منصور الدین فریدی۔ نئی دہلی
کس کروٹ بیٹھے گا افغانستان؟ یہ ہے سب سے بڑا سوال جو نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیا کو پریشان کررہا ہے۔امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ بس اندازے ہیں،خدشات ہیں ،خطرات ہیں ۔دعوے ہیں اور پیش گوئیاں ہیں۔لیکن ایک بات پر ہر کوئی اتفاق کررہا ہے کہ نئے منظر نامہ میں طالبان سب سے بڑے کھلاڑی ہوں گے۔ایسے میں آخر امریکا کس بنیاد پر اورکس امید سے افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے کی سوچ رہا ہے۔جبکہ افغانستان میں اب بھی نہ تو سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی سیکیورٹی۔
اب ہر کوئی سوال کررہا ہے کہ آخر اتنی جلدی کیا ہے۔امریکا کے سابق صدر بش جونیئر، سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن، کنڈولیزا رائس، سابق ڈائریکٹر سی آئی اے ڈیوڈ پٹریاس سمیت امریکا کے اہم سیاستدان فوجی انخلا کے فیصلے اور اس کے بعد افغان فورسز کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔در اصل اب جو حالات ہیں وہ افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کا اشارہ کررہے ہیں جو برصغیر کےلئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ خانہ جنگی کا مطلب ہوگا کہ پڑوسی ملکوں میں مہاجرین کے نئے سیلاب ۔
دنیا دیکھ رہی ہے اور سمجھ رہی ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا طے شدہ شیڈول سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ ساتھ ہی افغانستان میں دہشتگرد کارروائیاں بھی تیز ہوچکی ہیں۔ اگرچہ طالبان تازہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور افغان شہروں اور قصبوں پر کابل انتظامیہ کا کنٹرول ابھی برقرار ہے لیکن دیہی علاقوں میں طالبان کی گرفت بدستور مضبوط ہے۔
افواج اور سازو سامان کی تیزی سے واپسی کے باوجود امریکا نے ابھی تک انخلا کے بعد کی حکمتِ عملی واضح نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پینٹاگون ابھی تک پالیسی تیار کرنے میں مصروف ہے اور جون کے وسط تک پالیسی صدر بائیڈن کی میز پر پہنچنے کے امکانات ہیں۔ مگر ایک بات سب کو پریشان کررہی ہے وہ طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کا امکان اور القاعدہ کے ساتھ پرانے رشتوں کا برقرار رہنا۔ جو کسی بڑے خطرے کی گھنئی کی مانند ہے۔
طالبان کے ساتھ القاعدہ کے تعلقات کا قائم رہنا بھی ایک بڑا خطرہ نظر آرہا ہے کیونکہ دونوں گروپوں کے ساتھ ساتھ نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ان خطرات اور خدشات کا اظہار اقوام متحدہ سلامتی کاونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔جو اقوام متحدہ کی مونیٹرنگ ٹیم نے تیار کی ہے جسے افغانستان میں سیکیورٹی کے خطرات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
رپورٹ میں افغا نستان کے مستقبل کو غیر یقینی مانا ہے جو یقیننا بائیڈن انتظامیہ کےلئے پریشان کن ہوگا ۔یاد رہے کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ گذشتہ سال فروری میں ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کا مقصد امریکی فوجیوں کا انخلا اور دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ کا خاتمہ کرنا تھا۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب افغانستان میں تشدد پچھلے کئی سال کا ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ سال 2020 کے 25 ہزار سے زیادہ حملے کئے گئے جو 2019 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ تھے۔سال 2021 میں موسم سرما کے دوران غیر معمولی تشدد دیکھا گیا ،یکم جنوری سے 31 مارچ کے درمیان ملک بھر میں سات ہزار 177 حملے ریکارڈ ہوئے جو 2020 میں اسی عرصے کےدوران 61 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ در حقیقت طالبان افغانستان میں تشدد کی سطح کو کم کرنے اور حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پیش رفت میں ناکام رہے ہیں جبکہ تشدد کی لہر کا مقصد اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور اپنی دعویداری کو مضبوط کرنا ہے۔
طالبان افغانستان میں ہونے والے تشدد کی بڑی کارروائیوں کے لئے ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں جن میں سرکاری افسران، خواتین، انسانی حقوق کے رضاکاروں اور صحافیوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔یہ حملے حکومت کی صلاحیت کو کمزور کرنے اور سول سوسائٹی کو دھمکانے کے مقصد کے ساتھ کئے جارہے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان نے افغان حکومت کے خلاف جارحانہ محاذ کھول دیا ہے۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہےکہ بیس سال کی جنگ کے باوجود طالبان کی طاقت پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔اس وقت بھی نئے جنگجووں کی بھرتی جاری ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق طالبان کے جنگجووں کی تعداد ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ افغان فوج کی تعداد میں گراوٹ آرہی ہے۔اس سال فروری میں افغان فوجیوں کی تعداد تین لاکھ آٹھ ہزار تھی جبکہ اس کی مجموعی طاقت تین لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ تھی۔ اس سال امریکی فوجی اکاڈمی ویسٹ پوائنٹ کے جرنل میں شائع ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق جب امریکی افواج کا مکمل انخلا ہوگا تو طالبان کو فوجی بنیاد پر معمولی برتری حاصل رہے گی جس میں بعدازاں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگا۔
یہی نہیں طالبان نے مائننگ سیکٹر اور افیم کی کھیتی سے چار سو میلین ڈالرز کمائے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ طالبان کا دخل اب دیگر عوامی سروسیز میں بڑھ گیا ہے جن میں سڑکوں کی تعمیر، مواصلاتی نظام اورپبلک ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔ طالبان نے اس رقم سے جدید ترین ہتھیار خریدے ہیں۔ان ہتھیاروں میں حملوں میں استعمال ہونے والے ایسے ڈرون بھی شامل ہیں جو دھماکہ خیز مادہ لے جاسکتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان کنکشن ہے۔ایک جانب امریکی صدر جو بائڈن نےپچھلے ماہ کہا کہ امریکا نے افغانستان کا رخ اس وقت کیا تھا جب دہشت گردوں نے نائن الیون کا حملہ کیا۔ اب امریکا نے اسامہ بن لادن کے ساتھ انصاف کردیا اورالقاعدہ کی طاقت کو ختم کردیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اقوام متحدہ کی رپورٹ میں القاعدہ کی قیادت کے ایک بڑے حصہ کے افغانستان میں ہونے کا یقین ظاہر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں اسامہ بن لادن کے بعد القاعدہ کے سربراہ بنے ایمن الظواہری کی موت کی توثیق بھی نہیں کی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ مستقبل کے پروپگنڈہ کا حصہ بھی ہوگا۔
افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ طالبان نے کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کیا ہے کہ ملک کی سرزمین پرغیرملکی جنگجو موجود ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے مشاہد ین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مختلف گروپوں کے آٹھ سے دس ہزار جنگجو موجود ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کے رشتوں میں مضبوطی اور گہرائی کا ایک سبب یہ بھی ہے ملک میں ایسی متعدد شادیاں ہوئی ہیں جن سے ان کے درمیان رشتہ مضبوط ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان کے حالات پر نظر رکھنی ہوگی تاکہ یہ سرزمین علاقائی اور بین الاقوامی ایجنڈا کے سبب دوبارہ دہشت گردوں کی مرکز نہ بن جائے۔
اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ طالبان کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوجی پوزیشن کو مستحکم کرنا جاری رکھے گا۔ اسے یقین ہے کہ وہ اپنے تقریبا تمام مقاصد کو مذاکرات کے ذریعے یا اگر ضرورت ہو تو طاقت کے ذریعہ حاصل کرسکتا ہے۔اس لئے افغان طالبان سے افغان حکومت کی بقا کوایک بڑا خطرہ لاحق ہے ، جو امریکی افواج کے مکمل انخلا کے ساتھ کافی حد تک بڑھنے کا امکان ہے۔