عید الاضحی کا پیغام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-07-2022
 عید الاضحی کا پیغام
عید الاضحی کا پیغام

 


obaidur_rahman

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ                                                                                           

عید الفطر اور عیدالاضحی مسلم دنیا کے دو اہم تہوار ہیں۔ عید الاضحی اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کی قربانی کے لیے آمادگی کی عکاسی کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو۸۶سال کی عمر میں عطا کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل سے مذکور ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ’’ اے میرے رب مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما‘‘۔’’ پس ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔

 پھر جب بیٹا ان کے ساتھ کام کرنے کی عمر کو پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے!  میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو قربانی میں پیش کررہا ہوں۔ اب دیکھو تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘  بیٹے نے کہا: ابا جان!  جیسا آپ کو حکم دیاجارہا ہے وہ کرگزرئیے، اگر اللہ نے چاہا تو مجھےآپ ثابت قدم پائیں گے۔

پھر جب وہ دونوں اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکے تھے اور انہوں نے انہیں قربانی کے لیے پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے انہیں پکارا اے ابراہیم!  تم نے خواب پورا کر دیا، ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک واضح آزمائش تھی اور ہم نے ان کا ایک اہم قربانی کےذریعہ فدیہ دیا اور ہم نے ان کے لیےاسے آنے والی نسلوں کے لیے (بطور یادگار)چھوڑ دیا۔ ابراہیم پر سلامتی  ہو۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔چونکہ وہ ہمارا ایک مومن بندہ تھا‘‘۔  (۳۷۱۰۰   -  ۱۰۱)

مذکوربالا بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کا نیک اور پرہیزگار بندہ اپنے خالق کے حکم کی تعمیل کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔چنانچہ اگر کوئی اللہ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی بے مثال اطاعت، فرمانبرداری، محبت اور ایمان کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پورے واقعے میں جانوروں کے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اس تک آپ کی عقیدت پہنچتی ہے‘‘ ۔  (۲۲۳۷)

یہ کہنےکی ضرورت نہیں کہ قربانی بھی حج کے اہم اجزاء میں سے ایک ہے۔ حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد، حجاج مقدس شہر مکہ مکرمہ سے چار میل کے فاصلے پر منیٰ میں قربانی، عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماہ ذی الحجہ یا حج کے مہینے کے دس دن قرآن و سنت میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے،’’قسم ہے فجرکی۔ قسم ہے دس دنوں کی‘‘۔  (۸۹:  ۱   -  ۲) قرآن کے اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ دس راتوں کو عام طور پرذی الحجہ، حج کا مقدس موسم ،کی پہلی دس راتیں سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے روزے سے پہلے اور بعد کے ایک سال کے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس موقع پر چار دن تک یعنی نویں ذی الحجہ کی صبح سے لے کرتیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر نماز کے بعداللہ کی حمدوثناپڑھی جاتی ہے جسے تکبیرات تشریق کہتے ہیں۔  پڑھے جانے والے الفاظ کا مفہوم یہ ہے:’’اللہ سب سے بڑا ہے: اللہ سب سے بڑا ہے!  اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں! اللہ سب سے بڑا ہے!  اللہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں‘‘۔

دراصل’’ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی جگہ پر پہنچ کر ان کی قربانی کی سنت کو تازہ کرنا درحقیقت اپنی زندگی کو از سر نو اللہ کی نذر کرناہے کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت اپنے آپ کو اللہ کی حوالگی اور سپردگی میں دے دیناہے۔ اور یہی حقیقت اسلام بھی ہے۔ اسلام کے معنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینے کے ہیں۔ یعنی اللہ کی مرضی اور اس کی پسند کے آگے آدمی کی اپنی کوئی مرضی اور اپنی کوئی پسند باقی نہ رہ جائے۔ آدمی اپنی محبوب سے محبوب اور عزیز سے عزیز چیز بھی اللہ کے لیے ہروقت قربان کردینے کے لیے تیار رہے۔

اس حقیقت کو واقعے کی شکل میں اور اس فلسفے کو عمل کے جامے میں پوری تاریخ انسانی میں جس نے پیش کیاہے ، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔انہوں نے اپنے محبوب بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے لیے قربان کردینے کا عزم بالجزم ظاہر کرکے یہ ثابت کردیا کہ فی الواقع انہوں نے اپنا سب کچھ بغیر کسی استثناء اور تحفظ کے اللہ کے حوالے کردیاہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ اقدام اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اس نے ان کو مسلم کے لقب سے نواز اور جس بیٹے کو انہوں نے قربان کیا اس کی نسل سے ایک امت مسلمہ برپاکی، جس کی خاص خصوصیت یہ ٹھہرائی کہ وہ دین اسلام کی حامل بنے اور اس اسلام کی اصل حقیقت کو اپنے اندر برابر زندہ اور تابندہ رکھنے کے لیے اس ابراہیمی قربانی کی یادگار مناتے ہیں اور ان کی طرف سے ان کے اس عمل سے اس بات کا اظہار بھی شامل کیاگیاہے، جو اللہ کے بندے اس مقدس قربان گاہ تک پہنچ پاتے ہیں،وہ وہاں پہنچ کر اس قربانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ جو مشکلات اور موانع کی سبب سے وہاں نہیں پہنچ پاتے وہ اپنی اپنی بستیوں ہی میں اس قربانی کی یادگار مناتے ہیں تاکہ ان کے اندر اسلام کی اصل حقیقت کا شعور بھی زندہ رہے او ران کی طرف سے ان کے اس عمل سے اس بات کا اظہار بھی ہوتارہے کہ وہ اصل قربان گاہ پر پہنچ کر اس قربان کی سعادت حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔

اس قربانی کی اصلی حقیقت اللہ کی راہ میں جان کی قربانی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی مہربانی سے ہمیں اس کا موقع دیاہے کہ ہم اپنی طرف سے کسی جانور کی قربانی کرکے اپنی جان کا فدیہ اداکردیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی رعایت ہے اور اس نے جو جانور ہماری خدمت کے لیے پیداکیے ہیں جب وہ اللہ کی راہ میں ہمارے بدل کی حیثیت سے قربان ہوتے ہیں تو یہ سب سے بڑی خدمت ہے جو ہماری وہ انجام دیتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ اشرف مقصد ہے جس میں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ ہرچیز کو صرف معاشی پیمانوں سے ناپتے ہیں وہ ان چیزوں کی قدر وقیمت نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے ان پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھیڑوں اور بکریوں کی قدروقیمت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے زیادہ ہے‘‘۔  (تزکیۂ نفس از مولانا امین احسن اصلاحی، ص:  ۲۹۰   -  ۲۹۱)

معروف عالمِ دین علامہ سید سلیمان ندوی کہتے ہیں،’’اسلام کا مطلب ہے خدا کی مرضی کے آگےسپردگی کرنا۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مکمل اطاعت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے سچے اور مخلص بندے تھے۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کےتوکل اور سپردگی کے اس جذبے کو الاسلام کا نام دیا۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔

’’پھر جب دونوں نے (اللہ کے حضور) سر تسلیم خم کر دیا‘‘۔  (۳۷۱۰۳)

اور کون ہو سکتا ہے دین ابراہیم سے منحرف، مگر وہ جس نے اپنے دماغ کو مسحور کر دیا ہو۔  بیشک ہم نے اسے دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی یقیناً وہ نیک لوگوں میں سے ہے۔

اور جب اس سے اس کے رب نے کہا: سپردگی کرو تو اس نے کہا: میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں۔  (۲۱۳۰   -  ۱۳۱)

درحقیقت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی بنیاد الاسلام پر ہے یعنی توکل اور سر تسلیم خم کرنا۔ ابراہیم علیہ السلام نے بار بار اللہ سے دعا کی۔

’’ اے ہمارے رب!  ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا اور ہم پرمہربانی کر۔ تو ہی مہربانی کرنے والا، رحم کرنے والا ہے‘‘۔

درحقیقت اللہ کی راہ میں قربانی نہ صرف ایک روایت ہے بلکہ اللہ کی پسندیدہ ترین عبادت ہے۔عام طور پر قربانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک گھریلو استعمال کے لیے، دوسرا دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے اور تیسرا غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے بلا تفریق ذات، عقیدہ، علاقہ اور رنگ۔

  اس کے علاوہ قربانی کے جانوروں کی کھالوں سے حاصل ہونے والی رقم بھی معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کو دی جاتی ہے۔  بلا شبہ قربانی کا عمل خالق اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔  یہ بھائی چارے اور اخوت کے حقیقی احساس کو بھی فروغ دیتا ہے۔ مختصراً یہ کہ قربانی اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، عقیدت، اطاعت اور بندگی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔