پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 03-02-2023
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

 

پروفیسر اخترالواسع

        کوئی دو ہفتے ہو گئے، پہلے سوئیڈن میں اور پھر ہالینڈ (نیدرلینڈ) میں، شرپسندوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم کی اہانت کی۔ سوئیڈن میں پولیس کی نگرانی اور تحفظ میں اللہ کی آخری کتاب جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، نذر آتش کی گئی۔ اسی کی دیکھا دیکھی یا حوصلہ پاکر ڈنمارک میں بھی ایسی مضموم حرکت کا ارتکاب کیا گیا جب قرآن مجید کے صفحات کو پارہ پارہ کیا گیا۔ اس کے بعد ہیگ (عالمی عدالت کا مرکز) میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے قرآن کو اس وعدے کے باوجود کہ اسے جلایا نہیں جائے گا، اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایسے وقت میںجب دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، یورپ کے لوگ اپنے آپ کو مہذب بتاتے ہوئے ذرا بھی نہیں تھکتے ہیں، پھر وہاں ایک مخصوص مذہب سے جڑی ہوئی ایک مخصوص مذہبی کتاب کے ساتھ یہ سب کچھ کیوںہو رہا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔

        قرآن مجید ہر مسلمان کے عقیدے کے مطابق اسی رب العالمین کا نازل کردہ آخری صحیفہ ہے جس نے توریت، زبور اور انجیل جیسی مقدس کتابوں کو وحی الٰہی کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مختلف زمانوں میں، مختلف پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک اللہ رب العزت نے جو کتب سماویٰ اور صحیفے بھیجے، ان سب کا نچوڑ یا خلاصہ قرآن حکیم کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے۔ جو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ نے جبریلِ امیںؑ اور وحیِ الٰہی کے ذریعے نازل کی۔

جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے ہدایت والی کتاب ہے۔ جیسا کہ خود اس کے نازل کرنے والے رب العالمین نے کہا ہے کہ بلاشبہ یہ کھلی ہوئی کتاب ہے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ سے ڈرنے والوں کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اَن دیکھے (اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے رب) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز (اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں ان کے رب نے دیا ہے اس میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔

        قرآن حکیم کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے نزول سے آج تک اس میں کوئی تحریف نہیں کی جا سکی۔ دوسرے وہ دنیا میں روزانہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ دنیامیں اس کے حافظوں کی جتنی بڑی تعداد ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسری کتاب کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں کے ساتھ ہی اس کتاب کے سننے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔

اسلام میں کیوں کہ جانداروں کی تصویر کشی کی عام طور پر اجازت نہیں تھی اس لیے قرآن کریم کی آیات کو خطاطی کے مختلف نمونوں سے اس حسن و لطافت کے ساتھ عمارتوں اور دیگر چیزوں پر آویزاں اور مزّین کیا گیا کہ قرآن کی خطاطی جمالیات کے باب میں خود مستقل ایک صنف بن گئی۔

        قرآن کریم کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے اور سورۂ فاتحہ میں انسانی مدعا یا ماحصل صرف اتنا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد بندہ اپنے رب کے حضور یہ عرض داشت پیش کرتا ہے کہ مجھے صراط مستقیم (سیدھا راستہ) پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور صراطِ مستقیم بھی وہ جس پر چلنے والے تیرے انعام کے مستحق قرار پائے نہ کہ وہ جو کہ تیرے غیض وغضب کا شکار ہوئے گمراہوں میں جن کا شمار ہوا۔

پورا قرآن کریم اسی مختصر سی گزارش کا جواب ہے۔ آدمؑ، نوحؑ، یونسؑ و ادریسؑ، الیاسؑ و شعیبؑ، ابراہیمؑ و اسمعیلؑ و اسحٰقؑ، یعقوبؑ و یوسفؑ، موسیٰؑ و ہارونؑ، عیسیؑ و یحییٰؑ اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراط مستقیم پر چلنے والے مثالی راہرو ہیں اور ابلیس و قابیل، شداد و قارون، نمرود و فرعون، ابوجہل و ابولہب باطل اور گمرہی کے وہ نمونے ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار برسی اور جن کا شمار گمراہوں میں ہوا۔پھر قرآن سے عداوت کی کوئی یہ نئی روایت نہیں ہے بلکہ بقولِ اقبالؔ:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی

        قرآن کریم ہی وہ چراغِ مصطفوی ہے جس کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے کہ کسی ایک مخصوص انسانی گروہ کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ وہ وحدت الٰہ ، وحدت آدم اور وحدتِ کردار کا ترجمان ہے اور وہ عام طور پر یا ایھا الناس کہہ کر زیادہ مخاطب کرتا ہے۔ وہ  ایک ایسی کتاب ہدایت ہے جو صرف دعاؤں کا مجموعہ نہیں، بلکہ جیسا کہ اوپر قرآن کے حوالے ہی سے بتایا گیا کہ وہ نفاق کی نہیں انفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ دین میں کسی زور زبردستی کا روادار نہیں۔

وہ تمام انسانوں کو فکری آزادی عطا کرتے ہوئے اپنی ذہن و ضمیر کے فیصلے کے مطابق مذہبی معتقدات کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے اور ہر انسان دوسرے انسان سے یہ کہتے ہوئے کہ تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے، اپنا اپنا مذہبی راستہ اپنا سکتا ہے۔

قرآن نے عدل و انصاف کو ایسی اور اتنی اہمیت دی ہے کہ وہ اپنے پر ایمان لانے والوں کو یہ صاف طور پر ہدایت دیتا ہے کہ کسی کی دشمنی بھی تمہارے انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونی چاہیے۔

یہاں ایک بات اور پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآنِ کریم وہ کتابِ مقدس ہے جو اپنے ماننے والوں کو صرف اپنا پابند نہیں بناتا یا جن کے ذریعے یہ کتاب انسانوں کو ملی، حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم تک اپنے عقیدے کو محدود نہیں کرتا بلکہ جیسے ایمان مفصل میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اس کا پابند بناتا ہے کہ وہ اعلان کریں کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔

اب ان کتابوں اور رسولوں کے ناموں سے ہم پوری طرح واقف ہوں یا نہ ہوں، ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یعنی قرآن اپنے ماننے والوں کو دوسروں کی تکذیب نہیں سکھاتا بلکہ ان کی بھی تصدیق کراتا ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی کتابِ حکمت و موعظت کے لوگ کس طرح مخالف ہو سکتے ہیں؟

        ابوجہل ہوں یا ابولہب، مَسیلمہ کذّاب، اسود عَنسی یا پھر دنیا کے بعض اشرار پسند نام نہاد دانشور سب یہ سدا سے کرتے چلے آئے ہیں لیکن قرآن کریم کی صداقت اور دوامیت اپنی جگہ جوں کی توں محفوظ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خاموش ہوکر آنکھیں بند کرکے اسلاموفوبیا کے تحت دینِ اسلام، پیغمبرِ اسلامؐ اور قرآن حکیم کی اہانت ہونے دیں۔

خدا کا شکر ہے کہ اسلامی دنیا میں سوئیڈن، ہالینڈ اور اس کے بعد ڈنمارک میں قرآن کریم کی اہانت کا جیسا ردِّعمل ہونا چاہیے تھا ویسا ہی ہوا اور خاص طور سے جامعہ ازہر سے جو احتجاج کی آواز بلند ہوئی وہ خاصی پائیدار ہے۔اسی طرح ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان نے جس طرح سوئیڈن کو یورپی یونین کا ممبر نہ بننے دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے وہ بھی خاصی امید افزا ہے۔

لیکن ابھی کچھ اس سے زیادہ کی ضرورت ہے اور اگرچہ سوئیڈن اور ہالینڈ کی سرکاروں نے اس طرح کے شرپسند واقعات سے اپنا  پلہ جھاڑ لیا ہے لیکن جب تک وہاں کی حکومتیں اپنی یہاں کی اس طرح کی شرانگیز قوتوں کا مقابلہ نہیں کرتیں، ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتیں، تمام اسلامی دنیا کے ملکوں کو سوئیڈن اور ہالینڈ سے اپنے سفارتی تعلقات کو وقتی طور پر معطل کر دینا چاہیے اور ایسا صرف مسلم ملکوں ہی کو نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہندوستان جیسے ملکوں کو بھی آگے آنا چاہیے اور اس طرح کے شرمناک افعال کی مذمت کرنی چاہیے۔

تاکہ دنیا میں کہیں کسی مذہبی شخصیت، مذہبی صحیفے اور مذہبی عقیدے کی کوئی توہین نہ کر سکے اور ہندوستان اس سلسلے میں نوین جندل اور نپور شرما کی پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کو لے کر ایکشن لے بھی چکا ہے۔ اب اسے سوئیڈن، ہالینڈ اور ڈنمارک میں بھی قرآن کریم کی توہین کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)