بھوک اور تشدد سے نبرد آزما عام بلوچ کی دلخراش روداد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
بلوچستان کے عوام میں عدم اطمینان متواتر بڑھتا جا رہا ہے
بلوچستان کے عوام میں عدم اطمینان متواتر بڑھتا جا رہا ہے

 

منجیت ٹھاکر/ نئی دہلی

حال ہی میں پاکستانی میڈیا سے وابستہ بہت سے لوگوں نے بھارت میں جاری کسان تحریک کی حمایت پر کئی ٹوئٹ کئے ہیں۔ تاہم پاکستان اپنے ہی ایک صوبہ میں ظلم وتشدد اور عدم مساوات کا جو ڈرامہ کررہا ہے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے وہ اپنی کرتوت کو یکسر بھول جاتا ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت اپنی جن ریاستوں میں سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ ہر قسم کے تشدد کو روا رکھے ہوئے ہے، ان ریاستوں میں بد نصیب صوبہ بلوچستان سرفہرست ہے۔

بلوچستان میں حکومت پاکستان جس طریقے سے دہشت گردی کی حمایت اور جبر کی بنیاد پر عام لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اس کے بارے میں وہاں کے نام نہاد آزاد اور سیکولر صحافی اور میڈیا اہلکاروں کی طرف سے بھی کوئی سچی اور قابل اعتماد خبریں سننے کو نہیں مل رہی ہیں۔ مملکت خداداد میں وہاں کے مفلوک الحال بندوں پر کیا گزر رہی ہے اگر اس کی غیر جانبدارانہ صورتحال کے بارے میں جاننے کی دلچسپی ہو تو اس کے لیے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر برہمداغ بگٹی کے مختلف ٹویٹس دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک تازہ ترین ٹویٹ میں برہمداغ بگتی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے مشہور شہر پشاور کے محض حق اور انصاف کی بات کہنے اور لکھنے کی پاداش میں ایک پروفیسر صاحب ایم اسماعیل حیدر کو غیر قانونی طریقے سے زیر حراست لے لیا گیا تھا۔ اور عالمی انسانی حقوق کے کارکن گلالئی اسماعیل سمیت ان کے پورے خاندان کو ہراساں اور پریشان کیا جارہا ہے۔

ریاستی ظلم و بربریت کی انتہا یہ ہے ان کا خاندان زندہ رہتے ہوئے خود کو پاکستانی معاشرہ کا حصہ سمجھنے میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہے۔ ایک طرف حکومت پاکستان منصوبہ بند طریقے سے بلوچ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو دوسری طرف بلوچستان کے مقامی لوگوں میں ہروروز بڑھتی ہوئی غربت و افلاس اور بے روزگاری کا احساس ان کے سوہان روح بنتا جارہا ہے۔

بلوچستان اور سندھ دونوں ریاستوں کے عوام حکومت کی پالیسیوں اور ریاستی ظلم و جور کے خلاف کئی ہفتے سے سڑکوں پر ہیں، لیکن وہاں کے میڈیا کی نظروں میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے پبلک ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی عدنان حیدر کا ان مظاہروں کے بارے میں دعویٰ ہے کہ ''مظاہرین مٹھی بھر ہیں۔''لہذا اس عوامی بے چینی کی کوریج کرنا غیر ضروری کام ہے۔ پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کی باتیں حقائق سے کس قدر دور ہیں اس کا اندازہ صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال کے حالیہ وقت میں دیے گیے ایک اعلان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ریاست بلو چستان کے وزیر اعلیٰ نے عوام کے غصے، شدید ناراضگی اور مظاہروں سے جزبز ہوکر اعلان کیا ہے کہ جلد ہی وہ ریاست کے 30 ہزار نوجوانوں کو روزگار مہیا کرائیں گے۔ وزیر اعلیٰ کمال کا دعوی ہے کہ پچھلے ڈھائی سالوں کے درمیان 18 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں ملازمت دی گئی ہے، جبکہ مختلف قسم کی 12 ہزار ملازمتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ اگرچہ ان کے دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے پھربھی اپنے قابل رحم اور مایوس کن حالات سے غیر مطمئن بلوچ عوام درپیش معاشی تنگ دستیوں سے نجات دلانے میں یہ اقدامات قطعی طور پر ناکافی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اس پسماندہ ترین ریاست کے عوام میں بے روزگاری کی شرح کس حد تک حیرت انگیز ہے۔

اس وقت بلوچستان میں بے روزگار نوجوانوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے ریاست کے باشعور اور تعلیم یافتہ عوام میں یہ گلے شکوے ہر جگہ سننے کو مل رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے ذریعے پیش کیے جانے والے روزگار کے یہ مواقع بھی ان کی خستہ حالی کو دور کرنے میں معاون نہیں ہوسکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے اور اس پیکج سے ریاست کے عوام کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ تیس ہزار ملازمتیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہی ہوں گی ۔

ریاست کی پسماندگی اور اس کے عوام کی غربت افلاس کی بنیادی اور ناقابل تردید وجوہات بھی ہیں۔ چناں چہ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے اس خطے میں لوگوں کو دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیاسی اور معاشی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان کی دوسری ریاستوں کی اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید جان بوجھ کر وہاں کی مقامی اور مرکزی حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے معاملے میں دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

وزیر اعلیٰ کمال کا دعوی ہے کہ پچھلے ڈھائی سالوں کے درمیان 18 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں ملازمت دی گئی ہے، جبکہ مختلف قسم کی 12 ہزار ملازمتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ اگرچہ ان کے دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے پھربھی اپنے قابل رحم اور مایوس کن حالات سے غیر مطمئن بلوچ عوام درپیش معاشی تنگ دستیوں سے نجات دلانے میں یہ اقدامات قطعی طور پر ناکافی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اس پسماندہ ترین ریاست کے عوام میں بے روزگاری کی شرح کس حد تک حیرت انگیز ہے۔

اس وقت بلوچستان میں بے روزگار نوجوانوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے ریاست کے باشعور اور تعلیم یافتہ عوام میں یہ گلے شکوے ہر جگہ سننے کو مل رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے ذریعے پیش کیے جانے والے روزگار کے یہ مواقع بھی ان کی خستہ حالی کو دور کرنے میں معاون نہیں ہوسکیں گے۔ ا۔ وزیر اعلیٰ کمال کا دعوی ہے کہ پچھلے ڈھائی سالوں کے درمیان 18 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں ملازمت دی گئی ہے، جبکہ مختلف قسم کی 12 ہزار ملازمتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ اگرچہ ان کے دعوے میں بڑی حد تک سچائی ہے پھربھی اپنے قابل رحم اور مایوس کن حالات سے غیر مطمئن بلوچ عوام درپیش معاشی تنگ دستیوں سے نجات دلانے میں یہ اقدامات قطعی طور پر ناکافی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی اس پسماندہ ترین ریاست کے عوام میں بے روزگاری کی شرح کس حد تک حیرت انگیز ہے۔

اس وقت بلوچستان میں بے روزگار نوجوانوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے ریاست کے باشعور اور تعلیم یافتہ عوام میں یہ گلے شکوے ہر جگہ سننے کو مل رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے ذریعے پیش کیے جانے والے روزگار کے یہ مواقع بھی ان کی خستہ حالی کو دور کرنے میں معاون نہیں ہوسکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست میں بے روزگاری کی شرح کافی زیادہ ہے اور اس پیکج سے ریاست کے عوام کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ تیس ہزار ملازمتوں کااعلان اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہی ہوگا۔

ریاست کی پسماندگی اور اس کے عوام کی غربت افلاس کی بنیادی اور ناقابل تردید وجوہات بھی ہیں۔ چناں چہ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے اس خطے میں لوگوں کو دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیاسی اور معاشی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان کی دوسری ریاستوں کی اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید جان بوجھ کر وہاں کی مقامی اور مرکزی حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے معاملے میں دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

صوبہ بلوچستان اور اسکی متصل صوبہ خیبر پختونخوا ترقی کی رفتار میں کتنے پیچھے ہیں اور وہاں کے عوام میں غربت افلاس اور بے روزگاری کا کیا عالم ہے، اس کا اندازہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ماہ فروری 2015 کے اس بیان سے ہوتا ہے، کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاں تھا کہ بلوچستان میں عدم مساوات اور احساس محرومی کو ختم ہونا چاہیے،بلوچستان کو ترقی دے کر ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانا بے حد ضروری ہے، انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو ان کی دہلیز پر ہی ساری سہولتیں پہنچائی جائیں گی، بلوچستان کے کسی شہر کو پسماندہ نہیں رہنے دیا جائے گا، معدنیات کا سب سے بڑا حصہ بلوچستان ہونے کے باوجود پاکستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یہ خطہ حد درجہ پیچھے رہ گیا ہے۔

دن رات کام کر کے ملک خاص کر اس ریاست سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر ترقی کی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔ ریاست کی ترقی کیلئے حکومت اور تمام اداروں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنااپنا کردارادا کرنا چاہئے۔ دوسری جانب ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ حکومت پاکستان نے سیکیورٹی کا بہانہ بناکر گوادر پورٹ پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالاں کہ بلوچ سیاسی جماعتیں اسے ایک سازش قرار دے رہی ہیں اور ہر محاذ پر اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔

دراصل خطہ کے لوگوں میں عدم اطمینان اور مایوسی کا یہ سلسلہ کسی فوری عمل کا نتیجہ نہیں ہے، نہ گوادر پورٹ کے راستے میں باڑ لگانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، بلکہ اس غصے کا تعلق اسلام آباد کی قیادت زیر سایہ بلوچ عوام کو مسلسل نظر انداز کئے جانے اور وسیع تر ترقیاتی منصوبوں سے انہیں نظر انداز نظر کرنے کی وجہ سے صوبہ کے اندر مسلسل بے چینی بڑھتی جارہی ہے، انہیں ترقیاتی پروگراموں سے دور رکھنے کی یہ سازش کافی زمانے سے چل رہی ہے۔ اور اب بطورخاص چین پاکستان اقتصادی راہداری میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے بلوچوں کو محروم رکھے جانے کی وجہ سے عوام کے اندر اضطراب اور جذبہ احتجاج میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

آج بلوچستان کے کے عوام اور مقامی سیاسی نمائندے جس بڑے پیمانے پر مخالفت اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر اتر گئے ہیں وہ 30 ہزار ملازمتوں کے وعدے اور معاشی ترقی کے دکھاوٹی لالی پاپ سے تھمنے والا نہیں ہے۔ موجودہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ پاکستان وہی سلوک کر رہا ہے جیسا اس نے اس وقت کے ایک صوبے مشرقی پاکستان (اور اب بنگلہ دیش) میں پانچ دہائی قبل کیا تھا۔ دراصل بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ساتھ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) جیسے نان اسٹیٹ ایکٹر بھی بلوچوں پر قہربرپا کرنے میں پاک اآرمی سے کسی حیثیت سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اس سال 3 جنوری 2021 کو اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے کاچی ضلع کے ماکھ علاقے میں کوئلے کی کان میں کام کررہے 11 مزدوروں کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا، ساتھ ہی 4 نہتے و ناتواں مزدوروں کو شدید طور پر زخمی کردیا تھا۔ یہ تمام افراد شیعہ ہزارہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔

ساؤتھ ایشیاء ٹیررزم پورٹل (ایس اے ٹی پی) کے ذریعے مہیا کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس سال کے پہلے 10 دنوں کے اندر ہی چار مختلف دہشت گردانہ واقعات میں 16 افراد کی ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ان ہلاک ہونے والوں میں 11 عام شہری، 2 سکیورٹی اہلکار اور3 دہشت گرد شامل تھے۔ جبکہ 2020 میں اسی پاکستان میں 506 اموات کی خبریں میڈیا کی سرخیوں میں رہی تھیں، جن میں 69 عام شہری، 178 سیکیورٹی اہلکار اور159 دہشت گرد شامل تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے 215 ہلاکتیں صرف بلوچستان میں ہوئی تھیں۔اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں، 84 عام شہری اور 94 سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ 37 جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ صوبہ بلوچستان سے متصل خیبرپختونخوا میں 216 اموات ہوئی تھیں۔ تاہم یہ فقط گزشتہ ایک سال کے اعداد و شمار ہیں، جبکہ بلوچستان میں صورتحال سال در سال مزید بد تر ہوتی جارہی ہے اس سے پہلے سنہ 2019 میں 180 اموات ہوئیں تھیں۔ 2019 سے لے کر 2020 تک اموات کی تعداد میں قریب 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اور ان میں بھی سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں بڑھوتری ہوئی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ نہیں ہے کہ اس صوبے میں پاکستانی فوج ''مار ڈالو اور پھینک دو'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بلوچستان میں پرتشدد واقعات سے متعلق یوریشیا کی تفتیشی رپورٹ میں سنچیتا بھٹاچاریہ لکھتی ہیں کہ ''بلوچستان کی سڑکوں پر گلی سڑی اور نامعلوم لاشوں کے نظارے عام دیکھنے کو ملتے ہیں، گویا اس طرح لاشوں کی براآمدگی اور ان نظر پڑنا ایک معمول سا بن چکا ہے۔ یہ ہلاکتیں اور بے گناہ انسانوں کی جانوں کا اتلاف بظاہر فوج، خفیہ ایجنسیوں اور ان کے اسلامک ماسک (تنظیموں) کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ اس کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں ذرا پیچھے جاکر ریاست کی سیاسی جماعتوں کے الٹ پھیر کا جائزہ لیں تو ساری پڑتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔

اس کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ 17 جون 2020 کو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)برسراقتدار عمران خان کے اتحاد میں شامل تھی اسی زمانے میں مقامی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نیوزیر اعظم عمران خان کو 5128 گمشدہ لوگوں کی فہرست سونپی تھی،جن کا پتہ لگاکر انہیں ان کے اہل خانہ کے سپرد کرنے کا مطالبہ رکھا تھا، اب پارٹی کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ گم شدہ لوگوں کی اس فہرست میں مزید 1800 افراد شامل ہوگئے ہیں۔

جب کی اسی جماعت کا دوسرا گروپ (بی این پی - ایم) نے عمران خان قیادت والٰی وفاقی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی۔ بی این پی - ایم، عمران حکومت سے عوام کی مشکلات سے نمٹنے میں ناکامی اور ان کی اسٹیٹ مخالف ناپسندیدہ باتوں سے ناراض تھی، اس کے علاوہ ہر روز لوگوں کو گھروں سے غایب ہونے کا مسئلہ بھی دراز ہوتا جارہا تھا،کہاں تو مقامی جماعتوں نے عمران خان سے یہ توقعات وابستہ رکھی تھیں کہ ان کے دور حکومت میں بلوچ عوا م کی گم شدگی کا یہ سلسلہ اب تھم جائے گا، مگر ہوان کی امیدوں کے یکسر مخالف۔

اسی کے بعد بی این پی -ایم کے صدر سردار اختر منگل نے دعوی کیا کہ ''بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے اور غیر فطری اموات کے سلسلے میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔'' اب مینگل کا دعوی ہے کہ اس فہرست میں 1،800 مزید افراد شامل ہوگئے ہیں۔ سن 2019 میں، بلوچ راجی اجوئی سنگر (BRAS) (بلوچ نیشنل فریڈم موومنٹ) کے ترجمان بلوچ خان نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ: ''ایک طرف پاکستانی فوج بلوچ عوام کے قتل عام میں مصروف ہے تو دوسری طرف او جی ڈی سی ایل بلوچستان میں بلوچ وسائل کو لوٹنے میں دن رات سرگرم ہے جو بلوچستان کے ذخائر میں ان کے ناجائز قبضے کی اسٹریٹجی کا یہ اہم حصہ ہے۔ '' اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''ہم چین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم چین کے تمام معاہدوں کو مسترد کرتی ہے، جو اس نے پاکستان کی سامراجی طاقتوں کے ساتھ کئے ہیں اور تمام معاہدوں کو اب مسترد سمجھا جاتا ہے۔'' بہرحال، بلوچستان پاکستان کے سب سے نظرانداز اور پسماندہ کیے جاچکے علاقوں میں سے ایک ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے انسانی ترقیاتی اشاریہ 2019 کے مطابق کثیر جہتی غربت انڈیکس کے تحت بلوچستان کے عوام شدید متاثر ہیں (ایم پی آئی)۔ ایک دوسری رپورٹ میں خطہ کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اگر بلوچستان میں غربت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ماضی،حال مرکز اورریاستی حکومتوں کی پالیسیوں، عدم توجہی، بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کو بڑی وجوہات قرار دیا جاسکتا ہے اور ان سب وجوہات نے مل کر بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کو جنم دیا ہے۔ صوبے میں غربت کا اندازہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تعاون سے کیے گئے ملٹی ڈائمینشنل انڈیکس (Multidimensional Poverty Index) سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق صوبے کی دوتہائی اکثریت ہمہ جہت غربت کا شکار ہے۔اس رپورٹ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ صوبے میں تقریباً 71 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اگر بلوچستان میں غربت کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں، عدم توجہی، بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولتوں کے فقدان کو بڑی وجوہات قرار دیا جاسکتا ہے اور ان سب وجوہات نے مل کر بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کو جنم دیا ہے۔

صوبے میں غربت کا اندازہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تعاون سے کیے گئے ملٹی ڈائمینشنل انڈیکس (Multidimensional Poverty Index) سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق صوبے کی دوتہائی اکثریت ہمہ جہت غربت کا شکار ہے۔اس رپورٹ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ صوبہ میں تقریباً 71 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں غربت اور لوگوں کے معیار زندگی کااندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ صوبے میں صرف 20 فیصد افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے جب کہ صحت کا اندازہ ماؤں اور بچوں کی سب سے زیادہ شرح اموات اور تعلیم کا اندازہ لگ بھگ 20 لاکھ بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے اور سب سے کم شرح تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے، مثال کے طور پر اسپتال، اسکول اور سڑکوں کا وہاں تصور بھی نہیں ہے۔ گزشتہ سال 25 فروری کو وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان الانی نے خود اعتراف کیا تھا کہ ''ریاست میں غلط منصوبہ بندی اور ترقیاتی سرگرمیوں سے لوگ کبھی مطمئن نہیں ہوں گے''۔