خواتین وبائی مرض کے دوران خاموش متاثرین

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-09-2021
 وبائی مرض کے دوران خاموش متاثرین
وبائی مرض کے دوران خاموش متاثرین

 

 

awaz

 ڈاکٹر شہناز غنائی

( سابق ایم ایل سی، جموں و کشمیر)

 اگر کہیں یہ سوال کیا جائے کہ وبائی مرض کے شکار کون لوگ ہیں، تو اس کا واضح جواب یہی ہوگا کہ جواس بیماری میں مبتلا ہوگئے یا پھر وہ جو ہلاک ہوگئے۔

تاہم اس کا ایک اور جواب بھی ہے، جو کہ انتہائی مایوس کن ہے؛ لاکھوں افراد بے روز گار ہوگئے، لاکھوں بے گھر ہوگئے اور تو اور لاکھوں لوگ جو اپنے اپنے گھروں میں مقید رہے، وہ ذہنی اور جسمانی طور مختلف طور پر الجھنوں کے شکار ہوگئے۔

اگر یہ بات کہی جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وبائی مرض کے یہ سبھی افراد خاموش متاثرین میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔

جدید سرمایہ دارانہ جمہوری سماج کی ایک تلخ حقیقیت یہ ہے کہ یہاں مرد کو مرد کے ذریعہ محکوم بنایا گیا ہے تو وہیں عورت کو بھی مرد کے ذریعہ ہی محکوم بنایا گیا ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ لوگ اس کے لیے اپنی اپنی مذہبی کتابوں سے جواز تلاش کر لیتے ہیں۔

تاہم خدا بخوبی جانتا ہے کہ شیطان چیزوں کو تزئین کرکے دکھانے میں ہمیشہ مشغول رہتا ہے۔

اب سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس جدید معاشرہ کا پیمانہ اور دائرہ کار کیا ہے۔

ایک خاتون کی حیثیت سے میں نے سارس اور کوویڈ 19(SARS-COVID19) سے متاثرہ وبائی مرض اور لاک ڈاون کے دوران خواتین کی تکالیف کو قریب سے دیکھا ہے۔

اس وبائی مرض کے دوران نہ صرف خواتین بلکہ دفتروں میں کام کرنے والے افراد بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔اس تناظر میں انگریزی روزنامہ انڈین اکسپریس میں شائع شدہ ایک رپورٹ جو کہ پیریڈک لیبر فورس سروے(Periodic Labour Force Survey ) کے حوالے سے شائع ہوئی ہے۔

اس سروے میں خواتین کارکنوں کے اضافے کی بات کہی گئی ہے۔ سنہ 2018 -19 کے دوران ہ پندرہ برس تک خواتین کارکنوں کی شرکت 24.5 فیصد تھی۔

خواتین کی حصہ داری اگرچہ ایک مثبت بات تھی۔ مگراس میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس میں سے بیشتر خاندانی کام کی شکل میں آئے ہیں۔ 2019-2020 کے سروے کے مطابق یہ معاملہ کچھ الگ سا نظر آرہا ہے، جب کہ بغیر تنخواہ کے مزدوری کرنے والی خواتین کی شرح میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ 2018-2019 میں یہ شرح 13.3 فیصد تھی۔

اگر اس تناظر میں سروے کو دیکھا جائے تو خواتین کارکنوں کی شرح میں 30.9 فیصد سےبڑھ کر 35 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

اس وبا کے علاوہ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی المیہ ہے جو روزگار کے اعداد و شمار کے برعکس بمشکل منظر عام آم پر آتا ہے۔

اقوام متحدہ سے وابستہ مصنفہ خاتون ماریہ نول وائزا( Maria Noel Vaeza) لکھتی ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد (Violence against Women and Girls -VAWG) ) لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ساتھ کیریبین(Caribbeans) میں بھی بڑھ گیا ہے۔

ہندوستان میں بھی حالات بہتر نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں وی اے ڈبلو جی(VAWG)کے تعلق سے ہیلپ لائنز بھی موجود نہیں ہے۔ نیشنل سینٹر فار بائیوٹیکنالوجی انفارمیشن (کرشن کمار اور ورما) کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ قومی کمیشن برائے خواتین (National Commission for Women’s) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد گھریلو تشدد کی شکایات دگنی ہو گئیں۔

تامل ناڈو پولیس نے گھریلو تشدد کی شکایات میں اضافے کی اطلاع دی۔ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران انہیں روزانہ تقریباً 25 کالز موصول ہوئیں اور کم از کم 40 ایسے کیس درج ہوئے۔

اسی طرح بنگلور پولیس نے گھریلو تشدد کے متاثرین کی طرف سے ہر روز 10 کالوں سے 25 کالوں کی شکایات میں اضافے کی اطلاع دی۔

مختلف ذرائع سے یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک بھر میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے برعکس، جاگوری، شکتی شالینی اور اے کے ایس فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں نے گھریلو تشدد سے متعلق شکایت کالوں میں کمی کی اطلاع دی تھی۔

شاید اس کمی کی وجہ سے گھر مقید رہنا بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ لاک ڈاون کے دوران مشترکہ خاندان کے بیشتر افراد گھر کے اندر مقید تھے، اس لیے تشدد میں کمی  بھی واقع ہوئی ہے۔

اب وبا کی تیسری لہر آنے والی ہے تو کیا ہم یہ توقع کریں کہ خواتین کو ہی جسمانی ، جذباتی اور معاشی طور پر سارا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ان کے حالات کس طرح بدلیں گے؟ کیا کوئی قومی سطح پر خواتین کو تحفظ دینے کے لیے پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں۔

میرے خیال میں خواتین کو درپیش مسائل کے لیے یہ کام الگ الگ کمیونٹیز میں شروع کیا جانا چاہئے۔ ہندو اور مسلم مذہبی رہنماوں کو چاہئے وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ خواتین مسائل کا شکار ہیں، انہیں حل کی جانب پیش قدمی کرنی چاہئے۔

اس کے علاوہ خواتین کے قومی کمیشن کو ملک کی ہر ریاست میں مقامی پولیس کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے اور ضلعی سطح پر ایک ہیلپ لائن شروع کیا جانا چاہئے۔

پولیس اسٹیشنوں میں اسٹاف مقرر کئے جانے چاہئے جو ٹیلیفون پر شکایت درج کرسکیں۔ کئی حکومتوں نے اس سمت میں قدم بڑھائے ہیں۔

میرے خیال میں ٹیلی فون کے ذریعہ ازدواجی تنازعات کے لیے پیش رفت کی جانی چاہئے ، کیوں کہ یہی بالآخر تشدد کے واقعات کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان مسائل کے حل کے ایک سیاسی پلیٹ فارم بھی ہونا چاہیے۔ کورونا کے ایام میں سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے بھوکھوں کو کھانا کھلایا گیا، بیماروں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا اور ضرورت مندوں تک ادویات پہنچائی گئی۔

تاہم ان میں سے بہت کم ایسی تنظیمیں ہیں جنھوں نے ان خواتین کی مدد کے لیے آگے آئے ہوں جو مشکلات میں مبتلا رہتی ہیں یا اس دوران مشکلات کا شکار ہوئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں انتخابات میں خواتین ووٹرز بھی قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں، انتخابات کے زمانہ میں ان کے ووٹوں کی اہمیت بتائی جاتی ہے، مگر جب خواتین کے اوپر ظلم ہوتا ہے، ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں، جہاں عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔

جائیداد کی تقسیم کے تعلق سے بھی خواتین کو درپیش مسائل ہیں، یہاں بھی جائیداد کی مردانہ ملکیت قائم ہے۔اسلام اس بات کو مانتا ہے کہ خواتین کو بھی پیسے کمانے کا حق حاصل ہے۔ قرآن کی سورہ النسا میں اس سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے افراد کو محض مزدور سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس ان مزدوروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کوئی طریق کار نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ مارکیٹ کی قوتوں کا تعین کرسکے۔

وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی دوسرے معاشی طریقہ کار نے انسانوں کے فلاح کے لیے کوئی طویل مدتی کام نہیں کیا ہے۔ جاگیردانہ یا غیر منظم سوشلزم دونوں ناکام ہو چکے ہیں۔

اس لیے یہ المیہ ہوا کہ جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کمزور انسانی برادریوں کو تشکیل دینے لگے ہیں۔

آخرمیں، میں یہ کہنا چاہوں گی کہ خاندان ، کمیونیٹیز اور یہاں تک کہ افراد بھی معاشی تبدیلی کے لیے بہت کمزور ہیں۔ گھریلو تشدد، ناجائز تعلقات اور صنفی امتیازات اسی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

لہٰذا ہمیں اپنے ماضی کے دانشمند رہنماوں کی باتوں یاد کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ وہ باتیں جو مردوں اور عورتوں کو ان ساحل پر لے گئے، جہاں قوموں کے پاس دولت کم تھی اور لوگوں کو شاندار خوشیاں حاصل تھیں۔