پہلادیش بھکت ہندوستانی شاعرامیرخسرو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2021
بارگاہ نظام الدین اولیا میں امیرخسرو:ایک تصوراتی تصویر
بارگاہ نظام الدین اولیا میں امیرخسرو:ایک تصوراتی تصویر

 

 

عرس امیرخسروکے موقع پرخاص تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی

امیر خسرو،جیسی شخصیتیں صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔وہ فارسی زبان کے ایک عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ بے مثال نثرنگاربھی تھے۔علاوہ ازیں موسیقی میں ان کی مہارت ایجادواختراع کے درجے تک پہنچی ہوئی تھی۔وہ ایک سپاہی اوراور درباری تو تھے ہی،اسی کے ساتھ ایک صوفی بھی تھے۔وہ ہندوستان کی اس گنگاجمنی تہذیب کا نمونہ تھے جس کی دلکشی ہزارہاسال سے قائم ودائم ہے۔امیرخسرواردواور ہندی کے بھی اولین شاعرمانے جاتے ہیں۔

ولادت اور بچپن

امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی، جو کہ متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔ ۶۵۱ھ بمطابق ۱۲۵۲ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک نومسلم، سیاہ فام ہندوستانی سیاستداں کی ۔بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے۔ خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلص سے ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا۔

۔ خاندانی پسِ منظر

امیرخسروکی درگاہ پر بسنت کا تہوار

خسروؔ کے والد امیر سیف الدین محمود کا خاندان وسط ایشیا کے شہر سمرقند کے قریب کش کا رہنے والاتھا مگر مغلوں کی تاراجی سے پریشان ہوکر بلخ میں آبسا تھا۔ جب یہ طوفانِ بلا سمرقند وبخارا کو تاراج کر کے بلخ کی طرف بڑھا تو امیر سیف الدین ایک قافلے کے ساتھ ہندوستان چلے آئے۔ یہاں چند دن معمولی خدمات پر معمور رہنے کے بعد انھیں پٹیالی کی چھوٹی سی جاگیر دے دی گئی۔ یہ ایک غریب الوطن مہاجر کے لئے بڑا انعام تھا۔ امیر سیف الدین محمود ایک جنگ جو سپاہی تھے لہٰذا جنگی معرکوں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق ابھی خسرو صرف سات سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کی پرورش وتربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ دولت ناز و نانا عمادالملک کے سر آگئی۔

نانیہال کا اثر

خسرو نے اپنے آس پاس ماں، نانا اور ماموں کو دیکھا، جو ہندو پسِ منظر رکھتے تھے اور انھیں نے ان کی تعلیم وتربیت بھی کی۔ ظاہر ہے یہ خاندان ایک ہندوستانی خاندان تھا اور وہ بھی متھرا کے قریب رہنے والا خاندان تھا جو کہ ہندووں کا ایک مقدس شہر ہے اور اس علاقے کی آب و ہوا میں بھی کرشن بھکتی کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں کی مقامی ’’برج بھاشا‘‘ کے لوک گیت اور بھجن ضرور ان کے کان میں پڑتے ہونگے۔ ایک طرف جہاں انھیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم دی جارہی تھی، وہیں دوسری طرف وہ جس ماحول میں پرورش پارہے تھے اس کے اثرات ان پر پڑنے لازم تھے۔ اس ماحول میں خسرو کی پرورش نے ہی انھیں ایک سچا ہندوستانی بنا دیا تھاجو یہاں کی مخلوط تہذیب میں یقین رکھتا تھا۔ ان کے نانا کا قیام دہلی میں تھا، جس کے سبب ان کا دہلی آنا جاناتھا لہذا دہلی کے ماحول نے بھی ان پر اثر ڈالا اور انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

امیرخسروکی کتاب کا ایک ورق

۔ نظام الدین اولیاء کی بارگاہ میں 

جلال الدین خلجی کے عہد میں دوسال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہِ نظام الدین اولیاء سے زیادہ گہرا ربط ہوا۔ یوں تو یہاں ان کا آنا جانا زمانے سے تھا اور مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض وبرکات کے حصول کا بہتر موقع زندگی کے آخری حصے میں میسر آیا۔ انھیں احساس ہونے لگا تھا کہ اب تک جو انھوں نے وقت گذارا وہ بیکار گزارااور اپنی قیمتی عمر کا ایک بڑا حصہ جھوٹے شعبدوں میں بتا دیا۔ انھیں شاہی محفلیں اور ان کے رتجگے، ناچ ورنگ سب بیکار لگنے لگے اور دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا۔

سجدۂ عشق کو آستاں مل گیا

سرزمیں کو مری آسماں مل گیا

خسرو کا آخری وقت

۱۳۲۰ء میں غیاث الدین تغلق کی تخت نشینی ہوئی اور امیر خسروؔ حسب سابق اس کے دربار سے وابستہ رہے۔ امیر خسرو شہزادہ اُلغ خان کے ساتھ بنگال سے واپسی کے راستے میں ترہٹ (مظفر پور، بہار) کے علاقے میں تھے کہ آپ کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بیماری کی اطلاع ملی تو لشکر کو چھوڑ کر جلدی جلدی دہلی آئے مگر مرشد سے ملنا نصیب نہ ہوااور غم واندوہ میں مبتلا ہوکر ان کی قبرکے پاس بیٹھ رہے۔ درد کی جو کیفیت دل میں تھی وہ کبھی کبھی لب پہ آجاتی۔ آپ کے بدن پر ماتمی لباس ہوتا، آنکھوں میں آنسو ہوتے اور زبان پر ہندی کا ایک دوہا،

گوری سوئے سیج پر سو مکھ پر ڈارو کیس

چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس

آخر کار دل کی اس بیقراری کو قرار آہی گیااور مرشد کے انتقال کے ٹھیک چھ مہینے بعد خسروؔکو بھی ۱۸، شوال ۷۲۵ھ (۱۳۲۵ئ) کو وصال یار نصیب ہوااور اپنے پیر کی پائنتی میں جگہ پائی۔

عظیم مصنف

خسرودرجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی مشہورکتابوں کے نام ہیں: تحفۃ الصغر، وسطالحیات، غرۃالکمال، بقیہ نقیہ قصہ چہار درویش۔ نہایۃالکمال، ہشت بہشت ۔قران السعدین، مطلع الانوار،مفتاح الفتوح ،مثنوی ذوالرانی-خضرخان،نہ سپہر، تغلق نامہ، خمسہ نظامی، اعجاز خسروی، خزائن الفتوح، افضل الفوائد ،خالق باری جواہر خسروی۔ لیلیٰ مجنوں، آئینہ سکندری،  شیریں خسرو