زیبا نسیم ۔ ممبئی
امن کے لفظی معنی ہیں چین، اطمینان، سکون وآرام نیز صلح، آشتی وفلاح کے۔ اسلام میں امن کا اتنا واضح تصور موجود ہے کہ دیگر ادیانِ عالم ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں، مثال کے طور پر آیت ذیل پیش کی جاسکتی ہے۔
”مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فسَادِ فِی الْاَرْضِ فَکَأنَّمَا قَتل النَّاس جَمِیعًا“ (پ۶، آیت۳، ع۴)
(جو شخص قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے یا ملک میں فساد کرنے لگے تو گویا قتل کرڈالا اس نے سب لوگوں کو اورجس نے زندہ رکھا ایک جان کو توگویا زندہ کردیا سب لوگوں کو)
دراصل اہلِ علم امن کو عموماً عدمِ جنگ یعنی absence of warکے طور پر بیان کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ تعریف فنی اعتبار سے درست ہے کہ جب کسی سماج میں جنگ و تشدد نہ ہو تو وہ امن کی حالت ہے۔ لیکن امن کی حقیقت صرف جنگ کے خاتمے تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مثبت پہلو بھی ہے۔ حقیقی امن وہاں قائم ہوتا ہے جہاں لوگ یکسوئی اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی کی تعمیر اور تعمیری سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔
امن کو صرف جنگ کے پس منظر میں دیکھنا محدود سوچ ہے۔ درحقیقت امن ایک جامع نظریہ اور انسانی ترقی کی شاہ کلید ہے۔ یہ ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں ہر مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چاہے چھوٹے معاملات ہوں یا بڑے، امن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں، لیکن امن کے ساتھ ہر میدان میں ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
قرآنِ مجید نے امن و آشتی کے قیام کے لیے نہایت جامع ہدایات دی ہیں۔ ان کو ہم دو بنیادی پہلوؤں میں تقسیم کرسکتے ہیں: حقوق اللہاور حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں توحید، عبادات اور اطاعتِ الٰہی کے ذریعے انسان کو سکونِ قلب اور روحانی امن نصیب ہوتا ہے۔ جبکہ حقوق العباد میں قرآن نے انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔ عدل و انصاف کو قائم رکھنے، ظلم و زیادتی کے خاتمے، رواداری کے فروغ اور باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔
اسلامی اخلاقیات جیسے صبر، عفو، ایثار اور حسنِ سلوک کو معاشرتی زندگی کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے تاکہ معاشرہ امن و امان کی نعمت سے مالامال ہو۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جو دنیا کو حقیقی سکون، عدل اور سلامتی فراہم کرتی ہیں، اور جن پر عمل کر کے انسانیت خوشحال اور پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔
قرآن حکیم اور قیامِ امن
قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے، کیونکہ فساد زمین پر سکون اور امن کو برباد کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"والله لا یحب الفساد"
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
"إن الله لا یحب المفسدین"
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔
مزید فرمایا گیا ہے کہ اصلاح کے بعد زمین میں امن و سکون کو برباد نہ کرو:
"لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحها"
ترجمہ: اور اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔
قرآنِ کریم میں امن اور اس سے متعلقہ مضامین متعدد مقامات پر بیان ہوئے ہیں۔ محققین کے مطابق:
یہ تمام آیات اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ قرآنِ حکیم کا بنیادی پیغام امن، سکون اور انسانی معاشرے کی اصلاح ہے، اور فساد و بدامنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔
صلح کو پسند فرمایا:
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
وإن جنحوا للسلم فا جنح لها (29)
اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کےلئے جھک جاؤ ٗ ٗ، والصلح خیر(30) ‘‘ اور صلح بہتر ہے ٗ
اگر پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان اور مومن کی حقیقت تلاش کی جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان وہی ہے جو ساری انسانیت کے لیے امن و سلامتی کا پیکر ہو۔ اسی طرح مومن بھی وہی ہے جو تحمل و برداشت، باہمی احترام، امن و آشتی اور بقاے باہمی جیسے اوصاف سے مزین ہو۔ دوسرے لفظوں میں جس کے وجود سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہر انسان محفوظ و مامون ہو، وہی حقیقی مسلمان ہے۔
نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب پوچھا گیا: اَيُّ الْإِسْلَامِ اَفْضَلُ؟تو آپ نے فرمایا: مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِیعنی ’’افضل اسلام یہ ہے کہ تمام لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رہیں‘‘۔اس ارشادِ گرامی سے اسلام کا معیار بالکل واضح ہو گیا کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جو محبت، رواداری، تحمل اور باہمی احترام کا علمبردار ہو، اور جس کے رویے سے ہر شخص امن و اطمینان محسوس کرے۔
احادیثِ مبارکہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’النَّاس‘‘ کا لفظ مطلقاً استعمال فرمایا ہے، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمان وہی ہے جس سے بلا تفریقِ دین و مذہب ہر انسان کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو۔ اس کے برعکس جو شخص انسانیت کا احترام نہ کرے، ظلم و جبر، فساد اور قتل و غارت گری کا راستہ اپنائے، وہ خواہ کتنی ہی عبادتیں کرے، حقیقی مومن نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی شخص بظاہر نماز، روزہ، حج و عمرہ اور دیگر عبادات کا پابند ہو لیکن لوگوں کی جان و مال اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو اس کی عبادت اسے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ اصل نجات کا انحصار محض ظاہر پر نہیں بلکہ باطن کی اصلاح اور قلبِ سلیم پر ہے۔ اگر دل اور کردار نہیں بدلے تو محض ظاہری تقدس کے پردے انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں، مگر خالقِ کائنات کو ہرگز دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
در حقیقت ایمان، ’’امن‘‘ سے ہے، ہم تو ایمان کو صرف ’’ماننے‘‘ سے جانتے ہیں مگر اس کے ’’مادہ‘‘ میں ’’امن‘‘ ہے۔ گویا ایمان کا بیج بھی ’’امن‘‘ ہے۔ جس شخص کے ایمان میں ’’امن‘‘ نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔۔۔ جو اپنے آپ کو صاحب ایمان اور مومن کہے اور اس کے عقیدے میں امن نہ ہو وہ مومن و مسلم ہی نہیں ہے۔ اگر کسی کے عقیدے میں ہر ایک کے لئے امن نہیں۔۔۔ اپنوں کے لئے بھی نہیں اور غیروں کے لئے بھی نہیں۔۔۔ نیک کے لئے بھی نہیں اور بد کے لئے بھی نہیں۔۔۔ اللہ کو ماننے والوں کے لئے بھی نہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی نہیں وہ مومن ہی نہیں۔