عظیم مجاہد آزادی: مولانا منت اللہ رحمانی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-08-2022
عظیم مجاہد آزادی:  مولانا منت اللہ  رحمانی
عظیم مجاہد آزادی: مولانا منت اللہ رحمانی

 

 

awazthevoice

محمد امتیاز رحمانی، جامعہ رحمانی خانقاہ ، مونگیر

ہندوستان سے انگریزی حکومت کا خاتمہ اور ملک کی آزادی انسانی تاریخ کا بڑا واقعہ ہے، جس نے نہ صر ف انگریزوں کی اس حکومت کا خاتمہ کردیا جس میں کبھی سورج نہیں ڈوبتا تھا، بلکہ ا س واقعہ نے ہندوستان کے ساتھ عرب ممالک کی سیاسی، ثقافتی اور آئینی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ، ہندوستان پر قبضہ کی وجہ سے انگریز عرب ممالک پر بھی اپنے انداز کی حکومتیں کررہے تھے ، اور برٹش حکومت سپر پاور کی حیثیت سے پوری دنیا کو اپنے چنگل میں لۓ ہوئے تھی ، جیسے ہی ہندوستان سے برٹش حکومت کمزور پڑی اور پھر اس کا خاتمہ ہؤا، اس کی عالمی حیثیت بھی بدل گئی۔

وطن عزیز کی صورت حال اور حالات کے پیش نظر ملک آزاد کرانا ضروری تھا، مگر یہ کام بڑا مشکل تھا۔ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ایک عظیم حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ پیدا کرنا اور تدریجا آزادی کی منزل تک پہنچنا، ایثار وقربانی کے بے پناہ جذبے، مشکل ترین حالات کو گلے لگانے کے حوصلے ، اور غیر معمولی جرأت و بصیرت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

 اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیتیں علماء کرام کو دی تھیں، انہوں نے اپنی زندگی کی آسانیوں کو بھول کر وطن عزیز سے غیر ملکی سامراج کو ہٹانے اور مٹانے کا ارادہ کیا، ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی بنیاد رکھی اور تقریباً ڈیڑھ سو سال میں انیس ہزار علماء نے جان و مال کی قربانی دے کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا اور ۱۹۴۷ء میں وہ مرحلہ آیا جب ملک آزاد ہوگیا۔

ملک کی آزادی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور قربانیاں دینے میں جہاں علماء کرام کا مثالی کردار رہا ہے، وہیں ان کے زیر اثرمسلم عوام نے بھی ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ۱۹۳۲ء میں جب نن کواپریشن موومنٹ نے زور پکڑا اور انگریزوں نے تحریک کاروں کو گرفتار کیا تو تاریخ بتاتی ہے کہ پورے ملک میں ۸۲؍ہزار افراد گرفتار ہوئے جن میں ۴۲؍ ہزار مسلمان تھے۔ یہ تعداد بتاتی ہے کہ گر چہ تعداد کے اعتبار سے مسلمان اقلیت میں رہے ہوں مگر ۱۹۳۲ء تک آزادی وطن کی تحریک میں ان کی قربانی اکثریت میں تھی۔

اسی تحریک کے نتیجہ میں حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی ؒ آزادی کی جدوجہد میں پوری سرگرمی کے ساتھ سرفروشانہ شریک ہوئے اور طالب علمی کے زمانے میں میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور ضلع کے ڈکٹیٹر بنائے گئے ،اپنی خدمات کی وجہ سے آپ نے آزادی کے متوالوں کے دل میں بڑی جگہ بنائی، بڑا منظم کام کیا، اور پچھمی یوپی کے ہزاروں افراد جیل گئے جن میں خود حضرت بھی تھے۔آپ نے آزادی ہند کے خاطر دو دفعہ جیل کی مصیبتیں جھیلیں اور بڑے حوصلے کے ساتھ آزاد ہند کے کارواں میں سرفروشانہ شریک رہے اور نمایا ں حصہ لیا۔

حضرت کے جیل جانے کے واقعے نے خانقاہ رحمانی کے مریدین اور متوسلین کو غیر معمولی طورپر متأثر کیا اور حلقہ خانقاہ رحمانی میں انگریزوں کے خلاف جذبہ انتقام گرماگیا۔ اس واقعہ سے آزادی ہند کی تحریک میں خانقاہ رحمانی کا براہ راست اشتراک اور سرگر م حصہ شروع ہؤا جو آزادی وطن ۱۹۴۷ء تک جاری رہا ۔ ایسانہیں ہے کہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے قائدین خانقاہ رحمانی کی عظمت کے معترف نہیں تھے یا اس کی عوامی طاقت کو محسوس نہیں کرتے تھے۔ قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کی خدمات ،آپ کے تقویٰ اور بزرگی کے اثرات نہ صرف ملک کے اند ر بلکہ برما سے لے کر افریقہ تک محسوس کئے جاتے تھے اور حضرت قطب عالم کی حیات مبارکہ میں دو مرتبہ گاندھی جی نے خانقاہ میں حاضری دی اور اس انداز پہ انہوں نے عقیدت کا اظہار کیا تھا کہ خانقاہ رحمانی کے گیٹ پر ہی اپنی چپل اتاری اور وہیں سے دونوں ہاتھ جوڑ کر حضرت کے حجرہ تک پہونچے، اسی طرح مختلف رہنماؤں نے حضرت قطب عالم مولانا محمد علی مونگیریؒ کی خدمت میں حاضری دی اس زمانے میں حضرت قطب عالم کا موضوع بیعت وارشاد، اصلاح باطن ،اصلاح معاشرہ اور قادیانی آریہ سماجی حضرات کی اسلام مخالف سرگرمیوں کا سدباب کرنا تھا اور حضرت والا اس موضوع سے دوسری طرف توجہ دینے کوتیار نہیں تھے۔

حضرت امیر شریعت ؒ کی آزادی کے لئے جدوجہد کے نتیجہ میں خانقاہ رحمانی میں تحریک آزادی ہند کے رہنماؤں کی آمد ورفت بڑھتی چلی گئی اور یہ خانقاہ ان کی آماجگاہ بن گئی جو مشکل وقتوں میں ان کی پناہ گاہ بھی ہوتی تھی ۳۴ء میں مونگیر میں تاریخی زلزلہ آیا تو گاندھی جی، خان عبد الغفار خاں، پنڈت جواہر لال نہرو وغیرہ مونگیر آئے اور سبھوں نے خانقاہ میں قیام کیا، اس زمانہ کا مہمان خانہ جو آج کل خانقاہ میں ہال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سارے معزز مہمانوں کا اسی میں قیام رہا ،خان صاحب پندرہ دن یہاں مقیم رہے ،زلزلہ ریلیف کے کاموں کے ساتھ تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے بہار کے تمام قابل ذکر لیڈر ،حضرتؒ سے ملنے خانقاہ آتے رہے، اور انہیں ایک موقعہ ملا کہ وہ خانقاہ سے قریب ہوں، حضرت امیر شریعت نے آزادی وطن کی تحریک میں جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور پہلی دفعہ جب ۱۹۳۶ء میں عمومی انتخاب ہوئے تو مسلم انڈیپنڈٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الکشن لڑے اور ریکار ڈ توڑ کامیابی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا، ۱۹۴۰ء میں آپ باقاعدہ اعلان کرکے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اور پھر کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، آزادی کے بعد جب آپ کے سامنے ایک موقع پربہار کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹرشری کرشن سنگھ نے پنڈت جواہر لال نہرو کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت راجیہ سبھا کی ممبری قبول فرمائیں تو حضرت امیر شریعت ؒ نے جواباً فرمایا کہ میں اسمبلی اور پارلیامنٹ سے دور رہنے کا فیصلہ کرچکا ہوں اس کا اعلان بھی ۴۰ء میں کر دیا ہے۔

پارلیمانی سیاست سے علیحد گی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھایا خانقاہ رحمانی کے مریدین ، مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اور تحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکولر، پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہو کر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہواکرتے تھے ،اسکی طباعت کا سب سے بڑا مرکزخانقاہ رحمانی تھا، اس کا م میں حکیم معین الدین صاحبؒ (پچبیر) شر ی اُگرموہن جھا (جو بعد میں ایس پی کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے) اور شری چند ر شبکھر سنگھ (جو بعدمیں وزیر اعلیٰ بہار اور مرکزی حکومت کے وزیر ہوئے) خاص طورپر حضرت ؒ کے معاون تھے۔ اور زیر زمین تحریک آزادی کے سرگرم کارکنوں میں تھے۔ اس لئے انگریزو ہندوستان چھوڑو کی سرگرم تحریک اور انگریزوں پر فیصلہ کن یلغار کے زمانے مین دومرتبہ خانقاہ کی زبردست تلاشی لی گئی مگر پولس کے ذمہ داروں کو تیرہ تیرہ گھنٹہ کی تلاشی کے باوجود یہاں نہ کوئی موجود اشتہار و پمفلٹ ملا اور نہ پریس، جب کہ دونوں چیزیں یہاں موجود تھیں اور پولیس نے مکانات سے لے کرکھیتوں تک کا چپہ چپہ چھان مارا تھا، اور مطمئن ہو کر پولیس تحریری سرٹیفکٹ دے کر چلی گئی کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ بھی واقعہ ہے کہ ۴۲ء کے موومنٹ میں انگریزوں نے آزادی وطن کے رہنماؤں کو سختی کے ساتھ پکڑ ناشروع کیا تو ایک پالیسی کے تحت بہار کے عظیم رہنما اور پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر شری کرشن سنگھ نے گرفتاری پر روپوشی کو ترجیح دی اور پندرہ دنوں تک خانقاہ رحمانی میں روپوش رہے داڑھی،کرتا اور پاجامہ کے ساتھ ۔ اور ان میں نودن ایسے بھی گزرے جب وہ ایک بڑی نالی پر تختہ ڈال کر آرام کرتے تھے۔ اور اوپر بکس رکھا جاتاتھا ،تاکہ تلاشی ہوتو کسی کا ذہن بھی نالی میں سونے والے کی طرف نہ جائے یہ نالی حضرت امیر شریعت کے کمرہ سے ملحق گدام میں تھی۔ جس کا ایک حصہ آج بھی موجود ہے،

اردو زبان و ادب کے حوالہ سے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کی اسمبلی میں یادگار تقریر یں ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی چند تقریریں یا ان کا کچھ حصہ مطبوعہ شکل میں موجود ہے، سب سے مفصل تقریر اوقاف پر سرکاری محصول چھپی ہوئی ہے۔

انہوں نے انگریزوں کی تعلیمی پالیسی اور تعلیم کے میدان میں پھیلا ئی دہشت گردی کو اعداد و شمار کے ساتھ بڑے مدلل انداز پر پیش کیا تھا، وہ کتاب چھپی اور بائنڈنگ کے مرحلہ میں اس کی تمام کاپیاں حکومت وقت نے اٹھوالیں ،بعد میں جب حالات کچھ ڈھیلے پڑے تو ایک صاحب نے وہی کتاب اپنے نام اور تصویر کے ساتھ چھپوا ڈالی،انہوں نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ کی تھی، کتاب کا نام تھا ‘‘تعلیمی ہند’’ ۔ ہندوستان کی صنعت وتجارت’’ ان کی دوسری محققانہ کتاب تھی ، جوانگریزوں کی صنعتی اور تجارتی زیادتیوں اور مالی پالیسیوں کو واضح کرتی تھی ۔ جس میں اعداد و شمار اور تقابلی مطالعہ کے ساتھ بتایاگیا تھا۔ کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کی کس طرح اقتصادی ناکہ بندی کررکھی ہے۔ اس کتاب پر بھی پابندی حکومت وقت نے لگائی، اور اس کی سیکڑوں کاپیاں ضبط کرلی گئیں۔

حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے الہلال ہفت روزہ پٹنہ ۱۹۳۷ء میں جاری کیاتھا۔ یہ اس زمانہ میں انگریزوں کے خلاف مضبوط ہتھیار کی حیثیت رکھتاتھا۔ اور اردوداں طبقہ میں بیحد مقبول تھا۔ اردو زبان وادب کے حوالہ سے یہ حقیقت بھی تاریخ ادب اردو میں یاد رکھی جانیوالی ہے کہ ۱۹۲۹ء میں حضرت مولانا رحمانی نے الجامعہ جیسے اہم علمی اور دینی ماہنامہ کی ادارت کی تھی ، اس وقت انکی عمر سترہ سال تھی ، اور ماہنامہ کے ٹائٹل پر ان کی کنیت ‘‘ابوالفضل ’’ چھپا کرتی تھی ۔

یہ چند واقعات بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں خانقاہ رحمانی اور حضرت امیرشریعتؒ کا کتنا سرگرم اور مثبت رول رہا ہے۔ اور آزادی کی زیر زمین تحریک میں کتنی نمایاں حیثیت رہی ہے۔