غوث سیوانی،نئی دہلی
زندگی باندھ کر پاؤں میں
سر کے بل ہم بھی چلتے رہے
اور چلتے چلتے وہ کب حیات کے آخری سرے پر پہنچ گئے،پتہ ہی نہ چلا۔ جی ہاں بزرگ شاعر بیکلؔ اتساہی کاتقیبا اٹھاسی سال کی عمر میں 3دسمبر1916 کو انتقال ہوا توادب وسیاست کی دنیا میں سوگ کی لہر دوڑ گئی۔ وہ فریڈم فائٹر تھے،شاعراورگیت کار تھے۔ انھیں پدم شری کا خطاب ملا تھا اور راجیہ سبھاکے ممبر بھی رہے۔
لباس قیمتی رکھ کر بھی شہر ننگا ہے
ہمارے گاؤں میں موٹا مہین کچھ تو ہے
یہ شعر بیکلؔ اتساہی کا ہے۔ ملک کی آزادی کی لڑائی میں یوگدان دینے والے بیکل کی شاعری کی خاص بات ہے ہندوستانیت۔ ان کی شاعری میں مٹی کی سوندھی خوشبو کا احساس ہوتاہے۔
دیس کو ایک سُر ایک دھن کون دے
اے کنہیا تری بانسری کس لئے
وہ ہندی، اردو شاعری کی گنگا جمنی تہذیب کی سب سے شاندار علامت تھے۔ وہ امیرخسرو، مانی جائسی، رس خاں اور خان خاناں کی روایت کی آخری کڑی تھے۔ یہ روایت غالبؔ وساحرؔ کے ذریعے ہم تک پہنچی تھی۔ بیکلؔ نے اردو زبان کو عام لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا اور ہندی کے عوامی الفاظ کو اپنی نظم کا حصہ بنایا۔ انھوں نے یہ بھی پیغام دیا کہ وہی زبان زندہ رہتی ہے جو موجودہ سرحدوں کو پارکر آفاقی بلندیوں کو چھونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مرحوم بیکلؔ اتساہی ہندی، اردو شاعری کی گنگا جمنی تہذیب کی سب سے شاندار علامت تھے۔ وہ امیرخسرو، مانی جائسی، رس خاں اور خان خاناں کی روایت کی آخری کڑی تھے۔ یہ روایت غالبؔ وساحرؔ کے ذریعے ہم تک پہنچی تھی۔ بیکلؔ نے اردو زبان کو عام لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا اور ہندی کے عوامی الفاظ کو اپنی نظم کا حصہ بنایا۔
بیکلؔ کی شاعری لاجواب ہے اوروہ اردو، ہندی دونوں حلقوں میں برابر پسند کئے جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل،گیت،دوہے، کنڈلکائیں، قطعات،نظم،ہائیکو، نعت،حمد اور منقبت سبھی صنفیں لکھیں۔انکی تخلیقات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔انکی کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں وجے بگل، بیکلؔ رسیا، نغمہ وترنم، نشاطِ زندگی، سرورِ جاوداں، نورِ یزداں، لہکے بگیا مہکے گیت،پروائیاں،کومل مکھڑے بیکلؔ گیت،اپنی دھرتی چاند کا درپن، غزل سانوری، رنگ ہزاروں خوشبو ایک، مٹی ریت چٹان، غزل گنگا، انجوری بھر انجور۔ انکے علاوہ کئی نعتیہ مجموعے بک اسٹالوں پر نظر آتے ہیں۔ انکے نام ہیں والضحیٰ، نغمہئ بیکلؔ، تحفہئ بطحیٰ، توشہئ عقبیٰ، موجِ نسیم، جامِ گل، پیامِ رحمت، نور کی برکھا وغیرہ۔ان کے اشعار ملاحظہ ہوں:
لئے کائنات کی وْسعتیں ہے دیارِ دل میں بَسی ہوئی
ہے عجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لِکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
کوئی مسجد، گرودوارے، نہ شوالے ہونگے
صرف تو ہوگا ترے چاہنے والے ہونگے
جاکے پردیس میں ماں باپ کو جو بھول گئے
اے غریبی وہ تری گود کے پالے ہونگے
نیہہ کی پہلے گگری بھری کس لئے
پھر یہ چٹکی میں ہے کنکری کس لئے
جب تجھے ساری دنیا سے فرصت نہیں
پیار کی بات مجھ سے کری کس لئے
سب کے ہونٹوں پہ تبسّم تھا مِرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا
بیکلؔ کو انکی خدمات کے اعتراف کے طور پر کئی ایوارڈ دیئے گئے۔ یہ نیشنل اور انٹر نیشنل ایوارڈ مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کی طرف سے دیے گئے۔ ان میں اہم اعزازات ہیں پدم شری، راجیہ سبھا کی ممبری، راشٹر پتی کے ہاتھوں راشٹریہ گیت ایوارڈ، ہندی ساہتیہ سمیتی کی طرف سے پوروانچل ایوارڈ، قومی گیت ایوارڈ، نیشنل انٹگریشن ایوارڈ مدھیہ پردیش، اتر پردیش اسمبلی کی طرف سے محمد علی جوہر ایوارڈ،جگر ؔ ایوارڈ، وجے اسمتھ ایوارڈ، شیلڈ آف آنر چیمسفورڈ کلب نئی دہلی، میرؔ ایوارڈ، گولڈ میڈل نعت اکیڈمی پاکستان، شیلڈ آف پاکستان وغیرہ۔انھیں کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی ممبر شپ دی گئی اور سرکار کی طرف سے بیرونِ ملک کے سفر پر اپنے دیش کے نمائندے کے طور پر بھیجا گیا۔
بیکلؔ کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک ساتھ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنی شاعری میں اسلامی و ہندو دیومالائی دونوں قسم کی روایات کو پیش کرتے تھے۔ یہ بات ان سے پہلے صرف نظیرؔ اور فراقؔ کے ہاں دیکھی گئی۔ انکی شاعری عام ہندستانی کے دل کی آواز ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے عام لوگ پسند کرتے ہیں۔اس میں سوندھی سوندھی ہندستانی مٹی کی خوشبو ہوتی ہے، جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ انھوں نے بڑی تعداد میں دیش بھکتی گیت بھی لکھے اور دیش واسیوں میں حب الوطنی کے جذبات جگانے کی کامیاب کوشش کی۔ انکی شاعری میں ہمت،حوصلہ اور اتسا ہ و الاّس ہے،جسے دیکھتے ہوئے بھارت کے اولین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے انھیں اتساہی کہا تھا۔ آج یہی اتساہی انکے نام کا حصہ بن چکا ہے۔ حالانکہ انکا اصل نام لودھی محمد شفیع خان ہے مگر اس نام کے بجائے وہ بیکل اتساہی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بیکلؔ کی پیدائش یکم جون 1924 کو ہوئی۔ ان کا آبائی وطن موضع گور رموا پور،تھانہ اترولہ،ضلع گونڈہ ہے جو، اب بلرام پور کے نام سے مشہور ہے۔ انکے والد کا نام لودھی جعفر خاں اور والدہ کا نام بسم اللہ بی بی خلیل زئی ہے۔انکا بچپن اپنے گاؤں میں گزرا۔ انھوں نے شروع میں اردو،ہندی اور فارسی کی تعلیم پائی اسکے بعد اسکول میں داخل ہوکر انٹرنس تک پڑھائی کی۔ اسکے علاوہ منشی،اعلیٰ قابلیت، ادیب ماہر، ادیب کامل،وشیش یوگتا،وشارد ہندی اور قانون گو کے امتحانات پاس کئے۔
بیکلؔ نے آزادی کی لڑائی میں بھی حصہ لیا اور اس جرم میں انھیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ انھوں نے جواہر لعل نہرو کے لئے کئی جلسوں کا اہتمام کیا تھا اور ان میں اپنے دیش بھکتی گیت سنا کر جنتا کے دل میں آزادی کی جوالا بھرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ آزادی کے بعد پہلے کانگریس اور پھر سوشلسٹ تحریک سے جڑے رہے۔وہ اپنے کردار اور اطوار کے لحاظ سے بھی سماجوادی ہی تھے۔ اس سلسلے میں وہ رام منوہر لوہیا اور آچاریہ نریندر دیو کے ساتھ کئی بار جیل گئے۔
دیس کو ایک سُر ایک دھن کون دے
اے کنہیا تری بانسری کس لئے