اردو کی پہلی خاتون ناول نگار: جس نے اپنے نام کو پوشیدہ رکھا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 21-09-2021
ناول اصلاح النسا کا سرورق
ناول اصلاح النسا کا سرورق

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئی دہلی

 پاکستان کی مشہور شاعرہ کشورناہید نے کہا ہے کہ ایک خاتون کے لیے لکھنا اور پھر اسے شائع کرنا بذات خود ایک انقلابی قدم تھا۔

اردو ناول نگاری کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ شروع سے ہی خواتین کے مسائل اور موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کی شروعات سنہ 1869 میں شائع ہونے والے مولوی نذیر احمد کے میرات العروس سے ہوتی ہے،جس کی اگلی کڑی بنات النعش کی شکل میں منظر عام پرآئی۔

ان ناولوں میں خاتون کی تعلیم اور ان کے معاشرتی حالات لکھے گئے تھے۔

خواتین کے موضوع پر لکھنے اور ان میں تعلیمی بیداری مہم چلانے کے لیے مسلم مصنفین کے درمیان اس بیداری کو لانے کا کریڈٹ سر ولیم موئر (Sir William Muir)کو دیا جانا چاہئے۔

موئر نے 1857 میں علی گڑھ کے مدرسۃ العلوم کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں سے مسلم خواتین کے لیے جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی بات کہی تھی۔

اس کے لیے انھوں نے مصر کی مثال پیش کی تھی، جہاں خواتین کو تعلیم دی جاتی تھی۔

اگرچہ ان کی یہ اردو تقریر مسلمانوں کو متاثر نہ کرسکی، تاہم اس کا نتیجہ بہت بہتر نکلا۔ موئر کے مشورے کے بعد برطانوی حکومت نے مسلم خواتین کے درمیان تعلیم کو پھیلانے کے لیے سالانہ طور پر کتابوں پر انعامات دینے کا اعلان کیا۔

اس کے بعد مولوی نذیر احمد سمیت مولوی کریم الدین (تذکرۃ النسا)، محمد حسین خان(تہذیب النسواں)اور محمد ظہیرالدین (تعلیم النسواں) وغیرہ کو ناول لکھنے پر انعامات سے نوازا گیا۔

اس نقد انعام کا واحد مقصد مسلم خواتین کو تعلیم کی شمع سے روشن کرنا تھا، اس کے علاوہ میں ان بیداری لانے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو بھی عوام کے سامنے پیش کرنا تھا۔

 جب 1869 میں مرات العروس شائع ہوئی، رشید النسا کی عمر محض 13 برس تھی۔ حالاں کہ عظیم آباد(موجودہ پٹنہ) کے ایک تعلیم یافتہ اور دولت مندگھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ ناول بذات خود آنکھ کھولنے والا تھا۔

اس ناول نے رشید النسا کو بے حد متاثر کیا ، کیوں کہ اس میں خواتین کے مسائل، تعلیم اور ان کی سماجی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

خیال رہے کہ ان کے بھائی امداد امام اثر اردو ادب کی قد آور ادبی شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ نیز رشید النسا علی امام اور حسن امام کی خالہ تھیں۔

مولوی محمد یحییٰ سےان کا نکاح ہوا کہ جو کہ اپنے وقت ایک معروف ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔

اس ناول کے مطالعہ کے بعد رشید النسا نے خود میں یہ محسوس کیا کہ خاتون ہونے کے سبب ان کی رسائی نہ تو عمدہ ادب تک ہوسکی اورنہ ہی وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ 

اگر غور کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگ جائے گا کہ خواتین کے تعلیمی مسائل نہ صرف بیسویں صدی عیسوی میں قائم تھے بلکہ بہت حد تک بیسویں صدی عیسوی میں بھی قائم رہے۔

رشید النسا بھی ایک خاتون تھیں اس لیے وہ بھی اس سے مستثنیٰ نہ رہ سکیں۔ ان کے خیال تھا کہ ہندو اور مسلم دونوں طبقوں کی خواتین جدید تعلیم سےآراستہ ہوں، جو کہ اس وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔

یہ میرات العروس کا ہی کرشمہ تھا، جس نے رشید النسا کو ایک ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے 1880 سے یہ ناول لکھنا شروع کیا اوراسےچھ ماہ کے اندریعنی1881 میں مکمل کر لیا تاہم وہ اسے 1894 تک شائع نہ کروا سکیں۔

یہاں میں قارئین کے لیے رشید النسا کی زندگی کا ایک اہم قصہ بھی سنانا چاہوں گا۔ نثار کبرا جو کہ اردو زبان کی پہلی ایسی خاتون شاعرہ تھیں، جنھوں نے اپنی کتاب شائع کی تھی۔ وہ رشید النسا کی صاحبزادی تھیں۔ اردو کے ممتاز شاعر شاد عظیم آبادی نے خود ان کی شاعری کی تعریف کی تھی۔

ایک بار جب وہ ابھی بہت چھوٹی تھیں، انھوں نے ایک مسنوی لکھی۔ خاندن کے کچھ بچوں نے ان کی ڈائری لے لی اور گھر میں آئے ہوئے ایک مہمان کو ان کی ڈائری دکھا دی۔ وہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ عبدالغفور تھے جو کہ اردو کے ایک مشہور نقاد گزرے ہیں۔

انھوں نے اس نوجوان شاعرہ کو سراہا۔ ان کی شاعری کا موازنہ مولوی میر حسن کی شاعری سے کیا۔ان کی شاعری کا نمونہ دیکھئے:

نزاکت سے ساڑی اٹھائے ہوئے

زمین پر نظر کو جھکائے ہوئے

عجب حال سے گھر میں داخل ہوئی

طرف کام کے اپنے مائل ہی

اگرچہ ہر کوئی اس کے بھائی غلام مولانا معظم سے اس کی شاعری کی تعریف کر رہا تھا، مگر وہ خفا ہوگئے۔ وہ اپنی والدہ رشید النسا کے پاس آئے اور کہا کہ لڑکیاں لکھنا سیکھ سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے سودا (مرزا ہادی سودا) بنا دیا جائے۔

نثار کے سامنے اس کے بھائی نے ان کی ڈائری کے اوراق پھاڑ کے پھینک دیے اور گھر کی خواتین تماشائی بنی کھڑی رہیں۔

اس وقت کے حالات کا تصور کیجئے جب کہ ایک عورت ناول لکھ رہی تھی اور اپنی بیٹی کو شاعری لکھنے کی ترغیب دے رہی تھی، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

اس وقت صرف یہ خواب دیکھنا ہی کم اہم نہیں تھا کہ خاتون لکھ سکتی ہیں، بلکہ یہ ایک کارنامہ سے کم نہیں ہے۔

یاد رکھنے والی بات ہے کہ رشید النسا نے 1881 میں ناول'اصلاح النسا' لکھا تھا اور اس وقت تک اس کی اشاعت کا انتظار کیا جب تک کہ ان کا بیٹا قانون کی تعلیم حاصل کرکے ولایت سے ہندوستان واپس نہ آجائے۔

تاہم جب 1894 میں ناول اصلاح النسا شائع ہوا کہ تواس میں ان کا نام شائع نہیں ہوا۔

یہ چیز دور جدید کے لوگوں کو مضحکہ خیز لگے گی۔ ناول نگار کی جگہ پر لکھا گیا تھا : بیرسٹرمحمد سلیمان کی والدہ، سید وحیدالدین خان بہادر کی بیٹی اور امداد امام کی بہن۔

اس دور میں اردو میں شائع ہونے والی پہلی خاتون ناول نگار کو کتاب پر اپنے نام کو لکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

رشید النسا ناول کے تعارف میں اپنے ہی بیٹے کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ محمد سلیمان کی اعلی غیر ملکی تعلیم حاصل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہ کتاب جو تیرہ برسوں سے ضائع شدہ کاغذوں کے ڈھیر میں پڑی تھی، اب شائع کی جائے گی۔ اللہ اسے اپنی زندگی میں کامیاب کرے۔

رشید النسا مولوی نذیر احمد کی تحریروں سے بہت زیادہ متاثر تھیں، ان کا خیال تھا کہ خواتین میں تعلیم کو فروغ دینے والی تحریریں منظر عام لائی جانی چاہئے۔

ناول اصلاح النسا اس خدشہ کو سامنے لاتی ہے کہ تعلیم کے تعلق سے لکھی جانے والی تحریریں لوگوں کے لیے معاون ثابت نہیں ہوں گی۔ ناول میں ایک کردار لاڈلی اور اشرف النسا کا ہے۔

لاڈلی اشرف النسا سے کہتی ہے: ہاں میں جانتی ہوں کہ مولوی نذیراحمد نے بھی ایسی کتابیں لکھی ہیں، میرات العروس میں انھوں نے اکبری اور اصغری کے بارے میں لکھا ہے تو کیا ؟ تمام خواتین اصغری بن گئیں۔ ؟ کیا کوئی اکبری باقی نہیں ہے؟

خیال رہے کہ میرات العروس کے دو کرداروں میں اصغری تعلیم حاصل کرتی ہے جب کہ اکبری کو تعلیم میں دلچسپی نہیں ہے۔

اس پر اشرف النسا جواب دیتی ہے کہ اگر سب اصغری نہیں بن گئ ہیں تو کم از کم 75 کےآس پاس ہیں۔ اب صرف 25 اکبری باقی ہیں۔ کیا ہم اسے کامیاب نہیں کہیں گے؟

ایک طرف جہاں وہ مولوی نذیر احمد کی تحریری کاوش کا اعتراف کرتی ہوئی نظرآتی ہیں تو وہیں انھوں نے اپنی تحریر میں بلند سوچ پیدا کرنے کی  بھی کوشش کی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ مولوی نذیر احمد کے ناول نے اگرچہ انہیں متاثر کیا، تاہم ان کی تحریریں بھی یقینی طور پر مزید خواتین کو متاثر کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ کیوں کہ ایک خاتون ہوکرانھوں نے دیگر خواتین کے لیے لکھ رہی تھیں۔ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر لکھ رہی تھیں۔

یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے خواتین کے بارے میں لکھنے والے مردوں کی اہمیت کو کم نہیں کیا، تاہم وہ اس بات کو بخوبی جانتی تھیں کہ خواتین کو بھی اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

رشید النسا کے ناول کا موازنہ اس دور کے مصنفین سے کرنے سے قبل ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انھوں نے کبھی کوئی باضابطہ اسکول یا کالج کی تعلیم حاصل نہیں کی، بلکہ انھوں نے گھر میں رہتے ہوئے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔

رشید النسا کو مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا۔ وہ بہت زیادہ کتابیں پڑھتی تھیں، خود ان کے گھر میں بھی مرد حضرات کتابوں کے مصنف تھے، جن کو وہ پڑھا کرتی تھیں۔

میں اس ناول پر مزید لکھنا چاہ رہتا تھا مگر طوالت کے خوف سے میں نے اختصار سے کام لیا ہے۔

اصلاح النسا کی ناول نگار رشید النسا کی زندگی کا ایک اور پہلو ہے کہ وہ ایک ماہر تعلیم کی نظر میں دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے 1906 میں لڑکیوں کا اسکول ' مدرسہ اسلامیہ' قائم کیا۔ یہ اب بیٹیا ہاوس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ اپنے علاقے کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھا، جہاں مسلمانوں کو اردو اور ہندوں کو ہندی کی تعلیم دی جاتی تھی۔

آج جب ہم اکیسویں صدی عیسوی کی ترقیاتی دور میں جی رہے ہیں، ہمیں رشید النسا کی جدو جہد کو یاد رکھنا چاہئے،جنھوں نے اردو میں ناول لکھ کر ایک عظیم کام انجام دیا۔وہ ناول آج بھی قابل مطالعہ ہے اور قارئین کو متاثر کرتا ہے۔