جموں و کشمیر میں صوفیانہ شاعری کی روایت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
جموں و کشمیر میں صوفیانہ شاعری کی روایت
جموں و کشمیر میں صوفیانہ شاعری کی روایت

 

مشتاق احمد صدیقی

لفظ ’صوفی‘ کے بارے میں لوگوں کی مختلف آرا ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک صوفی کا لفظ اصل میں ’صفوی‘ تھا، جو کثرت استعمال سے صوفی بن گیا۔ ابو الحسن کے مطابق صوفی کا لفظ ’صفا‘ سے بنا ہے۔ جس کا مطلب ان لوگوں سے ہے جنھیں خدا وند قدوس نے اوائل ہی سے بشری کدورتوں اور غلاظتوں سے پاک رکھا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ جو لوگ سادگی کی وجہ سے صوف یعنی اون یا موٹا کپڑا پہنتے تھے وہ صوفی کہلاتے تھے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار نے ’تذکرة الاولیا‘ میں اس لفظ کی ایجاد کا سہرا بغدادیوں کے سر باندھا ہے۔

علامہ ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب’کتاب الہند‘ میں صوفی کے معنی ’فلاسفر‘ کے لکھے ہیں اور صوف کے معنی فلسفہ کے۔ بقول اُن کے اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جس کا ملک یونانی صوفیوں کے قریب قریب تھا، اس لیے ان کا نام صوفی پڑ گیا۔ مختصراً یہ کہ لفظ ’صوفی‘ صوف سے مشتق ہو یا صفا سے، وہ مذہبی اور اخلاقی عالم میں ایک خاص حیثیت رکھتا ہے

تصوف صوفیا کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے پر چل کر وہ تزکیہ نفس سے پاکیزگی قلوب کااہتمام کرتے ہیں اور تمام طریقوں کو شرع محمدی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپناتے ہیں۔تصوف کی بنیاد در اصل ذاتی احساسات، تجربات اور خیالات پر مبنی ہے۔ صوفیا نے اپنے اپنے وجدان اور تجربے و ذوق سے جو محسوس کیا اسے اپنے اپنے انداز میں بیان کردیا۔ سبھی تعریفیں بالآخر ایک ہی نتیجے پر پہنچتی ہیں، سب کے انداز اور طریقے نرالے ہیں۔ حقیقتاً سب کاحصول،قربِ الٰہی اور معرفت الٰہی ہی ہے۔

پنڈت کلہن (مورخ )نے تو اپنی زمانۂ مشہور کتاب ’راج ترنگنی‘ کے پہلے ہی باب میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ہمارے وطن جموں و کشمیر کو سخی ہاتھوں نے ایسے فطری حسن اور کشش سے نوازہ ہے کہ اس کے برف پوش پہاڑوں، گھنے، سرسبز جنگلوں، صاف و شفاف اور میٹھے پانی کے چشموں، جھرنوں اور آبشاروں کے نزدیک بسنے والے کسی بھی دور میں روحانیت اور مذہب پسندی سے دور نہیں رہ سکتے۔ گویا اس مورخ کی یہ سوچ تھی کہ وطنِ عزیز کے سبھی نیک دل اور حساس انسان مذکورہ بالا چیزوں میں خدا کی وحدانیت کا جلوہ کسی نہ کسی طرح دیکھتے رہے ہیں۔

اوراق تاریخ سے بھی ہمیں یہی علم ملتا ہے کہ چودھویں صدی عیسوی میں ترکستانی یا وسط ایشیائی اور ایرانی صوفیوں کی جماعتیں مختلف کاروانوں کی صورت میں اگرچہ وطن عزیز پہنچیں، تاہم ان سے بہت پہلے یہاں رشیوں، سنتوں، سادھوؤں نے تصوف بھکتی کے سلسلے کو جاری رکھا تھا۔

ان کی تپسیا، ریاضت، اور دھیان و گیان کی روایت نے لاکھوں دلوں کی زمینوں کو اس قدر ہموار کر رکھا تھاکہ کوئی بھی عاجزانہ، مخلصانہ اور درد مندانہ بحث اور زاہدانہ عمل اپنا اثر دکھائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ حالانکہ مشکل یہ بھی تھی کہ صدیوں پرانی رشیوں اور سنتوں کے ہاں رائج سریت،بر صغیرمیں زیادہ تر منفی رجحانات، رہبانیت اور ترک دنیا کی تعلیم دیتی رہی اور گھر بار چھوڑ کر گیان پانے کی وکالت کرتی رہی۔

اوائل ہی سے بدھ مت کے یہاں گہرے اثرات رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں ہی یہاں عالمی بدھ کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں بادشاہ وقت کے علاوہ کئی عقیدت مند بدھ بھکشوؤں نے شرکت کی۔ ہمارے اسلاف اس کانفرنس کی ایک خاص بات کا برملا اظہار کرتے آئے ہیں۔بقول اُن کے اس بدھ کانفرنس کی تمام تر تفصیلات بدھوں نے تانبے کی ایک ’پتر‘ پرکندہ کروا کر کسی مقام پر دفن کر دیا تھا۔ تاریخ کے اوراق میں مانی کا قیام اس لحاظ سے یقینی ہو جاتا ہے کہ اس نے بھی اپنی تعلیمات کا خلاصہ ترک دنیا و لذات مادی دیا تھا جو متصوفانہ نظام کی ترجمانی کرتا ہے غرض یہ کہ مانی اپنی تعلیمات کی تبلیغ میں بے حد فعال اور متحرک رہا ہے۔

ریاست میں جب شومت کا پرچار ہوا، تو ان کے نظریات اور خیالات بھی اسی رجحان کو تقویت پہنچانے والے معلوم ہوتے ہیں۔ در اصل بدھ دھرم اور وید دھرم کی تعلیمات کی آمیزش کے نتیجے میں خدا پرستی کا ایک نیا فلسفہ وجود میں آیا۔ جسے کشمیری ’شیو درشن‘ کہتے ہیں۔ اس کی بنیاد نویں صدی عیسوی میں رشی سومانند نے رکھی تھی اور کشمیری شیو مت کو سمجھانے کے لےے ’شیو ساتر‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔

شیو مت کے حامی اس بات کے قائل ہیں کہ سنسار یعنی دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ ’شو‘ ہی ہے۔ اسلامی تصوف دنیا کی تمام چیزوں کو جدا نہیں مانتا بلکہ ان میں اس کے ظہور ہونے کی تائید کرتا ہے۔ غرض یہ کہ کشمیری شیو مت ایک مکمل مذہبی اور اخلاقی فلسفہ ہے جیسے ’ترک شاستر‘ بھی کہتے ہیں اس فلسفے کی روح سے انسان کو اپنے وجود، اپنی اصل اوربنیادی فطرت کو پہچاننا چاہےے تاکہ وہ اسی طرح زندگی گذار سکے جیسی زندگی گذارنے کا اسے حکم ملا ہے۔ شیو مت میں پرتی بھگیا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اپنی اصل کو پرکھنے کے ہیں۔

دراصل 1319کے  آس پاس ایک ایرانی سودا گر شاہ میر کے کشمیر آنے کا ذکر ملتا ہے جو آخری ہندو راجہ سد یوراج کے دربار سے منسلک ہو گیا تھا 1320 میں لداخ کا شہزادہ جس کا نام چن گیا لپورنجن تھا، اپنے باپ کی زیادتیوں سے تنگ آکر کشمیر آیا اور راجہ کے سپہ سالار رام چندر رنیہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں تاتاری شہزادے کا کشمیر آنا، ہندو راجا کو شکست دینا، رنچن اور شاہ میر کا رینہ کو قتل کرنا، رنچن کارانی کے ساتھ شادی ہونا اور کشمیری برہمنوں کا برہم ہونا وغیرہ مذکورہے۔

المختصر یہ کہ راجہ کے مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے درباری اور رعایا بھی تیزی سے ایمان لانے لگے اور یوں وادیِ کشمیر میں دینِ اسلام کی روشنی پھیلتی رہی، سلطان حیدرالدین رنچن شاہ کے بعد شاہ میر نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی جو تاریخ میں شمس الدین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس شاہ کے خاندان کو تاریخِ کشمیر میں ’شاہ میری‘ خاندان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس خاندان نے کشمیر پر تقریباً 330 سال تک حکومت کی ہے۔بابا بلبل شاہ (شمس الدین ) کے بعد پیر پنجال کے راستے سے تشریف لائے۔ وہ امیر کبیر حضرت میر شیخ سید علی ہمدانی ہیں، جن کو کشمیریوں نے عقیدت و محبت اور لطف عنایت سے ’شاہ ہمدان‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔اور آج بھی زیادہ ترشہرت ان کے اِسی نام سے ہے۔

اگرچہ کہ اس بزرگ کا تعلق تصوف کے کبرویہ سلسلہ اور شافعی مسلک سے تھا، پھر بھی وسعت قلبی اور اخوت نوازی کی آبیاری کے لےے آپ نے بابا بلبل ترکستانی کے رائج کردہ سلسلہ اور مسلک (حنفی) کو جوں کا توں جاری رہنے دیا اور ان کا تزکیہ نفس فرمایا۔ صوفی چونکہ مذہبی اور مسلکی روا داری کے قائل ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ایک ایسے محبت بھرے سماج کی تشکیل چاہتے ہیں جہاں تہذیب و تمدن کے ساتھ محبوب حقیقی اور مخلوق خداوندی سے عشق کیا جائے۔

شاہ ہمدانی نے اپنے والد محترم کے تصوف پر لکھے گئے رسالوں کا غائر مطالعہ کرنے کے بعد تصوف پر بذات خود کئی رسالے لکھے جن میں ’شمسہ‘ بھی ایک تھا۔ غرض یہ کہ چودھویں صدی کے عظیم مبلغ اسلام معمار تقدیر امم اور سالار عجم میر سید علی ہمدانی کی شخصیت اور ان کے داعیانہ کار نامے کی کئی صدیاں گذرنے کے باوجود کشمیری قوم اور امت مسلمہ کے ذہنوں میں آج بھی ترو تازہ ہیں۔ جنھوںنے کشمیری قوم کو راہِ توحید و سنت دکھا کر ایمان و اخلاق کی بے پناہ دولت سے فیضیاب کیا۔ وہ محسن کشمیر تھے ان کی تعلیمات، احسانات اور تابندہ زندگی آج بھی ہمارے لےے مشعل راہ ہےں۔ علامہ اقبا ل بھی کشمیری تھے ان کے الفاظ دیکھے

سید السادات سارار عجم

خطہ را آن شاہ دریا آستیں

دست او معمار تقدیر امم

درد علم و صنعت و تہذیب و دیں

تاریخ کے بغور مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں زمانۂ قدیم سے ہی روحانیت کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں بدھ بھکشوؤں، سنتوں، اور صوفیوں نے ہردور میں تصوف کا پرچار کیا اور اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کیا۔ اپنے اپنے دور میں رائج رہی زبانوں کا مواد آج بھی اسی موضوع سے بھرا پڑا ہے۔ ریشت نے کشمیری شاعری میں تصوف بھگتی کی جو شعری روایت قائم کی اس کی اعلی ترین مثالیں ہمیں آج بھی لل دید کی شاعری میں ملتی ہیں۔

لل دید کے خاندان، پیدائش اور پرورش کے بارے میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ معلومات دستیاب نہیں۔ مورخوں اور تحقیق کاروں نے اپنی اپنی آگاہی کے مطابق اُن کی پیدائش کی نشاندہی کی ہے۔لل دید کو، لل شیوری اور لل ماں یا ما جی بھی کہتے ہیں ان میں کچھ ایسی کرامات تھیں جوہر ایک کے ہاں انھیں اپنا ہونے کایقین دلاتی تھیں۔ اگرچہ کہ اس کے مذہب کالب لباب شو اور شکتی ہے لیکن اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس کے دل کا آئینہ ملت و مذہب کے تفرقوں کے رنگ سے پاک ہو چکا تھا۔

ذات پات، رنگ و نسل اور مذہبی رسومات ان سے کوسوں دور ہو چکی تھیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی وہیں پلی بڑھی اور مذہبی تعلیم پائی۔ مگر شو کے خیالوں نے ایسا گم کر دیا کہ وہ صوفیوں سے بھی کچھ دور نہ رہی۔ ان کے روحانی فیض سے مستفیض ہوئیں اور اپنے کارنامہ سے بھی ان کو متوجہ کیا۔ غرض ان کی کرامات سے متعلق بہت کہانیاں کشمیر میں مشہور ہیں۔ جن میں شیخ نور الدین ولی ؒ کو دودھ پلانا اور میر سید علی ہمدانی کی ملاقات جیسے واقعات زیادہ مشہور ہیں۔

علمدارِ کشمیر (حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین نورانی) کی ذات بابرکات سے وادیِ کشمیر کا کون سا شخص ناواقف ہوگا۔ مسلمانوں میں نندہ ریشی اور ہندوں میں نہرا نند کے نام سے یاد کیا جانے والا یہ عظیم المرتبت ریشی،چرار شریف میں اب بھی لوگوں کے لیے ہدایت ورہبری اور سکون کی مشعل روشن کیے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر کے علما اور شعرا نے شیخ العالم کی حیات اور ان کے پیغام کے مختلف پہلوؤں کو روشن کرنے اور ان کے کلام کی تدوین وتفسیر کے سلسلے میں کئی جتن کیے ہیں۔ لل دید اور نند رشی کے بعد حبہ خاتون کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اپنی بے پناہ صلاحت اور کرامات کی بناءپر ان کا شمار صف اول کی شاعرہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعدریاست میں شاعری کا سب سے قد آور نام محمود گامی کا ہے۔ جس نے حبہ خاتون کے چلائے ہوئے مشن کو نقطۂ عروج پر پہنچایا۔بعض لوگ شاید اسی حوالے سے ان کو ریاست کا ابتدائی شاعر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کلام کشمیری میں ہے۔ ان کے کلام کی عام خصوصیات بے ساختگی، جذبات کی عمومیت، زبان کی سلاست اور طرزِ بیان کی سادگی ہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ ان کی غزلوں کے دو حصے ہیں۔ صوفیانہ اور عاشقانہ۔محمود گامی کا ہم عصر شاعر ولی متو تھا۔

جس کے کلام میں بھی متصوفانہ اشعار کی چاشنی ملتی ہے۔محمود گامی اور ولی اللہ کے بعد رسول میر کا نام آتا ہے۔ جن کا اردو کلام بھی ملتا ہے۔ اس دور میں نعت گوئی کو بہت فروغ ملا۔ اس دور کے شعرا میں ایک اہم نام ثناءاللہ کا بھی ہے جنھوںنے اپنے ذہن رسا اور معنی یاب طبیعت سے شاعری کو نئے تقاضوں سے ہمکنارکیا۔ گلریز،گریست نامہ اور پیر نامہ اس بات کے شواہد ہیں۔حضرت میاں محمد بخش صاحب اپنے کلام کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔

ان کا کلام انھیں کسی محدود جگہ تک نہیں رکھتا۔ جس جگہ جاﺅ وہ وہیں کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے متصوفانہ اشعار بڑی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ وہ کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔ آپ کی ریاضت، عبادت، کشف و کرامات مع دیگر صفات کے سلف صالحین کا نمونہ ہیں۔ گویاوہ اللہ والوں میں سے تھے۔ ان کا کلام اتنا مقبول ہے کہ اگر کسی کو کچھ نہ یا دہو، اس کو بھی میاں صاحب کا کوئی قول، مصرع یا پھر پورا شعر ضرور یاد ہوگا۔ ان کے متصوفانہ کلام سے اخذ کیے گئے اشعار ملاحظہ ہوں

قدرت تھیں جس باغ بنائے جگ سنسار تمامی

رنگ برنگی بوٹے لائے کچھ خاصی کچھ عامی

مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے

مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے یا نہ لاوے

مشکل دی کنجی یارو، مرداں دے ہتھ آئی

مرد نگاہ کرن جس ویلے مشکل رہے نہ کوئی

دنیائے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے

اس بے فیضیے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے

مختصراً یہ کہ آپ ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ آپ نے وحدت الوجود کے نظریہ کی تائید کی۔ آپ کے اشعار خاص و عام میں پسند ہیں۔ جموں و کشمیر میں متصوفانہ شاعری کی روایت کو آپ نے بہت فروغ دیا۔سرزمین کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی، جن کو کشمیر کے دو ادیب سے بھی دنیائے ادب میں جانا جاتا ہے، بھی تصوف بھگتی سے کافی متاثر تھے۔ ہر چیز میں انھیں بھی خدا وند قدوس کا عکس جلوہ نظر آیا۔جس کا بر ملا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔ 1889 میں اردو کو جب سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی تو بہت سارے شعرا جو مقامی اور علاقائی زبانوں کی شاعری میں اپنے مذہب اور حق کے پیغامات کو عام کر رہے تھے،اردو کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ کی۔ لوگ شاعری کے دلدادہ تھے۔عوام الناس میں شاعری سنی اور پسند کی جاتی تھی۔ دوسری شاعری کی بہ نسبت متصوفانہ شاعری کو زیادہ پسند کیا جاتا تھا

نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

لوگ اس طرح کی شاعری سے مچل پڑتے تھے۔ علما، فضلا، امرا، ادبا اور شعرا کو داد دیتے تھے۔ محفلیں، اور مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ بیرون راست سے ایسے شعرا و ادبا کو دعوت دی جاتی تھی جو تصوف بھگتی کے نکات و مسائل سے پوری طرح واقف ہوتے تھے۔ 1914 میں ’بزم مشاعرہ‘ کے نام سے جموں میں ایک ادبی تنظیم قائم کی گئی تھی۔ جس میں شیخ غلام تقشبندی جیسے لوگوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان مشاعروں میں جو غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ انھیں گلدستہ کی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیاجاتا تھا۔

’بزم مشاعرہ‘ جموں میں حصہ لینے والے زیادہ تر مذہبی اور سیاسی نقطۂ نظر کے لوگ تھے۔ اس لیے قلیل عرصے کی مدت میں یہ بزم اپنا استحکام کھو بیٹھی اور صفحۂ ہستی سے مٹ گئی۔لیکن اس بزم مشاعرہ کی وجہ سے بھی متصوفانہ شاعری کی روایت کو قابل قدر فروغ ملا۔جموں و کشمیر کے ان دو ادبی مراکز یعنی جموں اور کشمیر کے علاوہ خطۂ پیر پنجال اور چناب ویلی کے شعرا کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ یہ دونوں علاقے مذہبی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم رہے ہیں۔

آستان عالی پر شعرو سخن کا پرانا رواج آج بھی بدستور جاری و ساری ہے۔ ہر سال عرسِ اولیا کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں متصوفانہ اشعارکو خوب گایا جاتا ہے۔جموںو کشمیر میں ابتدائی دور کے شعراءمیں عبد الغنی بیگ زینب بی بی، شیو ناتھ کول منتظر، پنڈت ٹھاکر پرشاد، وانچو مفتوں، پنڈت پرمانند، پنڈت نرنجن ناتھ رینہ، حسن ڈار اور سید محمود انور شاہ وغیرہ کے نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن کا اردو کلام ملتا ہے جو زیادہ تر مذہبی نوعیت کا ہے۔ ریاست کے مشہور مورخ محمد دین فوق اور عبد القادر سروری نے ان کے کلام کے نمونے بھی پیش کے ہیں۔

جموں و کشمیر میں اردو کی متصوفانہ شاعری کی روایت میں نشاط کشتواڑی کا نام کافی اہم ہے۔غلام رسول نام، نشاط تخلص اور کشواڑی، کشواڑ کی مناسبت سے کہلائے جو صوبہ جموں کا ایک ضلع ہے۔ لیکن ادبی حلقوں میں ان کی شہرت نشاط کشواڑی کی وجہ ہی سے ہے۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا اور جلد ہی ایک فاضل استاد اور عالم دین صوفی منش بزرگ حضرت مولانا محمد حبیب اللہ صاحب پونچھی حنفی نقشبندی سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا تو جلد ہی شعرو شاعری کے گُر سیکھ لیے۔

ان کے کلام کا زیادہ تر حصہ منظومات پر مشتمل ہے۔ ان کی مذہبی نظموں کے دو مجموعے ’نعتِ سرکارِ دو عالم‘ اور ’مناجاتِ اولیا‘ منظر عام پر آ کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ نشاط ایک تازہ لوح صوفی منش انسان ہیں۔ اس لےے ان کے تصور حیات اور نظریہ تصوف وقتِ حاضرہ میں کسی تعریف سے بالا تر ہیں۔ وہ جہاں یادِ الٰہی میں دست بہ دعا ہوتے ہیں وہیں شاعری کے الفاظ میں بھی، ان کی دعاﺅں سے ایک خاص رنگ جھلکتا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں

ترے در پہ اک بے نوا الٰہی

اٹھاتا ہے دستِ دعا یا الٰہی

آزادی کے بعد پرانے شعرا کے دوش بدوش نئے شعرا کا ایک بڑا قافلہ نظر آتا ہے۔ جن میں امین حزین، کش سمبلپوری، ایم۔ ڈی تاثر، صادق علی صادق، وشو ناتھ درماں، آزاد عسکری، میر خورشید احمد، ذبیح راجوری، ضیاءالحسن ضیائ، حبیب اللہ کوثر، رعنا نظامی، امر چندولی، مرزا غلام حسین، بیگ عارف اور حبیب کیفوی وغیرہ کے نام کافی اہمیت کے حامل ہیں۔

ان شعرا کے ہاں فکری نُدرت اور اظہار کے نئے اسلوب اور سانچے ملتے ہیں۔1960 کے بعد شعری ادب میں حلیم منظور، عابد مناوری، راز مناوری، ودیارتن عاصی، محمود الحسن، رہبر جاوید، پرتپال سنگھ بیتاب، محمد رمضان منٹو، بشیر احمد، کے۔ ڈی مینی، فاروق مظفر، خورشید بسمل، احمد شناس، ہشیار راجوروی، فدا کشتواڑی، مرغوب بانہالی منشور بانہالی اور ڈاکٹر صابر مرزا وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ جن کے کلام میں تصوف کی ہلکی سی چاشنی ملتی ہے۔

تمام شعرا کسی نہ کسی مسلک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے مسلک اور مذہب کی تبلیغ کے لیے بعض اشعار کہے ہیں جن میں خدا کی وحدانیت اور مخلوقِ خدا میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔ میر غلام رسول نازکی کی شاعری کا آغاز آزادی سے پہلے ہو چکا تھا لیکن آزادی کے بعد انھوںنے اپنے اسلوب اور لہجے کی وجہ سے ریاست کے شعرا میں ممتاز مقام بنا لیا۔ میر غلام رسول نازکی بیسوی صدی عیسوی کے کشمیر کے علمی، ادبی، سماجی، روحانی اور سماجی منظر نامے کا ایک درخشاں ستارہ ہیں۔

آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا ہر ایک گوشہ اور پہلو سنجیدہ اور فکر مطالعے کا متقاضی ہے۔ وہ بیک وقت ایک اعلیٰ پایہ کے استاد، مقرر اور عالم تھے میر غلام رسول نازکی کا اکثر کلام روحانی تجربات کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے نعتیں بھی کہی ہیں۔ جن میں انھوں نے نبی کریم کی بلند ترین اور عظیم ترین شان کو پیش نظر رکھ کر اپنی استادانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہر کیا ہے۔میر غلام محمد طاؤس اور سیفی سوپوری کے کلام میں بھی تصوف کے نکات و مسائل کی ہلکی پھلکی چاشنی ملتی ہے۔

چھوٹا کشمیر کے نام سے موسوم ضلع پونچھ نے کئی سخنور پیدا کیے ہیں۔اپنی علمی استعداد کے مطابق اردو شعر و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں اور مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ان سخنوروں میں تحسین جعفری بھی ایک تھے تحسین جعفری ضلع پونچھ، تحصیل حویلی اور محلہ منگناڑ کے رہنے والے تھے۔ شاعری کا ملکہ ان کی فطرت میں ودیعت تھا۔ آپ کی شاعرانہ فکر، گل و بلبل کے نغمات سے محترز ہو کر روحانی جذبہ، اخلاقی پاکیزگی اور فنی پختگی قابلِ داد تھی۔خطہ پیر پنجال کاجدید ترین شعری منظر نامہ جن آوازوں سے معمور ہے۔ ان میں حسام الدین، خورشید کرمانی، لیاقت جعفری، شام طالب، عبد الغنی جاگل، مولوی ریاض احمد ضیائی، فتح محمد عباسی، شہباز راجوروی، پرویز ملک اور دوسرے کئی ان گنت شعرا اپنی اپنی استعداد کے مطابق اردو شعر و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں اور مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ان شعرا کے کلام میں صوفیانہ اشعار کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگرچہ ان میں سے صوفی کوئی نہیں تاہم انھوں نے لطیف پیرائے میں دنیا کی بے ثباتی، لوگوں کی خود غرضی، پیر و مرشد کی بزرگی، خدا کی عظمت حضرت رسول سے والہانہ عشق و عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

 حاصل مطالعہ یہ کہ جموں وکشمیر کو رشیوں، منیوں، سنتوں، اولیا اور عارفوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ جہاں تک اسلامی تاریخ کا تعلق ہے تو یہاں حضرت بلبل شاہ اور حضرت شاہ ہمدان کی بدولت اسلام پھیلا اور کشمیر کو ”ایران صغیر“کا نام دیا گیا۔ وادیِ چناب میں حضرت شاہ محمد فرید الدین بغدادی کی تشریف آوری کے سلسلے میں کشتواڑ کو بغدادِثانی اور ڈہ ڈہ کو فرید آباد کا نام دیا گیا۔ گویا کشمیر ’پیرواری‘ تو جموں’صوفی نگر‘بن گیا۔ اس کی روشن مثال گھمٹ کے مقام پر جموں شہر میں صوفی بزرگ حضرت پیر روشن شاہ ولی کی زیارت عالیہ ’نو گذہ قبر‘مرجع خلائق ہے جنھیں ہندوستان میں آنے ولا پہلا صوفی بھی قراردیا جاتا ہے۔

اس دورمیں عربی اور فارسی صوفیانہ شاعری کو بہت فروغ ملا۔ جہاں تک صوبہ جموں کا تعلق ہے تو یہاں پر بھی سنتوں اور سادھوؤں کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ مندروں اورپاٹھ شالاؤں میں روحانی تعلیمات دی گئیں۔ یہ صوبہ آ ج بھی مندروں کے شہر جموں کے نام سے بہت مشہور ہے۔ یہ لوگ لل دید کے متصوفانہ کلام کو مندروں میں بڑے شوق سے گاتے ہیں اور بھگوان کی وحدانیت کے قائل ہیں۔ لل دید کے علاوہ محمود گامی، ولی متوا، حبہ خاتون اورمہجور کا صوفیانہ کلام متصوفانہ صفت سے بھرا پڑا ہے۔ تاہم زیادہ تر کشمیری شاعری کی صورت میں ہے۔ بعد ازاں یہی شعرا جب اردو کی طرف متوجہ ہوئے تو اردو میں بھی باضابطہ طور پر تصوف کا آغاز ہوگا۔