اسلام میں رواداری

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-09-2021
”دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے“۔ (البقرہ: 256)
”دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے“۔ (البقرہ: 256)

 

 

awazurdu

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی، استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

”دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے“۔ (البقرہ: 256) قرآن کی یہ آیت بے کم وکاست یہ واضح کرتی ہے کہ اسلام افکار کی آزادی اور سبھی کوبلا تفریق ذات پات، مسلک، رنگ، علاقہ یکساں موقع فراہم کرتاہے اور ایک جیسا معاملہ کرتاہے۔

یہی وجہ ہے کہ تلوار کی نوک پر اسلام قبول کرانا کہیں بھی مشاہدے میں نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اس کے خلاف مجموعی طور پرغلط تصورات اور نظریات کے باوجود اسلام آج دنیا کا سب سے تیز پھیلنے والا مذہب ہے۔

قرآن مجید کہتا ہے:”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایاگیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو“۔ (آل عمران: 110) یہ دوبارہ کہتاہے:”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں،بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہ فلاح پائیں گے“۔ (آل عمران: 104)

معاملہ کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”خیر امت“ کے خطاب سے پیغمبر محمد ﷺ کے پیروکاروں کو نوازا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سبھی کو بلاتفریق ذات پات، مسلک، نسل، رنگ اور علاقہ کے صراط مستقیم کی دعوت دیں۔

اگر ہم صرف مسلمانوں کے درمیان دعوت کا کام کریں تو ہم خداکے دئیے ہوئے اعزاز ”خیرامت“ کے صحیح اور حقیقی مستحق نہیں ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام آغاز ہی سے تمام مذاہب میں متحمل ترین اور مساوات پر مبنی مذہب رہاہے۔

مسلمانوں نے اسپین میں آٹھ سوسالوں سے زیادہ حکومت کی۔ لیکن زبردستی تبدیلیئ مذہب کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایسے معاملات مسلم حکمرانوں کے زیر اقتدار دوسرے ممالک بشمول ہندوستان میں طویل مغلیہ دور حکومت میں بھی نظرنہیں آتے ہیں۔ زبردستی اسلام قبول کرانے کی کیا بات کریں، نبی پاک ﷺنے کسی بھی طرح سے غیر مسلم کو ایذاء پہنچانے یا نقصان پہنچانے سے منع فرمایاہے۔

پیغمبر محمد ﷺ کا ارشاد ہے:”جس نے ذمیوں کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی“۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام نے ہی پہلے پہل حقوق انسانی کو متعارف کرایا اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔پیغمبر محمد ﷺ کا آخری خطبہ اسلام میں حقوق انسانی کا پہلا چارٹر ہے۔ 632 ء میں پیغمبر محمد ﷺ نے اپنے الوداعی خطبے میں مکہ کے پاس وادی عرفات میں فرمایا تھا:”اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ تم میں سے ہر ایک کا تعلق آدم ؑ سے ہے اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔

جان لو! کسی عربی کی کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور کسی عجمی کی کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے؛ نہ ہی کسی گورے کی کسی کالے شخص پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کی کسی گورے شخص پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقویٰ کے۔

بے شک تم میں سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے“۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حقوق انسانی کی اصطلاح کافی عرصے سے غیر متعارف رہی ہے۔انقلاب فرانس 1789ء اور انقلاب امریکا 1775ء کے بعد حقوق انسانی کے تصور کو فروغ حاصل ہوا۔

یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، اقوام متحدہ نے ایک حقوق انسانی کمیشن کی تشکیل کی تھی۔ کسی نے کیا خوب کہاہے:”مغرب نہایت ہی پرزور انداز میں یہ دعویٰ کرتاہے کہ حقوق انسانی کا بنیادی تصور دنیا کے سامنے پہلی مرتبہ برطانوی ”Magna Carta“ سے متعارف ہوا۔ لیکن وہ بڑی آسانی سے بھول چکے ہیں کہ ”Magna“ ظہور اسلام کے چھہ سوسالوں کے بعد وجود میں آیا۔

اسلام اخلاق، اقدار، تحمل، رواداری، ہمدردی، سا لمیت، ایمانداری، بھائی چارہ، اخوت، نرم خوئی، سخاوت، طہارت، نظافت، روشن خیالی، حکمت اور ان جیس دیگر خصوصیات پر انتہائی زور دیتاہے۔ اسلام کی خوبصورتی اور شان یہ ہے کہ وہ ہر شے کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔

اسلام کا اصل نقش یہ ہے کہ ایسے ماحول کی تشکیل کی جائے جہاں تمام لوگ بلا تفریق ذات پات، مسلک، رنگ اور علاقہ کے امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔

اسلام کے مطابق تمام لوگ ایک ہی اصل اور وسیلہ سے ہیں اور انہیں قوموں اور قبیلوں میں بس ایک دوسرے کو جاننے کے لئے بنایاگیاجس کی توثیق درج ذیل قرآنی آیات سے ہوتی ہے:”لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے“۔ (الحجرات: 13)

یہی وجہ ہے کہ اسلام بیان کرتاہے کہ تعاون اور مدد تقویٰ اور بھلائی کے معاملات میں ہونا چاہئے نہ کہ برے اور غیر پاکیزہ اعمال وافعال میں ہونا چاہئے۔ قرآن مجید کہتاہے:”جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے“۔ (المائدہ: 2)

اسلام کا سب سے نمایاں پہلو مختلف اقوام کے مابین بلا تفریق ذات پات، مسلک، رنگ اور علاقہ کے عدل اور مساوات کو فروغ دیناہے۔ پیغمبر محمد ﷺ کی حیات مبارکہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ایسی متعدد مثالیں ظاہر ہوتی ہیں جو آپؐ کی انصاف پروری مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ یکساں حسن سلوک پر دلالت کرتی ہیں۔

پیغمبر محمد ﷺ کا اعلان ہے کہ:”وہ ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے قبیلے کی ظلم میں حمایت کرتاہے، اور وہ ہم میں سے نہیں ہے جو دوسروں کو ظلم میں اس کی مدد کرنے کے لئے پکارتاہے، اور وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت ناانصافی میں اپنے قبیلے کی اعانت کرتے ہوئے ہوئی ہو“۔

ایک مرتبہ مدینہ کے ایک شریف خاندان کی عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ معاملہ نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش ہوا اوراس کے چھوڑے جانے کی وکالت کی گئی۔ نبی پاک ﷺ نے جواب دیا:”خدا کی قسم تم سے پہلے کی قومیں ہلاک ہوگئیں کیونکہ وہ عام آدمیوں کوان کے جرائم کی سزائیں دیتے تھے لیکن اپنے معززین کو بغیر سزا کے چھوڑ دیتے تھے۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتاہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ ؓ، دختر محمد ﷺ، نے یہ جرم کیاہوتا تو میں اس کے بھی ہاتھ کٹوادیتا“۔

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ:”دور قریب سب کو مساوی سزا دواور حدود اللہ کے نفا ذ میں لوگوں کی سرزنش سے خوف نہ کرو“۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام نہ کہ صرف ایک مافوق الفطرت مذہب ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہئ حیات ہے اوربنی نوع انسانی کا حقیقی نجات دہندہ ہے۔ یہ تمام برائیوں کا علاج پیش کرتاہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے کیا خوب کہاہے:”یہاں تک کہ جدید تناظر میں اسلام ہی تنہا دنیا کو نجات فراہم کرسکتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی سچی تابعداری کی جائے جو نوع انسانی کو جامع ترین اور مکمل قانون فراہم کرتاہے“۔

اس نکتہ کو واضح کرنے کے لئے پیغمبر محمد ﷺ کی درج ذیل احادیث نقل کرنے کے قابل ہیں۔

ایک دفعہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ مظلوم ہو یا ظالم“۔

صحابہ کرام نے پوچھا:”اگر وہ ظالم ہو تو ہم اس کی کیسے مدد کریں؟“

نبی کریم ﷺ نے جواب دیا:”اسے ظلم سے روکو“۔

ابو موسی ؓسے مروی ہے: کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: ”کس کا اسلام سب سے بہتر ہے؟“۔ یعنی (کون بہت اچھا مسلمان ہے؟) آپ نے جواب دیا:”وہ جو مسلمانوں کو اپنی زبان سے ایذا ء پہنچانے سے بچتاہے“۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:”وہ سچا مسلمان نہیں ہے جو پیٹ بھر کر کھائے، اور اپنے پڑوسی کو بھوکا چھوڑدے“۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا:”مہاجر وہ ہے جو برائی کی مذمت کرے اور پھر اس سے دور رہے“۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا:”بروز قیامت میں اس سے بیزار رہوں گا جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا ہوگا یااس کی حق تلفی کی ہوگی یا اس پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈالی ہوگی جس کی وہ طاقت نہیں رکھتاہے یا اس سے کوئی چیز چھینی ہوگی“۔

پیغمبر محمد ﷺ کی مذکورہ بالا احادیث بتاتی ہیں کہ اسلام کا اہم مشن صرف وقار کی بحالی اور انسانوں کی ترقی اورپورے عالم میں امن اور دوستی والے معاشرے کی تشکیل کرنی ہے۔

یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ اسلام ہی ہے جس نے پہلے پہل مشترک شہریت کا تصور پیش کیا اور ایک کثیر المذاہب اور اجتماعی معاشرے کو فروغ دیا۔ جب نبی پاک ﷺ نے مدینہ میں سکونت اختیار کی، تو آپؐ نے ایک شہری حکومت، جس میں مسلمان، جاہل عرب، یہود اور نصاری سبھی ایک مستحکم تنظیم کے اندر ایک سماجی رابطہ کے طور پر داخل تھے۔

انہیں خصوصیات، خوبصورتیوں اور عظمتوں کی وجہ سے اسلام نے بہ نسبت دنیا کے دوسرے مذاہب کے ایک قلیل مدت میں ایک اچھی شہرت کمائی۔ اس کے علاوہ اسلام نے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا۔

مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے الفاظ میں:”یورپی تجدید کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی افکار کامقروض نہ ہو۔ اسلام نے یورپ کو زندگی کی ایک نئی چمک دی“۔ معروف اسکالر اصغر علی انجینئر نے کیا خوب کہاہے:”شروعاتی اسلامی معاشرہ کافی ترقی پذیر اورمتحرک تھا لیکن تیرہویں صدی کے آغاز سے یہ جمود کا شکار ہوگیا۔ دینیات کے علاوہ، اولین مسلمانوں نے عظیم علمی بلندیاں طبعی علوم اور جمہوری فلسفہ میں حاصل کیں۔ کسی کو بھی ان کارناموں پر فخر ہوسکتاہے۔ درحقیقت یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہاتھا جب اسلامی معاشرہ علمی میدان میں پنپ رہاتھا۔ یورپ نے عربوں سے سیکھا۔ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ یونیورسٹیاں بغداد، قاہرہ اور دوسری جگہوں پر تھیں“۔

اس تناظر میں ہم مولانا محمد علی جوہر کا قول یاد کرسکتے ہیں:”اسلام اصول و نظریات کا ایسا پلندہ نہیں جس میں ماہر دینیات نے انسانیت کو مبتلا کررکھاہے۔ یہ مکمل منصوبہئ زندگی ہے، صحیح برتاؤ کا ایک مکمل کوڈ ہے اور ایک جامع سماجی سیاست جو اتنا ہی وسیع ہے جتنی کہ نسل انسانی اور حقیقت میں اتنا ہی وسیع جتنی کی تخلیق انسانی“۔

اسی طرح سوامی وویکا نند کے نزدیک:”میرا تجربہ ہے کہ اگر کبھی کوئی مذہب اس مساوات کے قریب ہوا کسی قابل ستائش اندازمیں، تو یہ اسلام ہے اور صرف اسلام ہے۔ اسی لئے میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ بغیر عملی اسلام کی مدد کے، سبزی خوری کے نظریات، خواہ کتنے ہی حسین اور حیرت انگیز ہوں، پوری طرح نوع انسانی کے جم غفیر کے لئے غیر اہم ہیں“۔

(Letters of Swami Vivekananda, P. 463)

یہی خیالات جی بی شاہ کے بھی ہیں۔وہ فرماتے ہیں:”میں نے ہمیشہ دین محمدیؐ کواس کی حیرت انگیز اہمیت کی وجہ سے بڑا احترام دیاہے۔ یہ واحد مذہب ہے جو مجھے لگتاہے کہ موجودہ تغیر پذیر مرحلے کو اپنے اندر سمو لینے کاحامل ہے جو خود کو ہر دور کے لئے سازگار بناسکتاہے۔ میں نے انہیں پڑھا ہے، وہ ایک حیرت انگیز آدمی ہیں، اور میرے خیال میں عیسائی مخالف ہونے سے کوسوں دور ہیں، انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہنا چاہئے۔

میرا اعتقاد ہے اگر ان جیسا شخص جدید دنیا کی آمریت کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لے، تو وہ اس کی مشکلات حل کرنے میں اس طور پر کامیاب ہوجائے گا کہ وہ امن اور خوشحالی آجائے گی جس کا ایک عرصے سے انتظار ہے۔ میں نے دین محمدیؐ کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے کہ یہ کل کے یورپ کے لئے اتنا ہی قابل قبول ہوگاجتنا کہ یہ آج کے یورپ کے لئے مقبول ہونا شروع ہوگیاہے“۔

(G.B. Shah, The Genuine Islam, Singapore, Vol. 1, No. 8, 1936)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام تمام بنی نوع انسانی کو یکساں سمجھتاہے۔ اس کا مرکزی محور عالم میں مساوات، تحمل اور عدل قائم کرکے ایک امن اور سکون کا ماحول بناناہے۔ قرآن مجید کہتاہے:”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہااتارا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لئے منافع ہیں“۔ (الحدید: 57)

سروجنی نائیڈو کے الفاظ میں:”شعورِ عدل اسلام کے سب سے حیرت انگیز نمونوں میں سے ایک ہے، کیونکہ جیسا کہ میں نے قرآن میں پڑھامیں پاتی ہوں کہ زندگی کے یہ متحرک اصول، زاہدانہ نہیں بلکہ روزانہ کی زندگی کے عملی اخلاقیات پوری دنیا کے لئے موزوں ہیں“۔

(Speeches and Writings of Sarojini Naidu, Madras, 1918, P. 167)

ایچ اے آر گب رقمطراز ہیں:”لیکن اسلام کو ابھی انسانیت کی مزید خدمت کرنی ہے۔کسی دوسرے معاشرے کا اتنی زیادہ اور اتنی مختلف نوع انسانی کی نسلوں میں حیثیت کے برابری میں اتحاد کا، مواقع اور کاوش کی فراہمی میں کامیابی کا ایسا ریکارڈ نہیں ہے۔

افریقہ، ہندوستان، اور انڈونیشیا کے عظیم معاشرے، اور شاید جاپان کا چھوٹا مسلم معاشرہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام اب بھی بظاہرنسل اور روایت کے ناقابل صلح عناصر میں صلح کرانے کی قدرت رکھتاہے۔ اگر کبھی مشرق ومغرب کے عظیم معاشروں کا حزب اختلاف تعاون میں بدلتا ہے، تو اسلام کی ثالثی ایک ناگزیر شرط ہوگی“۔

(H.A.R. Gibb: Whither Islam? London, P. 389)

اب ضررت اس بات کی ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ امن اورسکون سے کیسے زندگی بسر کرنی ہے اور دوسرے کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں بلا تفریق ذات پات، مسلک، رنگ، علاقہ اور مذہب شریک ہوں۔

ارشاد خداوندی ہے:”یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی وتری میں سواریاں عطا کیں او ران کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سے مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی“۔ (الاسراء: 70)۔