رمضان کی آمد مبارک ہو

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-04-2022
رمضان کی آمد مبارک ہو
رمضان کی آمد مبارک ہو

 

 

awazthevoice

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

رمضان المبارک کا مہینہ کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینہ میں قرآن مجید نازل ہوا جو انسانوں کے لیے خدا کا آخری پیغام ہے۔ اس مہینہ میں وہ رات ہے جس کو قرآن کریم میں لیلہ مبارکہ یعنی مبارک رات کہا گیا ہے۔ اس مہینہ کے آخر میں عیدالفطر ہے جو رب العالمین کی طرف سے روزہ داروں کو انعام دیے جانے کا دن ہے۔

اس مہینہ کے تین حصے ہیں۔ پہلے دس دن اللہ تعالی کی رحمت کے دن ہیں۔ دوسرے دس دن اللہ تعالی کی طرف سے مغفرت او رمعافی کے دن ہیں۔ تیسرے اور آخری دس دن جہنم کی آگ سے چھٹکارہ پانے کے دن ہیں۔ اس مہینے کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتاہے۔ تقوی اور تزکیہ کا مہینہ بھی کہا جاتاہے۔

یہ مہینہ اللہ تعالی کی طرف سے اتمام نعمت کا مہینہ ہے۔ خیر و برکت کا مہینہ ہے، رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے اور بندوں کی طرف سے اپنے رب کی کامل اطاعت، اس کے سامنے مکمل خودسپردگی اور اپنے مالک کے سامنے کامل عاجزی اور فرماں برداری کا نام ہے۔ حدیث شریف میں رمضان المبارک کے مہینے کو ’شہر المواساۃ‘ یعنی خیرخواہی کا مہینہ بھی کہا گیاہے۔ اس طرح یہ مہینہ گویا انسانوں کے درمیان خیر خواہی اور دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے۔ معاشرے کے کمزور اور محروم افراد کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا تجربہ کرنے کا مہینہ ہے اور اپنی خوشحالی اور وسعت و کشادگی میں ان کو شامل کرنے کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک کی انفرادیت یہ ہے کہ صبح سے شام تک وہ کھانا پینا، لذیذ غذائیں اور نفسانی خواہشات جو حلال تھیں، ان کا استعمال ممنوع ہوجاتاہے۔ جن نعمتوں سے انسان سال بھر محظوظ ہوتاہے وہ نعمتیں ایک خاص وقت تک منع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالی کو کسی کے بھوکا پیاسا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اس وقت اس کو بھوکا پیاسا رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے انسان جنہوں نے کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکھا، جنہیں کبھی پیاس کی شدت کا احساس نہیں ہوا جنہیں کبھی لذتوں سے محرومی کا تجربہ نہیں ہوا، جن کو بھوک سے پہلے کھانا موجود ملا اور پیاس سے پہلے پانی حاضر، وہ اپنے اس بھائی کے درد اور تکلیف کا اندازہ کرسکیں جس کو ایک وقت میسر ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہے، ایک چیز موجود ہے تو دوسری موجود نہیں ہے۔

اس طرح اس کی برکت سے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دکھ ، درد اور ان کی آزمائشوں کا بذات خود تجربہ کرتا ہے اور اس کے اندر اپنے بھائیوں کی تکلیف کو دور کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ انسان جب تک خود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا اس کو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوتا اور جب تک اس کو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوگا اس وقت تک اس تکلیف میں مبتلا لوگوں کے ساتھ اس کو حقیقی خیر خواہی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ حقیقی خیرخواہی کا جذبہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب حقیقی تکلیف کا احساس ہو۔ اس مہینہ میں کشادہ دست اور تنگ دست دونوں ایک کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں اوردونوں کے درمیان ایک وقتی لیکن حقیقی مساوات پیدا ہوجاتی ہے اور یہ مساوات خوش حال لوگوں کو بدحال لوگو ںکی خیر خواہی پر ابھارتی ہے۔

روزہ کی حالت میں انسان کا بھوکا پیاسا رہنا اللہ تعالی کو مطلوب نہیں ہے۔ بلکہ اس بھوک پیاس کے ذریعے جو دوسرا مقصد ہے وہ ہے ضبط نفس کی تربیت، اگر کوئی شخص بھوکا پیاسا رہے اور محض اللہ کے حکم سے خود اختیاری طور پر باوجود بھوک کے نہ کھائے اور باوجود پیاس کے نہ پیے تو اسے ضبط نفس اور اپنے اوپر قابو کی بے مثال قوت حاصل ہوگی۔ ضبط نفس معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر جھگڑے اور فسادات او رباہمی اختلافات کا اصل سبب ضبط نفس کی کمی ہے۔ ہر انسان میں انانیت اور خود پسندی کا جذبہ ہوتا ہے جس وقت کوئی اس کے اس جذبے کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اس کا نفس بے قابو ہوجاتا ہے اور وہ ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو بسا اوقات بڑی خرابی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ روزہ انسان کو باوجود قدرت کے رکے رہنے اور صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کراتا ہے اور پھر اس کا عملی اظہار بھی کراتا ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھے لیکن برائیوں سے نہ رکے، غیبت اور جھوٹ کو ترک نہ کرے، لڑائی اور جھگڑا کرتا ہے تو اس کو سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے روزے سے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ایک دوسری حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو ان کے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حدیث میں بہت وضاحت کے ساتھ آیا ہے کہ جو شخص روزے رکھے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بری باتوں سے اجتناب کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے جھگڑا کرے تو بھی جھگڑے میں شریک نہ ہو بلکہ یک طرفہ طور پر صبر سے کام لے اور جھگڑا کرنے والے سے کہے کہ میں روزے سے ہوں یعنی جھگڑا نہیں کروںگا۔ روزہ انسان کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ اس صبر و ضبط کا ایک تربیتی نصاب ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت کھانا پینا ہے۔

روزے میں ان ضروریات سے رکتاہے اور باوجود قدرت، اشتہاء اور تقاضے کے ان جائز چیزوں سے بھی احتراز کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ انسان کے ساتھ اس کی ’انا‘ کا ہوتاہے کسی سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو وہ فوراً چراغ پا ہوجاتا ہے اور فریق مخالف سے جھگڑا کرتا ہے۔ لیکن روزے کی حالت میں جس طرح بھوک اور پیاس پر صبر کرنا ضروری ہے، اسی طرح انانیت پر بھی قابو رکھنا ضروری ہے۔ او رجو شخص اس تربیتی نصاب کو حسب ہدایت پوار کرے گا تو یقین ہے کہ اس کے بقیہ ایام میں بھی یہ تربیت اس کو غریبوں کا ہمدرد، کمزوروں کا معاون اور معاشرے کا ایک اچھا انسان بننے میں مدد دے گی۔ صبر اور برداشت معمولی قوت نہیں ہے۔ یہ طاقت کے استعمال سے بڑی طاقت ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا قول ہے ’کَشندہ کُشِندہ بود(یعنی برداشت کرنے والا تو مار ڈالتا ہے) اس کا مطلب یہی ہے کہ جسے برداشت کی قوت حاصل ہوگئی اس کو بڑی طاقت حاصل ہوگئی ایسی طاقت کہ ہر طاقت اس کے سامنے کمزور ہوجاتی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت سی بھلائیاں، برکتیں اور رحمتیں لے کر آتاہے۔

اس مہینہ میں فرائض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور نوافل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس مہینہ میں مال خرچ کرنے کا بھی ثواب بڑھ جاتا ہے۔ لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ بالعموم اسی مہینہ میں نکالتے ہیں اور نفل صدقات بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپؐ کی محبت اور شفقت او رلوگوں کی امداد میں بہت اضافہ ہوجاتا تھا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپؐ بہت سخی تھے۔ لیکن رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت تیز آندھی کی طرح ہوجاتی تھی عام مسلمان جن کے لیے اللہ کے رسول اسوہ حسنہ ہیں، وہ بھی اس سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ او رجتنا وہ سال بھر میں بھی لوگوں کی امداد نہ کرتے ہوں رمضان المبارک میں اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آخر میں عید آتی ہے۔ عید کی خوشیوں میں ہر ایک کو شریک کرنے کے لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی طرف سے اور اپنے زیر کفالت تمام افراد کی طرف سے ایک مخصوص مقدار بطور صدقہ ان کو دے جو نادار ہیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں پورے طور پر شریک ہوسکیں اور عید کی عام ضیافت میں ان کو حرماں نصیبی کا احساس نہ ہو۔ یہ ہیں اس ماہ مبارک کی برکتیں اور رحمتیں۔ ایک طرف یہ رب العالمین کی بے پایاں داد ودہش اور انعام و اکرام کا مہینہ ہے۔

دوسری طرف لوگوں کے ساتھ انعام و اکرام اور جود وسخا رسول اللہ کی سنت کا عملی نمونہ ہے۔ اس مہینہ میں روزہ کے ذریعہ انسان کی تربیت ہوتی ہے اس کو ضبط نفس اور خود پر قابو رکھنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس کوعملاً دکھایاجاتاہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے ہر وقت بہرہ مند ہونے والے ان نعمتوں سے محروموں کا درد سمجھ سکیں۔ اور پھر ان کو مختلف صدقات نافلہ اور صدقۃ الفطر وغیرہ کے ذریعے جود و سخا اور غریبوں اور محتاجوں کا مدد کرنے والا بن جاتاہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)