شکستہ اور خستہ دہلی کی جامع مسجد کی دیکھ ریکھ کا مسئلہ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-12-2021
شکستہ اور خستہ دہلی کی جامع مسجد کی دیکھ ریکھ کا مسئلہ؟
شکستہ اور خستہ دہلی کی جامع مسجد کی دیکھ ریکھ کا مسئلہ؟

 

 

awaz

پروفیسراخترالواسع،نئی دہلی

دہلی کی تاریخی جامع مسجد جو 1650ء میں مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کرائی تھی اور آزادی کے بعد لال قلعے کی فصیل سے آزاد ہندوستان کے ہر وزیر اعظم کو خطاب کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اور جس کو محکمہ آثارِ قدیمہ کے زیرِ تحفظ 1958ء کے ایکٹ سے مستثنیٰ رکھتے ہوئے گزشتہ 75؍سال میں ہر زمانے میں خصوصی فیصلوں کے تحت اس کی دیکھ ریکھ اور تعمیری ضرورتوں کے لئے مرکزی حکومت نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی،لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِدھر اچانک مرکزی حکومت کے رویے میں ایک غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

جس کا ثبوت راجیہ سبھا میں جناب پی وی عبدالوہاب، ایم پی کے 8دسمبر،2021ء کو پوچھے گئے سوال کے جواب میں مرکزی وزیر مملکت محترمہ میناکشی لیکھی نے کہا کہ کیوں کہ جامع مسجد قدیم عمارتوں سے متعلق آثار قدیمہ کے 1958ء کے ایکٹ کے تحت نہیں آتی ہے اس لئے اس میں ضروری مرمت کا کام سرکار نہیں کرے گی۔

جب کہ ابھی تک پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ اور شری نریندر مودی تک کی سرکاروں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔5جنوری2021ء کو اے ایس آئی کے پرانا قلعہ سب سرکل کے آر ٹی آئی کے ذریعے فراہم کردہ اطلاع کےمطابق سرکار نے جامع مسجد میں تعمیراتی دیکھ ریکھ اور مرمت کے کام پر پچھلے پانچ سال میں جو کچھ خرچ کیااس کی تفصلط کچھ اس طرح ہے:سال18-2017 مںم 13,20,598.00روپئے، سال 19-2018مںا 13,89,794.00اور سال 20-2019 ، 21-2020 مںی 13,48,476.00روپئے۔

اب کون کس سے پوچھے کہ اگر جامع مسجد محکمہ آثار قدیمہ کے تحت زیر تحفظ عمارتوں میںشامل نہیں ہونے کی بِنا پر محترمہ میناکشی لیکھی کے بقول سرکاری خرچے پر دیکھ ریکھ اور ضروری مرمت کے دائرے میں نہیں آتی تو پھر 1956ء سے 2021ء تک کس زمرے کے تحت سرکار عمارت کی دیکھ ریکھ اور مرمت پر پیسہ خرچ کرتی رہی؟

اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو موجودہ شاہی امام سید احمد بخاری کے دادا مرحوم سید حمید بخاری جو اس وقت کے شاہی امام تھے، ایک وفد کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملے تھے اور ان سے درخواست کی تھی کہ یہ عبادت گاہ جس میں ہزاروں نمازیوں کے علاوہ حکومت ہند کے غیرملکی خصوصی مہمان اور بے شمار ملکی و غیر ملکی سیاح زیارت کو آتے ہیں، وہ نہایت خستہ حالت میں ہے، اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت ہند اس کی مرمت کرانے کی ذمہ داری لے لے اور اگر سرکار کو کوئی اس میں امر معنی ہو تو پھر ہم عوامی چندے سے اس کی خود مرمت کرا لیں گے۔

اس پر وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس عبادت گاہ کی مرمت کے کام کو خصوصی زمرے میں کرانے کے احکامات جاری کئے اور انہوں نے کہا کہ ’’یہ عبادت گاہ ملک کا سرمایہ ہے۔

اگر عوامی چندے سے اس کی مرمت کرائی گئی تو اس سے دنیا میں ہمارے ملک کی بدنامی ہوگی۔‘‘ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ 10اگست2004ء کو شاہی امام جناب سید احمد بخاری نے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اسی ضمن میں ایک خط لکھا کہ ’’مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے گزشتہ چند سالوں سے جامع مسجددہلی کے مرمت کے کام کو بالکل روک دیا ہے۔ اور مجھے اے ایس آئی کی طرف سے تحریری طور پر مطلع کیا گیا کہ محکمہ آثار قدیمہ کسی تاریخی عمارت کے تحفظ و مرمت کا کام تبھی کر سکتا ہے جب اس عمارت کو Protected Monument ڈکلیر کر دیا جائے۔‘‘

جس کے جواب میں 20اکتوبر2004ء کو ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب نے شاہی امام صاحب کو ان کے خط کے جواب میں لکھاکہ ’’میں نے وزارت ثقافت اور اے ایس آئی کو متعینہ مدت میں جامع مسجد کی مکمل مرمت کے لئے ہدایت کر دی ہے اور یہ بھی طے ہوا ہے کہ وزارت ثقافت جامع مسجد کو1958ء کے آثار قدیمہ کے ایکٹ کے تحت زیر تحفظ عمارت قرار نہیں دے گی۔‘‘

دہلی کی جامع مسجد صرف ایک مسجدنہیں بلکہ پورے ایشیاء میں نہ صرف یہ کہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے بلکہ ہندوستان کے سیکولر کردار اور مذہبی رواداری کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ1956ء کے بعد آثار قدیمہ کا ایک دفتر مع ضروری عملے کے جامع مسجد میں ابھی کچھ برسوں پہلے تک رہا ہے۔

آج یہ تاریخی عمارت خطرناک حد تک جس شکستگی سے دوچار ہے اور شاہی امام سید احمد بخاری صاحب نے 6جون2021ء کو وزیر اعظم کو ایک خط کے ذریعے مطلع بھی کر دیا لیکن پتا نہیں کیوں آج تک اس پر کوئی ضروری کارروائی نہیں ہوئی؟ شاہی امام صاحب نے اس خط میں یہ بڑی وضاحت سے لکھ دیا تھا کہ اس شکستگی اور خستہ حالت کی وجہ سے کبھی بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔

شاہی امام صاحب نے ایک بیان میںیہ بھی کہا ہے کہ اگر حکومت اس سلسلے میں معاشی طور پر معذور ہے تو آغا خاں فاؤنڈیشن کو مسجد کے اندر ضروری مرمت کا کام کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

اس کے علاوہ سابق مرکزی وزیر ششی تھرور صاحب نے بھی مرکزی وزیرِ ثقافت اور ڈائریکٹر جنرل اے۔ ایس۔ آئی کو اس بارے میں خط لکھا ہے۔ان کے علاوہ امروہہ سے ممبر پارلیمنٹ اور انتہائی سرگرم عمل نوجوان سیاسی رہنما کنور دانش علی نے بھی پارلیمنٹ میںحکومت کو اس جانب توجہ دلائی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مرکزی حکومت اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائے گی، اس کی بجا طور پر توقع کی جانی چاہیے اور اگر سرکار اس کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اسے مسلمانوں سے صاف دو ٹوک لفظوں میں یہ کہہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذرائع اور اثرات سے کام لیتے ہوئے اس تاریخی مسجد کو محفوظ رکھنے اور بچائے رکھنے کے لئے جو کوششیں کر سکتے ہوں، خود کریں۔

لیکن ہمیں امید ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئے گی کیوں کہ مسئلہ صرف مسلمانوں کی ایک عبادت گاہ کا نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخی وراثت کو بچانے اور سرکار کی فراخ دلی کا بھی ہے کیوں کہ اگر مسلمان عوامی چندے سے اس کی مرمت خود کرانے کے لئے آگے آئیں گے تو بقول جواہر لال نہرو کے ’’تو اس سے دنیا میں ہمارے ملک کی بدنامی ہوگی۔‘‘

ہم مرکزی سرکار اور خاص طور سے اپنے وزیر اعظم شری نریندر مودی جنہوں نے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘‘ کی بات کہی ہے، ان سے یہ پوری توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بغیر کسی تاخیر کے مناسب اور مثبت اقدامات کریں گے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔