فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات
فرقہ واریت کے خلاف دو اجتماعات

 

 

awazthevoice

 پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

اتوار (29مئی)کو دہلی سے دیوبند تک مسلمانوں کا موجودہ حالات میں کیالائحہ عمل ہو؟ فرقہ پرستوں اور اشرار کے خلاف ان کا کیا رویہ ہو؟ اس پر دو اہم اجتماعات میں غور و خوض ہوا۔

دیوبند کا اجتماع مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت والی جمعیۃ علماء ہند کے عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس تھا اور اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی جو کہ جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے گٹ کے سربراہ ہیں وہ بھی نہ صرف موجود تھے بلکہ انہوں نے دونوں جمعیۃ کے اتحاد اور انضمام کا جو اشارہ دیا وہ اس اجلاس میں موجود اور غیرموجود ہر شخص کے دل کی آواز تھی جس کا بلند و بانگ نعرہ ہائے تکبیر سے استقبال کیا گیا۔

ایک طرف مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے یہ رہنمائی کی کہ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے تو دوسری طرف مولانا سید محمود اسعد مدنی نے انتہائی جرأت اور فراست کے ساتھ بالکل صحیح کہا کہ مسلمان خوف، مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کے تعمیر کی فکر کریں۔ وہیں مولانا ارشد مدنی صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ ہماری لڑائی فرقہ پرست طاقتوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان ابھی بھی عدل و انصاف کو چاہنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ مولانا محمود مدنی نے واضح لفظوں میں کہا کہ ملک کے لیے ہماری جو ذمہ داری ہے ہم اسے ضرور نبھائیں گے۔ اگر اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری جان بھی جائے گی تو یہ ہمارے لیے سعادت کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ہماری شناخت اور وطن سے ہماری محبت برداشت نہیںہے تو وہ کہیں اور چلے جائیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ یہ وطن ہمارا ہے اور ہماری سوچ اور فکر کی اکثریت یہاں رہتی ہے۔  اس اجلاس میں کشمیر سے کنیا کماری تک اور مشرق سے مغرب تک ہندوستان کے ہر علاقے سے جمعیۃ کے عہدیداران شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں مسلم پرسنل لاء، برادرانِ وطن کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے طویل مدتی پالیسی، گیان واپی اور متھرا کی عیدگاہ پر بہت معنی خیز انداز سے اور وطن دوستی کے جذبے کے ساتھ قرار دادیں منظور ہوئیں جس میں یہ کہا گیا کہ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن و امان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب نئے تنازعات کے ذریعے محاذ آرائی اور اکثریتی غلبے کی منفی سیاست کو نئے مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔

 اس اجلاس میں جہاں ایک طرف اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے نظم و نسق کی بے بسی اور لاچاری ختم ہو اور اس طرح شرمناک اور ناقابل بیان حرکتوں کا انسداد ہو اور ہر مذہب کے پیشواؤں کا احترام محفوظ رہنا چاہیے۔

اس اجلاس میں ہندی زبان کے حوالے سے بھی ایک بہت مثبت تجویز پاس کی گئی جس میں تمام مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کی گئی کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ تمام ائمہ اور واعظین سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ اپنے خطبات میں مواعظ حسنہ کو ہندی میں بھی دیں تاکہ سب تک اسلام کی حقانیت اور انسان دوستی کا پیغام پہنچ سکے۔

جمعیۃ علماء ہند (مولانا سید محمود اسعد مدنی گروپ) کے اس اجلاس نے میرا خیال یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کے شکوے شکایت کو دور کر دیا ہوگا جو مسلمانوں کی جماعتوں اورعلماء کرام سے ایک واضح رول کے متقاضی ہیں۔

دیوبند کے اس اجتماع میں مولاناسید ارشد مدنی کی پیرانہ سالی اور مولانا سید محمود اسعد مدنی کی جواں سالی نے اپنے جوش، جذبے، عزم اور حوصلے سے جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ انشاء اللہ آنے والے دنوںمیں بہتر نتائج مرتب کریں گے۔ ویسے بھی مولانا ارشد مدنی ہوں یا مولانا محمود مدنی، دونوں اپنے اپنے انداز سے جس طرح جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے معصوم اور مظلوم لوگوں کی قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں، ان کی رہائی کو یقینی بنا رہے ہیں وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔

دہلی میں سابق ممبر راجیہ سبھا اور دلِ دردمند رکھنے والے حساس طبیعت محمد ادیب صاحب نے جس طرح انڈین مسلم انٹلکچول میٹ کا انعقاد کیا اور جس کے اندر سابق مرکزی وزراء، سابق بیروکریٹس، سابق جج، سیاسی اور سماجی افراد، تعلیم اور وکالت کے میدانوں سے وابستہ اہم افراد نے شرکت کی اور اس موقعہ پر جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بہت صحیح کہا کہ جو لوگ یہاں پر جمع ہیں انہیں صرف مسلمانوںکی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی فکر ہے۔

لوک سبھا کے ایم پی کنور دانش علی نے ایک ایسے لیگل فریم بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس سے کہ جھوٹے مقدمات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں کی مدد کر سکیں۔ انہوں نے ایک ایسا گروپ بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو ہندوستانی قوم کو متحد کر سکے اور امت کی رہنمائی کر سکے۔ اتراکھنڈ، اترپردیش اور میزورم کے سابق گورنر جناب عزیز قریشی نے بڑی بے باکی سے کہا جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں کہ کبھی اذان، حجاب کے مسئلے اٹھائے جاتے ہیں اور ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ کوئی بھی سرکار یا کوئی طاقت ہمیں اس ملک سے الگ نہیں کر سکتی۔ موجودہ وقت کے تحت ہمیں اپنی لڑائی خود ہمت سے لڑنی ہوگی۔ سابق مرکزی وزیر جناب سلمان خورشید نے ایک غیرسیاسی تنظیم بنائے جانے پر زور دیا اور اس کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اختلافات کو دور کرنے پر بھی زور دیا کیوں کہ بقول ان کے ’’اگر ہم الگ الگ خیموں میں تقسیم رہے تو کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔‘‘ سابق مرکزی وزیراور بزرگ سیاسی رہنما کے۔

رحمن خاں نے اس موقعے پر بڑے پتے کی بات کہی کہ ’’ہمیں اپنے تجربات کے ساتھ ملک کا اسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری جماعتوں کا منصوبہ کیوں فیل ہوا اس پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی نوجوانوں اور خواتین کو بھی جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد ملت کونسل کے چیئرمین اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی مولانا احمد رضا خاںؒ کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں نے کہا کہ یہ گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ گاندھی جی کے طریقے پر چل کر ستیہ گرہ کرنا ہوگا جو کہ ہمارا آئینی حق ہے۔

اس موقعے پر خواتین کی نمائندگی پدم شری ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید اور طالب علم رہنما صفورا زرگر، ثمینہ رعنا، ہدیٰ زرّیں والا، صدف جعفری اور ڈاکٹر فریدہ بیگم نے کی۔ ان کے علاوہ موجودہ ممبر پارلیمنٹ حسنین مسعودی اور شفیق الرحمن برق صاحب کے علاوہ سابق ارکانِ پارلیمنٹ جناب عزیز پاشا اور جناب انور علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یہ دو اجتماعات اگرچہ دوالگ الگ شہروںمیں منعقد ہوئے لیکن ان کے پیچھے جو مقصد کارفرماتھا اور وہ ایک ہی تھا کہ جس طرح مسلمانوں کو، ان کے دین کو، ان کے رسولؐ کو، ان کی شریعت کو، ان کی مساجد، اداروں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی جائے اور منظم ہو کر ان سب کا دفاع کیا جائے۔ آج سوال صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا ہے۔

وہ لوگ جو بظاہر مسلمانوں ک خلاف ہیں وہ صرف مسلمانوں ہی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ مہاتما گاندھی، دستورِ ہند اور ترنگے کے بھی خلاف ہیں۔ وہ دیگر اقلیتوں جیسے عیسائیوں، سکھوں،بودھوں اور دلتوں کے بھی خلاف ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اس ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف ہیں اور وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان کو اگر معاشی اعتبار سے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے پہلی لازمی شرط امن و امان اور خیرسگالی کی ہے۔

)مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔(