مسلمانوں میں مسلکی اتحاد وقت کی ضرورت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-11-2021
مسلمانوں میں مسلکی اتحاد وقت کی ضرورت
مسلمانوں میں مسلکی اتحاد وقت کی ضرورت

 

 

awazthevoice

 

 

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

برصغیر میں مسلمانوں کے بیچ مسلکی اختلافات نے عناد و فساد کی ایسی ایسی شکلیں لے لی ہیں کہ جس سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ اسلام بحیثیت دین اپنے نصوص قطعی میں امریکہ سے فجی(Fizi) تک ایک ہے اور توحید باری تعالیٰ، ختم رسالت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، قرآن حکیم کے اللہ کے آخری کتاب ہونے، زندگی ، موت اور تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں۔ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج کی ادائیگی میں بھی کچھ جزوی اور فروعی چیزوں کو چھوڑ کر بھی سب ایک دوسرے سے اتفاق رکھتے ہیں۔

اب جو اختلافات ہیں وہ تشریحات اور تعبیرات کو لے کر ہیں جس میں جغرافیائی عوامل کی بھی بڑی کارفرمائی رہی ہے اور یہ اختلافات اسلام کے جمہوری کردار کے آئینہ دار ہیں اور اسی لیے ان اختلافات کو خیرامت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ مقامی ریت و رواج یا انہیں فقہ کی اصطلاح میں کہیں تو عرف و عادات نے وہ افرا تفری مچائی کہ مسلمانوں کا اتحاد ایسی چیرہ دستیوں کا شکار ہوا کہ اس نے انہیں کہیں کا نہ رکھا۔ لیکن بھلا ہو مولانا سید محمود اسعد مدنی، صدر، جمعیۃ علماء ہند کا، جنہوں نے اپنے ایک بیان میں بڑی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ہمت و جرأت سے کام لیتے ہوئے یہ کہا کہ وہ مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اتحاد امت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اور اس کے لئے جو بریلوی علماء ہیں ان کے پیچھے چلنے کو بھی تیار ہیں۔

مولانا محمود مدنی کا بیان اس لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر بھی ہیں جو علماء دیوبند کا ایک تاریخی پلیٹ فارم ہے اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے خاندان کے روشن چشم و چراغ ہیں۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دیوبندی علماء ہوں یا بریلوی علماء، دونوں تصوف کے سلسلوں سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حاجی صاحب امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ تک کوئی ایسا اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ شاہ ولی اللہ کی شخصیت ان کے علم و فضل اور دینی فکر و بصیرت پر دونوں ہی متفق ہیں۔

اگر بعد میں شریعت اور طریقت کو لے کر کچھ اختلافات ہوئے بھی تو ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارے مذہبی دائرے میں اہل علم و دانش کو اپنی سوچ رکھنے اور تشریع و تعبیر کا حق ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ تقلید ہمارے جیسے عامی کے لئے تو ناگزیر ہے لیکن ہمارے جیّد اور دین کے اساطین علماء کے لئے ضروری نہیں۔ اب جو ان سے متفق ہے، ان کا ارادت مند ہے، ان کی عقیدت کے دائرے میں داخل ہے، انہیں ان کی بات ماننے اور پیروی کرنے کا پورا حق ہے لیکن حالات کی اسے ستم ظریفی ہی کہہ سکتے ہیں کہ دین کی اصل پر ایک رہتے ہوئے بھی فروعی معاملات کو ہم نے جی کا جنجال اور سماج کے لئے ایک پریشانی کا سبب بنا دیا ہے اور بلا تخصیص یہ کتنی ہی تکلیف دہ بات کیوں نہ ہو، پر حقیقت ہے کہ بعض لوگوں نے تو دین کو اپنے جوشِ عقیدت میں مسالک کا تابع بناکر رکھ دیا ہے جب کہ ہمارے کسی فرقے، مکتب فکر اور اسکول کے کسی بزرگ عالم اور دانشور نے اس کی نہ اجازت دی ہے اور نہ ہی اس کی کسی طرح ترغیب دی اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ 8 مئی 2016 ء کو اس طرح کی جرأت مندانہ پہل سب سے پہلے اعلی حضرت فاضل بریلیؒ کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں صاحب نے دیوبند جاکر کی تھی۔ یہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف مراجعت نہیں تھی بلکہ دو ناقابل عبور حدبندیوں پر خیرسگالی، ہمدردی اور اتحاد کا ایک پُل تعمیر کرنا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں بھی اتفاق سے اس دن سہارنپور جاتے ہوئے مرحوم مولانا محفوظ الرحمن عثمانی کے ساتھ دیوبند میں تھا۔

مولانا توقیر رضا صاحب کو وہاں دیکھ کر مجھے بھی خوش گوار اچنبھا ہوا تھا لیکن میں ان کی جرأت رندانہ اور دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں کی فراخ دلی کی جتنی تعریف کروں، کم ہے، کہ انہوں نے اس خیرسگالی کے جذبے کا بڑی وسعت قلبی کے ساتھ استقبال کیا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مولانا سید محمود مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس عام، منعقدہ اجمیر شریف میں مدرگاہ شریف خواجہ غریب نواز کے خدام کی انجمنوں کے عہدیداروں کے ساتھ جناب مولانا توقیر رضا خاں صاحب کو بھی مہمانِ خاص کے طور پر مدعو کیا تھا اور یہ بھی کیسا حسن اتفاق ہے یا خواجہ غریب نواز کی شخصیت کا روحانی تصرف ہے کہ ہندوستان میں جہاں سے شجرِ اسلام کا بیج بویا گیا اسی شہر میں ایک بار پھر سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک آ ملے اور بریلی اور دیوبند کا سنگم بھی دیکھنے کو ملا تو وہ اجمیر کی مقدس سرزمین پر، جہاں خواجہ خواجگان، ہند کو عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ قیامت تک کے لئے آسودۂ خواب ہیں۔

ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے حزم و احتیاط، صبرو تحمل اور راسخ العقیدگی سے کام ضرور لینا چاہیے اور ایک بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافروں کو مسلمان بنانے کے لئے آئے تھے، مسلمانوں کو کافر بنانے کے لئے نہیں۔

بارگاہ الٰہی میں ہماری یہ دعاء ہے کہ وہ اپنے آخری رسولؐ کے صدقے میں مولانا سید محمود مدنی اور مولانا توقیر رضا خاں صاحب کی کوششوں کو ثمرآور کرے، مسلمان ایک ہو جائیں، نیک ہو جائیں اور دنیا کے لئے نفع کا سامان ہو جائیں۔

نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔