اعظمی کے ساتھ انٹرویو)