وارث علی: سن 1857 کے ناقابل فراموش کردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ایک مصور کی نظر سے 1857کاغدر
ایک مصور کی نظر سے 1857کاغدر

 

 

ثاقب سلیم،نئی دہلی

شہید تیری موٹ ہی، تیرے وطن کی زندگی

تیرے لہو سے جاگ اٹھے گی اس چمن کی زندگی

کھلیں گے پھول اس جگہ پہ تو جہاں شہید ہو

وطن کی راہ میں وطن ​​کے نوجواں شہید ہو

اس میں کوئی شک نہیں کہ سن 1857 کے موسم گرما پہلی مرتبہ ہندوستانیوں انگریزوں کو بھارت سے نکال باہر کرنے کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی تھی۔اس جنگ میں ہندوستان کے مختلف سطح کے لوگ شریک ہوئے جنھوں نے برطانیہ حکومت کی نمائندہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ظلم سے بغاوت کی۔اس میں سپاہی، مقامی فوج،مقامی حکمران ، جاگیردار ، کسان اور دیگر شہری بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

اس وقت ہندوستان کے شاید ہی کسی خطہ سے اس جدوجہد میں شریک نہ ہوئے ہوں۔ریاست بہار کے ضلع مظفرپور میں بھی پہلی جنگ آزادی کے شعلوں کو محسوس کیا گیا تھا۔اس وقت وہاں کے مجسٹریٹ رابرٹسن نے 23 جون1857 کو پولیس کے ایک جمدار ’’وارث علی‘‘ کو گرفتار کیا تھا کہ جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے گھر’گیا‘ کی طرف جا رہے تھے۔

اس کے پاس سے کچھ مشتبہ خطوط پائے گئے تھے۔ وہ اپنی ملازمت سے استفعیٰ دے کر قوم پرستوں میں شامل ہونا چاہتے تھے۔اس کے لیے انھوں نے گیا کے ایک قوم پرست زمیندار علی کریم کے ساتھ خط و کتابت بھی کی تھی۔اس سلسلے کی تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں،حتیٰ کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اس میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

تاہم رابرٹسن نے انگریز حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں وارث علی کو گرفتار کر لیا۔

وہ اپنے وطن عزیز ہندوستان کے لیے ایک محب وطن تھے، مگر انگریز حکومت نے انہیں ایک خطرناک شہری قرار دیا۔اس کے بعد وارث علی پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پھانسی پر چڑھانے کے الزام میں رابرٹسن نے انہیں میجر ہولمز کے پاس بھیجا کہ اس پر غور کیا جائے۔میجر ہولمز ایک انصاف پسند شخص تھا، اس نے اس مقدمہ کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی۔

انگریزوں کا خیال تھا کہ اس کے خلاف غلط معلومات نکالی جا سکے، مگر وارث علی کے خلاف کوئی بات ثابت نہ ہوسکی۔اس لیے وارث علی کے مقدمہ کو دیناپور بھیج دیا گیا۔وہاں اسے مختلف قسم کی اذیت دی گئی۔اس سے مختلف قسم کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کی حتیٰ المکان کوشش کی گئی، مگر وارث علی نے ایک محب وطن کے طور کوئی بھی بات انگریز حاکم کے سامنے ظاہر نہ کی۔

اس سے معلومات حاصل کرنے کی ان کی کوششوں سے مایوس ہو کر انگریزوں نے اس عظیم مجاہد آزادی کو 6 جولائی 1857 کو ریاست بہار کے موجودہ درالحکومت پٹنہ میں پھانسی دے دی گئی۔پھانسی پر چڑھنے سے قبل کہا کہ اگر کوئی یہاں آزادی کا سچا خواہاں ہے تو وہ مجھ کو آزاد کرائے۔اس میں شک نہیں کہ لوگوں نے اس وقت وارث علی جیسا باہمت اور محب وطن نہیں دیکھا جس نے آزادی کی خاطر اپنی جان دے دی مگراپنے دیگر مجاہد ساتھیوں کے راز کو انگریزوں کے سامنے افشاں نہ ہونے دیا۔ اس کی جدو جہد اور قربانی کو ایک سچا ہندوستانی کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

شہید جسم سلامت اٹھا جاتے ہیں

جبھی تو گور و کفن سے لحد نہیں مانگی