قوموں کا عروج وزوال بھی ایک تاریخی حقیقت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 05-08-2022
قوموں کا عروج وزوال بھی ایک تاریخی حقیقت
قوموں کا عروج وزوال بھی ایک تاریخی حقیقت

 

 

 

awazthevoice

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی,استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

دنیا میں ہزاروں قومیں آئیں اور گئیں۔ قوموں کا عروج وزوال بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ نظر رہے کہ امتِ مسلمہ کے عروج وزوال کا معاملہ دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا قیاس دوسری قوموں سے نہیں لگایاجاسکتاہے۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے خیرِ امت بنایا اور خیرِ امت کا سبب بھی اللہ تعالیٰ نے واضح طورپر فرمادیا{کنتم خیر أمۃأخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللّٰہ}۔’’تم سب سے بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپاکی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھ تے ہو‘‘۔

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ!

اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: {إنا سنلقی علیک قولًا ثقیلًا}۔(المزمل :  ۵)’’اے محمدؐ! اہم آپ پر ایک بڑی بات ڈالنے والے ہیں‘‘

یہی عظیم بوجھ ہے جو امتِ مسلمہ کے کندھے پر ہے۔ اور یہی ہماری ذمہ داری اور فرضِ منصبی ہے۔ اس ذمہ داری کو جب تک ہم نبھائیں گے تائیدِ خداوندی ہمارے ساتھ رہے گی۔ بقول علامہ اقبال:

کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں!

الغرض امتِ مسلمہ کی ترقی ہی میں دنیا کی ترقی مضمر ہے۔

 بیسویں صدی کے عظیم مفکر، قائد اور عالم ربانی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ نے کہا کہ مسلمان ایسی قوم ہے جس کی ترقی سے دنیا ترقی یافتہ ہوئی، اور جس کی پستی سے دنیا پستی میں چلی گئی، لوگوں کو تعجب ہوا، لیکن انہوں نے حقائق فیکٹ اینڈ فیگر(Fact and Figure) سے اس حقیقت کو طشت از بام کردیا۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے یہ اشعار اسی کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے ، نقش روئے محمد بنایاگیا

پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزم کون ومکاں کو سجایاگیا

(خطباتِ جمعہ اردوا، ص: ۳۵۱)                                                                                                                           

مسلمانوں کی تنزلی کا سبب مندرجۃ ذیل اقتباس سے مزید واضح اور عیاںہوجاتاہے:

’’ ۱۵۴۸ء میں واسکوڈی گاما نے وہ راستہ تلاش کرلیا جس سے مغربی استعمار کا سیلاب عالمِ اسلام کے دائیں بازو یعنی مشرق بعید(Far East) پر حملہ آور ہوا۔ ملایا اور انڈونیشیا کی مملکتیں اور اس کے بعد ہندوستان کی عظیم سلطنت مغربی استعمار کا نوالہ بن گئیں۔ ہماری بڑی بڑی سلطنتیں اور مملکتیں کچے گھروندوں کی مانند مغربی استعمار کے سیلاب میں بہتی چلی گئیں۔ یہ عمل بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں اپنے  نقطۂ عروج کو پہنچا جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد دنیا کا یہ نقشہ سامنے آیا کہ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوگئی اور ترکی کے نام سے ایک چھوٹا سا ملک باقی رہ گیا۔ پورا عالمِ عرب مغلوب ہوگیا اُس کے حصے بخرے کرلئے گئے۔ اس کی خبر دی تھی نبی اکرم ﷺ نے ان الفاظ میں کہ

 (یُوشکُ الْأُمَمُ أنْ تَدَاعَی عَلْیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إلیٰ قَصْعَتِھَا))

یعنی‘‘مسلمانو! اندیشہ ہے کہ تم پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اقوام عالم تم پر ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے دعوتِ طعام کا اہتمام کرنے والا دسترخوان چنے جانے کے بعد مسلمانوں کو بلایاکرتاہے کہ آئیے اب کھانا تناول فرمائیے۔ اس طرح تم اقوامِ عالم کے لیے لقمۂ تر ہوجاؤگے‘‘۔

صحابہ نے بڑے تعجب کے ساتھ سوال کیا:

مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟

’’حضور! کیا یہ اس لیے ہوگا کہ اُس روز ہماری تعداد بہت کم ہوجائے گی؟‘‘

حضورر ﷺ نے فرمایا:

((بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ ، وَلَیَنْزِعَنَّ اللّٰہ ُ مِنْ صُدُوْرِکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیْقْذِفَنَّ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَھْنَ))

یعنی ’’نام کے مسلمان تو بہت ہوں گے۔ تمہاری تعداد تو بہت ہوگی لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے اوپر جھاگ کے مانند ہوکررہ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکال باہر کرے گااور خود تمہارے دلوں میں وہن (کی بیماری) ڈال دے گا‘‘۔

اس پر سوال ہوا:

((مَا الْوَھْنُ یَا رَسُوُلَ اللہِ؟’’اے اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟‘‘تو آپ ﷺ نے جوابًا ارشاد فرمایا:((حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ))’’دنیا کی محبت اور موت سے کراہت‘‘۔  (رسولِ کامل از ڈاکٹر اسرار احمد، ص:  ۸۴  -  ۸۵)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا {وإن تتولوا نستبدل قومًا غیرکم}۔’’یعنی اے محمدؐ کے ماننے والو اگر تم نے اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لیا جو تمہیں سپردکی گئی ہے تو ہم تم کو ہٹادیں گے اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئیں گے‘‘۔(محمد:  ۲۸)

مختصرًا ہماری عزت اور ترقی لوگوں کو اچھے کاموں کی طرف بلانے اور برے کاموں سے روکنے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کارِ خیر کے ذریعہ ہی ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتاہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اس کام کو امتِ مسلمہ ہی کو کرکے دکھانا ہے کیونکہ اسی فرضِ منصبی کی وجہ سے انہیں خیرِ امت کے لقب سے نوازا گیاہے۔

راقم اپنی بات مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، ناظم ندوۃ العلماء وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس فکر انگیز کلمات پر ختم کرناچاہتاہے۔موصوف اپنی کتاب ’’حالاتِ حاضرہ اور مسلمان ،صفحہ ۶۵-۶۷‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے امتِ وَسط بنایاہے یعنی مرکزی اور بلند مقام رکھنے والی اور دوسروں کی نگراں امت، مرکزی اور بلند مقام رکھنے کی حیثیت اُس کو اعلیٰ کردار اور بلند معیار کا ثبوت دیناہوتاہے اور دوسروں کی نگراں امت ہونے کی بناپر دوسری امتوں پر یہ نظر رکھناہوتاہے کہ راہِ حق اور اعلیٰ کردار کو اختیار کرنے میں اُن کا کیا رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میںفرماتاہے:{وکَذٰلِکَ جَعَلناکم أمۃً وّسَطًا لِتَکُونوا شُھدائْ علیٰ الناسِ وَیَکونَ الرسُولُ عَلَیکم شَھِیدًا}۔

’’اور ہم نے تم کو امتِ وَسط (یعنی مرکزی اور بلند مقام رکھنے والی امت) بنایا تاکہ لوگوں کے نگراں وگواہ بنو‘‘۔

اوراسی کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں یہ بھی فرمایاگیاہے کہ مسلمانو! تم بہترین امت بناکر انسانوں کے لیے بھیجے گئے ہووہ یہ کہ تم اُن کو بھی اچھی باتوں کی تلقین کرواور بری باتوں سے منع کرو۔ اِس طرح مسلمانوں پر تین ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ایک تو معیاری اور اعلیٰ کردار کے مطابق بننے کی ، دوسرے دیگر لوگوں کو بھی معیاری اور اعلیٰ کردار کا بننے کی تلقین کرنے کی، اور تیسرے اُن کے قبولِ حق اور ترکِ باطل کے عمل پر نظر رکھنے کی۔

اِس امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اِن ہی ذمہ داریوں کا انجام دینے نہ دینے کے لحاظ سے ہوتاہے۔ مسلمانوں کا ماضی اور حال بھی اِسی کی شہادت دیناہے، اور اپنی اِن ہی ذمہ داریوں کو نبھانے اور نہ نبھانے کے اعتبار سے عزت اور رحمت کے راستوں سے گزرتے ہیں۔ اُنھوں نے جب اپنے معیار کو صحیح رکھنے کی او اُس کے مطابق اپنی عملی زندگی بنانے کی کوشش کی ، تو اُن کو بلندی اور برتری حاصل ہوئی اور جب انہوں نے اپنی حالت سنوارنے او راپنے اعلیٰ کردار کوجاری رکھنے میں کوتاہی کی تو اُن کو دھکے لگے اور ذلّت سے گزرنا پڑا۔ مسلمانوں پر جو سخت حالات او رذلّت آمیز واقعات اُن کی تاریخ میں پیش آتے رہے ہیں ۔ وہ کبھی تو اُن کی کوتاہیوں کی صورت میں سزا کے طور پر پیش آئے اور کبھی اعلیٰ معیار کو برقرار نہ رکھنے کی صورت میں بھی پیش آئے۔

یہ واقعات جب ان کی آزمائش اور امتحان کے طور پر پیش آئے تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے کہ عزیمت او رہمت ان میں کہاں تک قائم ہے۔سخت حالات پیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کو اولًا اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ان میں وہ کیا کوتاہیاں ہوسکتی ہیں جو اس طرح کی سزا کا سبب ہوسکتی ہیں اور پھر فورًا ان کوتاہیوں کو اپنے دامن سے صاف کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ونصرت کو اپنے لیے واپس لائیں اور اگر غور کرنے پر بھی اپنے میں کوتاہیاں نہ نظرآئیں تو ان کو ان تکلیف دہ حالات کو اپنے رب کی طرف سے ایک امتحانی امر سمجھنا چاہئے اور یہ امید رکھنا چاہئے کہ یہ امتحان گزرجائے گا.

 ، اور ان کے صبر ورضا کا صلہ ان کو یہ ملے گا کہ ان کی ساکھ عزت قوت واپس ہوجائے گی۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت ومرضی نافذ کرنے کے لیے کارگزاروں کی حیثیت عطافرمائی ہے وہ اس کارگزاری کو اگر صحیح انجام دیتے ہیں تو کوئی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایاہے کہ:{وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین}۔

’’کہ تم ہی سب سے سربلند ہوگے اگر ایمان والے ہوگے‘‘۔

مسلمانوں کی چودہ سوسالہ تاریخ میں برابر ان باتوں کا ظہور ہوتارہاہے اور بعض مرتبہ امتِ مسلمہ پر اُن کے دشمنوں کو ایسا غلبہ حاصل ہوا کہ یہ خطرہ محسوس کیاجانے لگا کہ اب مسلمان اِس مسکنت وذلت سے نہ نکل سکیں گے لیکن پھر یہی ہواذلت ومسکنت سے سرخرُوہوکر نکلے۔ بلکہ ع

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

اُن کے دشمن خود سرنگوں ہوکر تابع دار بن گئے‘‘۔