مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی:جنھوں نے درویشی کے لئے بادشاہت چھوڑ دی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-08-2022
درگاہ اشرف جہانگیر سمنانی
درگاہ اشرف جہانگیر سمنانی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

کچھوچہ شریف: کچھوچہ شریف (امبیڈکرنگر،یوپی) میں عرس مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی تقریبات کا آج آخری دن ہے۔گزشتہ دودن سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں زائرین پہنچے جن میں علما ومشائخ بھی شامل ہیں۔ کچھوچھہ میں ہر جانب میلہ کا سماں دیکھا گیا۔ دکانیں سجی ہوئی تھیں اور زائرین کے ازدہام کے سبب راستہ چلنا مشکل تھا۔ عرس کے موقع پر قرآن خوانی، جلسہ اور قوالی کی محفلیں بھی سجیں۔

غور طلب ہے کہ محرم الحرام کی اٹھائیس تاریخ کو کچھوچہ شریف(ضلع امبیڈکرنگر، یوپی) میں مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا عرس تزک و احتشام سے منایا جاتاہے۔ اس موقع پر مختلف صوفی سلسلوں سے تعلق رکھنے والوں اور عام عقیدت مندوں کا ازدہام رہتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھائی بھی اس عرس کا حصہ بنتے ہیں اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی مثال پیش کرتے ہیں۔

حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی کا ایک حصہ کچھوچھہ کے مقام پر گزارا تھا۔ دعوت وتبلیغ اور خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے انتہائی سادہ اور فقیرانہ زندگی گزاری حالانکہ وہ ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے تھے۔

سوانح نگاروں کے مطابق مخدوم کی پیدائش 708ھ میں ایران کے شہر سمنان میں ہوئی۔ وہ جس سادات گھرانے میں پیدا ہوئے وہ خاندان جاہ وحشمت اور عزت ووقار رکھتا تھا۔ ان کے والد سلطان سید ابراہیم ایک بادشاہ تھے اور اسی کے ساتھ اہل ِدل اور عارف بااللہ بھی تھے۔ انھوں نے آپ کے جوہر کو پہچانا اور اپنی نگرانی میں خصوصی نگرانی میں تعلیم وتربیت کی۔ مخدوم کا سلسلہ نسب سید الشہدا امام حسین تک پہنچتا ہے۔ شجرہ نسب آج بھی خاندان کے پاس موجود ہے۔

پندرہ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی آپ نے ظاہری علوم کی تکمیل کرلی تھی۔ عمر کے پندرھویں سال میں پہنچے تو والد گرامی کا انتقال ہو گیا اور بادشاہ کے طور پر آپ کی تاجپوشی کی گئی۔ حالانکہ آپ کا دل حکومت کے کاموں سے زیادہ عرفان الٰہی کے کاموں میں لگتا تھا۔ تنہا بیٹھ کرتخلیق خداوندی کی حکمتوں پر غور کرتے رہتے تھے۔

ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ کا دل امور سلطنت سے بالکل اچاٹ ہوگیا اور ایسے میں آپ نے بادشاہی کو چھوڑ درویشی کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نےحکومت کی باگ ڈور اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کی اور اہل دل فقرا کی تلاش میں نکل پڑے۔ ایران سے ہندوستان تک کا طویل سفر کیا۔ مختلف علاقوں میں گئے۔ دوران سفراہل اللہ اور صاحبان معرفت سے ملاقاتیں ہوئیں اور فیوض وبرکات سے مالا مال ہوئے۔

اوچ (موجودہ پاکستان میں واقع ہے) پہنچ کر مخدو م جہانیاں جہاں گشت سے ملاقات کی اورروحانی فیوض و برکات حاصل کئے۔ بنگال پہنچے تو شیخ علاؤ الدین بنگالی سے ملاقات ہوئی۔ نگاہوں سے نگاہیں ملیں،دل نے دل کو پہچانا اور فیضان کا سلسلہ جاری ہوا۔ شیخ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔

شیخ نے جلد ہی اپنا مرید و خلیفہ بنالیااور خلق خدا کی رہنمائی کے لئے کچھوچھہ جانے کا حکم دیا۔ یہ علاقہ جون پور کی شرقی سلطنت کے ماتحت تھا۔ بعد میں اودھ کے نوابوں کے ماتحت آیا اورپھر ایک مدت تک فیض آباد ضلع کا حصہ رہا۔ یہاں مستقل قیام فرماکر آپ نے ایک خانقاہ تعمیرکرائی جہاں نہ صرف طالبان روحانیت آتے جاتے رہتے تھے اور آپ سےرہنمائی حاصل کرتے تھے بلکہ عوام الناس بھی اپنی ضرورتوں کے ساتھ آتے تھے اور حاجت روائی کے بعد واپس جاتے تھے۔

سوانح نگاروں کے مطابق لاکھوں افراد نے آپ کے ذریعے رشد وہدایت پائی اور ایک بڑے خطے کو آپ نے اسلام وتصوف کے اجالے سے منور کیا۔آپ کا روحانی سلسلہ ’اشرفیہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مخدوم کا انتقال 28محرم الحرام 808 ہجری کوہوا اور کچھوچھہ میں ہی دفن کئے گئے۔

موجودہ دور میں آپ کی قبر انورپر ایک عالیشان عمارت ہے۔ یوں تو یہاں سال بھر عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی ہے مگر عرس کے موقع پر دنیا بھر سے اہل محبت کے قافلے اس سرزمین کی زیارت کے لئے آتے ہیں جہاں ایک عارف بااللہ درویش آسودۂ خاک ہے۔