اردو اور سرکاری ادارے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-01-2022
اردو اور سرکاری ادارے
اردو اور سرکاری ادارے

 


awazthevoice

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

سنہ 1947 کے بعد ہندوستان میں اردو نہ جانے کتنے نشیب و فراز سے گزری اور اردو والوں کی جدوجہد کے نتیجے میں ایک گجرال کمیٹی بنی، جس کے نتیجے میں پہلے ترقی اردو بورڈ بنا جو اب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام ممکن ہوا۔ اترپردیش میں ایچ این بہوگنا اور اس وقت کے گورنر میر اکبر علی خاں کی کوششوں سے دیش کی پہلی اردو اکیڈمی وجود میں آئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً بارہ اردو اکیڈمیاں اور وجود میں آ گئیں۔

یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ریاست اتراکھنڈ میں اردو اکیڈمی قائم کرنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ شری وجے بہوگنا نے ایک کمیٹی کی تشکیل کی۔ جس کا چیئرمین راقم الحروف کو بنایا گیا اور اس نے جو رپورٹ وزیر اعلیٰ کو دی اس کی بنیاد پر اتراکھنڈ میں اردو اکیڈمی بنی، اس وقت بھی اگر شری ایچ این بہوگنا کے بیٹے وزیر اعلیٰ تھے تو عزیز قریشی صاحب ریاست کے گورنر۔

اسی طرح مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی شری کپل سبّل نے اردو زبان کے فروغ سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا چیئرمین بھی راقم الحروف ہی کو بنایا گیا تھا اور ہم نے اپنی رپورٹ دسمبر2013ء میں اس وقت کے مرکزی وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل شری پلّم راجو کو پیش کر دی تھی۔ اس میں ہم نے جو خاص بات کہی تھی وہ اس طرح تھی:

اسکولوں میں داخلے کے ہر فارم میں تین خانے ہونے چاہئیں۔

(1)۔ ایک یہ کہ بچے کی مادری زبان کیا ہے؟

(2)۔ ماں باپ بچے کو کس زبان میں تعلیم دلانا چاہتے ہیں؟

(3)۔ تیسری زبان کے طور پر وہ کس زبان کو لینا چاہتے ہیں؟

مثال کے طور پر اگر وہ اردو کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر اسکولوں کے پاس بلاوجہ کا اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں کسی قلت کا عذر نہ رہے گا۔

اسی طرح اردو میں باقاعدہ تربیت یافتہ اور سند یافتہ اساتذہ کا ایک قومی رجسٹر تیار کیا جائے تاکہ اردو اساتذہ کی قلت کا جو رونا رویا جاتا ہے وہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے۔ اس کے علاوہ جتنے اردو کے نام پر ادارے قائم کئے گئے ہیں ان میں جو لوگ ملازمت کر رہے ہیں یا ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے اردو میں لکھنے پڑھنے کی مناست استعداد ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ جامعہ اردو علی گڑھ (جو ایک تاریخی اہمیت کا ادارہ ہے اور جس نے اردو میں فاصلاتی تعلیم کو اس وقت اختیار کیا تھا جب اس کا تصور بھی نہیں تھا۔) کو ایک ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی (Deemed to be University) کا درجہ دے دیا جائے۔ نیز انجمن ترقی اردو (ہند) جس کے قیام کو سو سال سے زیادہ گزر چکے ہیں، کے جنرل سکریٹری کو بااعتبار عہدہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ایکزیکٹیوکمیٹی کا ممبر لازمی طور پر نامزد کیا جائے۔

ادھر دور درشن پر گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے ہر روز دس نیوز بلیٹن اردو میں نشر ہوتے تھے، ان میں تین آدھا آدھا گھنٹے کے اور باقی پانچ پانچ منٹ کے ہوتے تھے۔ ان نیوز بلیٹنوں کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں بڑے شوق سے بڑی تعدا د میں دیکھا جاتا تھا۔ مارچ 2020ء میں کورونا وبا کے دور میں دور درشن نیوز نے اپنے نشریات کو محدود کئے تو اردو نیو زبلیٹن بھی روک دیے گئے اور صرف آدھے آدھے گھنٹے کے دو بلیٹن ہی نشر ہوتے رہے۔

اب جب کہ دور درشن نیوز کے دیگر زبانوں کے بلیٹن اور اس پر دیگر نشریات کو گزشتہ حالت میں بحال ہوئے طویل وقت گزر چکا ہے، اردو خبروں کی نشریات ابھی بھی ویسی ہی محدود ہے جب کہ اردو نیوز کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ناظرین مختلف ذرائع سے بار بار اپنا یہ مطالبہ دور درشن کے ذمہ داروں تک پہنچاتے رہے ہیں کہ ہر روز پہلے کی طرح پھر سے دس اردو نیوز بلیٹن کر دیے جائیں اور ایسا صرف دور درشن میں ہی ہو رہا ہو، صحیح نہیں بلکہ آکاش وانی کی اردو نشریات بھی کورونا کے وقت محدود کر دی گئیں تھیں لیکن دوسری نشریات کے ساتھ ان کو دوبارہ بحال نہیں کیا گیا۔

اگر دور درشن اور آکاش وانی میں اردو کے پروگرام اور دیگر نشریات بحال ہو جائیں تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ سرکار ہی کو ہوگا۔ ایک تو ان کی بحالی اردو بولنے والوں کے بیچ ایک مثبت پیغام بن کے پہنچے گی، دوسرے حکومت کے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور پالیسیوں کو اردو بولنے اور سمجھنے والی وسیع آبادی تک ان کے ذریعے پہنچایا جا سکے گا۔

اردو کے ساتھ اس تکلیف دہ رویے کا معاملہ تو دور درشن اور آکاش وانی نے ابھی کچھ دنوں کی بات ہے لیکن حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات نہ جانے کب سے اردو زبان میں کہانی، مکالمے اور گیتوں سے مزین فلموں کو اردو کے بجائے ہمیشہ ہندی کا سرٹیفکیٹ دیتی آئی ہے، اور اس میں ساری خطا سینسر بورڈ کی نہیں ہے بلکہ ان فلم سازوں کی بھی ہے جو اپنی انٹرنیشنل مارکیٹ میں کھپت اور کامیابی کے لئے اردو کے بجائے ہندی کا سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں۔

بہرحال اب جب کہ بولتی فلموں کو 90سال سے زیادہ کا عرصہ بیتا جا رہا ہے، جس طرح سینسر بورڈ فلم میں زبان و بیان، مکالموں کی ادائیگی، گیتوں کے بول پر نظر رکھتا ہے اسی طرح اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ فلموں کو زبانوں کے اعتبار سے جو سرٹیفکیٹ دیا جائے وہ فلم کی زبان سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ اس سلسلے میں زیادتی کہیے یا دھاندھلی، سب سے کریہہ مثال فلم امراؤ جان کی ہے، جو کہ مرزا ہادی رسوا کے مشہور زمانہ اردو ناول کی کہانی پر بنائی گئی لیکن کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ اسے سرٹیفکیٹ ہندی کا ملا۔

فلم سینسر بورڈ پروڈیوسرس کی اس بے تابی اور بے چینی کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ بغیر کسی جھگڑے میں پڑے اپنی فلم کو جلد سے جلد شائقین تک پہنچانا اور بزنس کرنا چاہتا ہے تاکہ فلم میں لگایا ہوا پیسہ جلد سے جلد واپس آ سکے۔ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ ایسے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ اردو زبان کے ساتھ یہ ناانصافی نہ ہو سکے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔