اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے مدد لینی چاہیے-یہ جڑواں بہنیں ہیں : جاوید اختر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-12-2022
اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے مدد لینی چاہیے جاوید اختر
اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے مدد لینی چاہیے جاوید اختر

 

 

منصور الدین فریدی/شاہ عمران حسن : آواز دی وائس

اردو ایک ہندوستانی زبان ہے، یہ مری اس لیے نہیں کہ یہ عام زبان ہے- اردو  کو ہندی سے مدد لینی چاہیے تو ہندی کو اردوسے- یہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں-   آج لوگ جب تک زبان سمجھتے ہیں تو اسے ہندی کہتے ہیں اور جب سمجھ میں نہیں آتی ہے تو اردو کہتے ہیں- مگر میں آپ کو بتا دوں کہ اردو گنگا جمنی تہذیب کا نام ہے- 

جشن ریختہ کے تین سال بعد واپسی کے موقع پر ممتاز دانشور  اور گیت کار جاوید اختر نے ان تاثرات کا اظہار کیا-

جاوید اختر نے کہا کہ  تقسیم ملک کے وقت ہمارے پاس کچھ نہیں تھا مگر اگلے 70 سالوں میں ہندوستان نے اتنا کچھ حاصل کیا کہ دنیا کی سب سے بڑی صنعتی طاقتوں میں سے ایک ہے- یقیناً ہم نے ترقی تو بہت کر لی ہے مگر  ہم سے ایک بڑی بھول ہوگئی ،کہتے ہیں کہ چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش میں بہت سا سامان چھوٹ جاتا ہے- یہ سامان پلیٹ فارم پر رہ گیا،  جن میں زبان،ادب اور شاعری ھی شامل ہے -ہماری اس جانب سے توجہ ہٹ گئی۔

ہم نے اپنے بچوں کو وہ پڑھایا کہ جس سے پیسہ کما سکیں۔۔۔ ہم نے بچوں کو بتایا کہ  جو چیز بینک میں نہ رکھی جاسکے وہ بے کار ہے - یہ بات ہم نے  شعوری یا لا شعوری طور پر نئی نسل کو بتادی- 

awaz

جاوید اختر کی باتوں پر پر جشن ریختہ کی افتتاحی تقریب میں موجود تقریبا پچیس ہزار اردو مداحوں نے تالیاں بجا کر خوشی اور جوش کا اظہار کیا-

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے نے تقسیم ملک کے بعد ادب شاعری فکشن اور دیگر فنون کو بالائے طاق پر رکھ دیا  انہیں غیر اہم سمجھآگیا اور اندازہ لگائیے کہ ہندوستان میں کلاسیکل میوزک کے صرف دو اسکول ہیں-

  انہوں نے کہا کہ یہ قدرت کا نظام ہے جب ان حالات میں کوئی خلا پیدا ہوتا ہے تو اس کو پر کرنے کے لئے  سنجیو سراف جیسا کوئی انسان سامنے آیا- جس نے ادب کی اہمیت کو سمجھا، شاعری کی اہمیت کو جانا, جو کام اردو داں کو کرنا تھا'جو دوسروں کو کرنے کا کام تھا۔ وہ سنجیو سراف نے کیا-

جاوید اختر نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ ریختہ ہے۔۔۔ اور ان کے بانی سنجیو سراف کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اردو کا مستقبل عظیم ہے۔

جاوید اختر نے مزید کہا کہ کہ اردو کے ساتھ  بھی عجیب و غریب صورتحال ہے- میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے ممبئی میں ایک خاتون ملی تھیں اور انہوں نے  مجھ سے بڑی معصومیت کے ساتھ یہ سوال کیا تھا کہ۔ ۔۔ جاوید اردو بابر کے ساتھ آئی تھی ؟ آپ کو بتا دوں دو یہ بات سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ علم کی حد ہوسکتی ہے مگر جہالت کی کوئی حد نہیں ہے۔

awaz

جاوید اختر نے اس موقع پر رسم الخط پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زبان کیا ہے؟ کیا زبان رسم الخط کا نام ہے؟ پنجابی کئی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ دراصل میرا ماننا یہ ہے کہ اسکرپٹ کوئی زبان نہیں ہے۔ اردو کے قواعد وہی ہیں جو ہندی کے ہیں۔ جب تک آپ اسے سمجھتے ہیں، آپ اسے ہندی سمجھتے ہیں اور جب آپ اسے نہیں سمجھتے توآپ اسے اردو سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک زمانے میں جب فارسی رسم الخط رائج تھا۔ سب فارسی میں لکھتے تھے۔ اسی لیے اردو نے فارسی کو اپنایا۔ انگریزی اس کا اپنا رسم الخط نہیں ہے، لیکن انگریزی رومن سے مستعار لی گئی ہے۔ اردو کا پرانا نام ہندوی ہے۔ اردو عام آدمی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، مجھے فخر ہے کہ میری مادری زبان اردو ہے۔

دوسری زبانوں کا آغاز مذہب سے ہوا، لیکن اردو جو کہ ایک زبان ہے، مذہب پر نہیں چلتی۔ جاوید اختر نے اس موقع پر مزید کہا کہ اردو گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے ، میں آپ کو بتا دوں کہ اردو سے بہتر شاعری میری کسی اور زبان میں ممکن ہنہیں اردو زبان میں ہولی سے بہتر کوئی شاعری نہیں ہو سکتی بنارس گھاٹ پر لکھی گئی شاعری اردو میں ہے

دوسرے دن یعنی 3 دسمبر سے الگ الگ موضوعات پر اجلاس کا دور شروع ہوگا ۔جس میں شاعری اور ادب سے اردو صحافت تک تبادلہ خیال اور مذاکرہ ہوگا۔ جشن ریختہ کے دوسرے دن محفل خانہ ،بزم خیال ،دیار اظہار اور سخن زار کے اجلاس ہونگے جن میں ممتاز نام اور چہرے نظر آئیں گے ۔

اس بار جشن ریختہ میں اردو صحافت ہر مذاکرہ ہے کیونکہ اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہوئے ہیں ۔اس میں ممتاز صحافی ظفر آغا ،شاہد صدیقی ،ندیم صدیقی اور شکیل حسن شمسی حصہ لیں گے ۔ اسی دن اردو ناول کا عصری منظر نامہ پر بات چیت ہوگی ۔ ساتھ ہی قوالی کی محفل کو اسلم صابری سجائیں گے ۔عزل اور ٹھمری کا دور بھی ہوگا ۔ شام کو سات بجے محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوگا ۔

جشن ریختہ کے آخری دن 4دسمبر کو بھی محفلوں کا دور چلے گا ،جس میں سب سے پر کشش محفل صوفی میوزک کی شام ہوگی جس میں ریچا شرما اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی ۔

حالانکہ ریختہ سے قبل بھی دہلی میں اردو کے بہت سے پروگرامز ادبی کیلنڈر کا حصہ بن چکے تھے جن میں شنکر شاد مشاعرہ، دہلی اردو اکیڈمی کا جشن جمہوریہ کا مشاعرہ، مشاعرہ جشن بہار، جشن ریختہ اور جشن ادب شامل ہیں ۔ان سب کے مختلف شبعہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سامعین اور ناظرین ہیں۔ مگر ریختہ نے جو چھاپ چھوڑی ہے اس نے جہاں اردو داں طبقہ کو نئی زندگی عطا کی بلکہ غیر اردو داں حضرات کو اردو سے جوڑنے کا کامیاب تجربہ کیا۔

حالانکہ ریختہ کی کامیابی نے جہاں اس کو لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا نور نظر بنایا تو اس کے ساتھ اس کو اردو کی رسم الخط کے معاملہ پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’ریختہ‘ نے ثابت کردیا کہ حرکت میں برکت ہے۔ کیونکہ اس سے قبل آئے دن یہ شور سننے میں آتا رہا کہ اردو زبان مر رہی ہے، اس کے پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں، یہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔

آپ کو بتا ئیں کہ ریختہ فاؤنڈیشن ایک غیر منفعتی ادارہ ہے جس کا قیام اردو کے تحفظ اور فروغ کے لیےمیں عمل میں آیا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میں ریختہ ڈاٹ آرگ کے نام سے ایک ویب سائٹ کا2013 میں آغاز کیا گیاتھا جو بہت جلد اردو شاعری ،نثر اور اردو میں لکھی جانے والی کتابوں کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ بن گئی۔

دراصل اردو زبان اور تہذیب کے مختلف رنگوں اور ذائقوں کو عوام تک پہنچانے کے لیے جشن ریختہ کی مختلف تقریبات بہت جلد اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر دیکھی جانے لگی ہیں ۔ یاد رہے کہ ایسی محفلوں کے ساتھ اردو کے فروغ کے لیے ریختہ فاؤنڈیشن نے اور بھی کئی اہم منصوبوں پر کام کیا۔جن میں آموزش ڈاٹ کام کے نام سے اردو رسم الخط سکھانے کے لیے بنائی گئی ویب سائٹ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ اردو رسم الخط سکھانے کے لیے کلاسز بھی چلائے جارہے ہیں۔