سب سے بڑا جہاد ہے،مجاہدۂ نفس

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 30-11-2022
سب سے بڑا جہاد ہے،مجاہدۂ نفس
سب سے بڑا جہاد ہے،مجاہدۂ نفس

 

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

بڑے بڑے پہلوانوں اور جنگجووں کو زیر کرنے والے اکثر ہواوہوس کے ہاتھوں زیر ہوکر نقصان اٹھاتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ نفس کے خلاف اقدام کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مجاہدۂ نفس کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے اور احادیث نبویہ کے اندر اس کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے۔اہل تصوف کا زوراسی پر ہوتا ہے کیونکہ مجاہدۂ نفس سے ہی تزکیۂ قلب ہوتاہے اور تزکیہ کے بغیر دل ،جلوہ گاہ محبوب نہیں بن سکتا۔ سچ ہے

ہرگز نہ تم جہاد کہو مار کاٹ کو

لڑ جانا اپنے نفس سے اصلی جہاد ہے

انسانی شکل والے دشمن سے جنگ کرنا آسان ہے مگر جس دشمن کی کوئی شکل وشباہت نہیں،یعنی انسان کا نفس، اس سے لڑنا مشکل کام ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

جو شخص (راہِ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے۔(العنکبوت، 29 /6)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار مجاہدہ نفس کی تاکید فرمائی ہے اور اسے جہاد اکبر قرار دیا ہے:

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔(مسند امام احمد، ترمذی)

اسلحے کے ساتھ لڑنااور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا، آسان  کام نہیں ہے،اس کے لئے ہمت وحوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس سے بھی بڑا کام ہے،خود اپنے نفس سے جنگ کرنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی متعدد احادیث میں اس کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔

( بیہقی)

طاقتورپہلوان وہ ہوتا ہے جسے کوئی پچھاڑ نہ سکے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جسے کوئی شکست نہ دے پائے، وہ خود اپنی نفسانی خواہشات اور اخلاقی کمیوں سے ہارجاتا ہے۔

سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: پہلوان وہ شخص نہیں ہے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے (یعنی اپنے غیض و غضب کو ضبط کرکے نفس کو پچھاڑ دے)۔

( مسلم)

ایک دوسری حدیث میں بھی خواہشات نفسانی پر قابو رکھنے کا حکم ہے۔

حضرت ابو ذر غفاری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: کون سا جہاد سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تواپنے نفس اور خواہشات کے خلاف اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔(ابن عساکر)

ایک حدیث میں نفسانی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کو بہترین جہاد قراردیا گیا ہے۔

حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کیا۔

(ترمذی ، طبرانی)

تصوف اور اہل تصوف مجاہدہ نفس اور تزکیہ قلب پر زور دیتے ہیں۔ امام الصوفیہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اگلے زمانوں میں) سب سے پہلے تم جس چیز کا اِنکار کرو گے وہ جہاد بالنفس ہوگا۔(جامع العلوم والحکم)

یوں ہی امام سفیان ثوری کہتے ہیں: بے شک تمہارا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے پہلووں کے درمیان ہے۔ تم اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ جنگ کرو۔

(شرح صحیح البخاری)

انسان اور فرشتوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ انسان کے اندر شہوات نفس رکھی گئی ہیں جب کہ فرشتوں کو ان سے پاک رکھا گیا ہے۔یہی سبب ہے کہ فرشتوں کا کام ٹھیک طریقے سے چل رہا ہے مگر انسان کی راہوں میں اتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔

حضرت وہب ابن الورد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ’’ جو شخص شہوت پر غالب ہو وہ فرشتوں پر غالب ہے یعنی وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے کیونکہ فرشتے محض عقل ہیں بغیر شہوت کے اور جس پر شہوت غالب آجائے وہ جانوروں سے بھی بد تر ہے کیونکہ وہ محض شہوت ہے بغیر عقل کے۔‘‘