پڑوسیوں کے حقوق قرآن وحدیث کی روشنی میں...

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2024
پڑوسیوں کے حقوق قرآن وحدیث کی روشنی میں...
پڑوسیوں کے حقوق قرآن وحدیث کی روشنی میں...

 

مولانا ہلال احمد لون   ۔ سری نگر 

انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق بلکہ ہر وقت ملاقات کا سامنا، لین دین کا سابقہ سب سے پہلے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثرپڑتا ہے

حبیب کبریا صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِی بِالْجَارِ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہ سَیُوَرِّثُہ “ (بخاری ومسلم) کہ جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا پڑوسیوں کے ساتھ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور اچھا رویہ پیش کرنا اللہ اوراس کے رسول کی محبت کی شرط اور اس کا معیار قرار دیاگیا ۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے وضوء فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے آپ کے وضوء کا پانی لے کر اپنے بدن اور چہرے وغیرہ پر ملنے لگے جب سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس عمل پر تمھیں کون سی چیز آمادہ و برانگیختہ کررہی ہے تو ایسا کیوں کررہے ہو تو صحابہ کرام کا جواب تھا کہ بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت تب آپ نے ارشاد فرمایا سنو جو شخص یہ پسند کرتا ہو اور جس کی یہ خواہش ہو کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت نصیب ہوجائے یا یہ کہ اللہ و رسول کو اس سے محبت ہوتو اسے تین باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے: جب بات کرے تو سچ بولے جب کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے توامانت داری کے ساتھ اس کو ادا کرے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

ترمذی اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کسی محلے کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔

کسی شخص کا نیکوکار یا بدکار ہونا اس کے پڑوسی کی گواہی کے ذریعہ معلوم ہوگا۔ ایک شخص نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنی نیکوکاری و بدکاری کو کس طرح معلوم کرسکتاہوں؟ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو تم نے اچھا کام کیا تو تمہارا کام اچھا ہے، اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے تو تمہارا وہ کام برا ہے۔ (ابن ماجہ)

ظاہر ہے کہ ان ارشادات وواقعات کا مقصد صرف واقعہ کا بیان نہیں بلکہ پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کے اظہار کے لیے یہ نہایت موٴثر اور بلیغ ترین عنوانات ہیں جن کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ شریفانہ رہے کہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بے خوف و خطر رہیں، دل ودماغ کے کسی گوشے میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ کسی طرح کی کوئی فکر دامن گیر نہ رہے۔

اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے اس کے پڑوسی اس سے بے خوف اور مطمئن نہیں ہیں تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے ”لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لاَ یَأمَنُ جَارُہ بَوَائقَہ “ جنت میں اس شخص کا داخلہ ممنوع ہے جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں۔ (مسلم شریف)

ایک حدیث میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تین مرتبہ قسم کھاکر فرمایا خدا کی قسم وہ موٴمن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ موٴمن نہیں۔ صحابہ نے دریافت کیا کون یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ (مسلم)

پڑوسیوں سے محبت و تعلقات کی استواری کا بہترین ذریعہ باہم ہدیوں و تحفوں کا لین دین ہے ، سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم خود اپنی بیوی کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اسی بناء پر ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو پہلے یا زیادہ ہدیہ بھیجوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ ہمارے گھر سے زیادہ قریب ہے ۔۔۔

ایک مسلمان کی مروت و شرافت کا یہ تقاضہ نہیں کہ خود راحت اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرے اور اپنے ہمسائے کے رنج و تکلیف اور گھریلو ضروریات کی پرواہ نہ کرے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشاد کے مطابق موٴمن وہ نہیں جو خودشکم سیرہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ اس کے بھوکے ہونے سے باخبر بھی ہو ۔ (رواہ البزار والطبرانی فی الکبیر)

پیغمبر اسلام کی زبان حکمت کی ان تعلیم و ہدایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا مقام و مرتبہ ہے مگرافسوس کہ محبت رسول کا دم بھرنے والے ہم مسلمانوں کی زندگی و طرز عمل اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات میں اتنا بعد ہوگیا کہ کسی نا آشنا کو اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ تعلیم و ہدایت مسلمانوں کے پیغمبر کی ہوسکتی ہے۔

غور کیجیے کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم کے ان مبارک ارشادات میں اپنے ہمسایوں کے بھوک و پیاس کے مسئلوں سے بے پرواہ اور ان کی دیگر ضروریات سے بے فکر ہوکر زندگی گزارنے والوں کے لیے کتنی سخت وعید سنائی ہے لیکن افسوس کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی و درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کے اندرہوکر رہ جاتی ہیں۔ اگر ان حدیثوں کو پڑھ یا سن کر حیات انسانی کے ان تشنہ شعبوں کو درست کرنے کی فکر دامن گیر ہوجائے تو انشاء اللہ ضرور وہ خوش گوار و پرسکون معاشرہ تشکیل پائے گا جس معاشرے کی دنیا کو تلاش ہے .

امام غزالی علیہ الرحمة نے احیاء العلوم کے اندر ایک عجیب و غریب واقعہ ذکر کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہوگئی تو کسی نے بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہوجائیں گے توگھر والے نے کہا کہ مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟ یہ موٴمن کی شان کے خلاف ہے۔

کہنے کو تو یہ مختصر سی بات ہے لیکن اس پر عمل کی توفیق اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک کہ انسان کا ایمان کامل نہ ہوجائے یہ صفت انسانی کمال کی ایک معراج ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا نفس پورے طور پر مدارجِ تہذیب طے کرچکاہے ...

لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے

ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت.