غریب خاندانوں کو مفت ویکسین ہی ویکسینیشن مہم کو تیزی دے سکتی ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-05-2021
 ویکسین کی مہم تیز ہو سکتی ہے
ویکسین کی مہم تیز ہو سکتی ہے

 

 

راوی دیویدی ۔نئی دہلی 

کورونا کے اس غیر معمولی پر آشوب دور میں ہندوستان کے سائنس دان مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے ملک کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، برطانیہ ، روس ، چین جیسے چنندہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا اور کورونا کی وبا سے لڑنے کے لئے ویکسین بنا کر دنیا کو ششدر کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے ملک کے اندر تیار کوویکسین سمیت تین ویکسینوں کے استعمال کی منظوری دے دی ہے اور اس طرح ویکسینیشن مہم کا تیسرا مرحلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس مرحلے میں 18 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کو قطرے پلاے جانے ہیں۔ اعدادوشمار کی بات کریں تو ، اب تک پوری دنیا میں ڈیڑھ کروڑ افراد کو ٹیکے لگ چکے ہیں۔ ویکسین کی پوری خوراک لینے والوں کی تعداد تقریبا 36 کروڑ ہے ۔

ویکسین لگانے کے معاملے میں مریکہ سب سے آگے ہے جہاں 27 کروڑ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے ۔ وہاں 12.3 کروڑ افراد یعنی 37.6 فیصد آبادی کو ویکسین کی پوری خوراک دے دی گئی ہے۔ امریکہ اب بچوں کو قطرے پلانے کی مہم بھی شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں اب تک صرف 18 کروڑ افراد کو قطرے پلائے گئے ہیں۔ دوسری خوراک لینے والوں کی تعداد 4.05 کروڑ ہے ، یعنی کل آبادی کا صرف تین فیصد ۔ تیسرے مرحلے کے آغاز کے ساتھ ہی ویکسینوں کی دستیابی پر ہی بحران کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بہت ساری ریاستوں میں ویکسین کی کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جن لوگوں نے ایک خوراک لی ہے انہیں وقت پر دوسری خوراک بھی مل جائے گی۔

دوسری طرف 18-44 سال کی عمر کے لوگوں کو ویکسین لگوانے کی مہم کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 135 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اتنی بڑی مہم کا بیک وقت چلایا جا نا آسان کام نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس شرح سے پوری آبادی کو ویکسین لگانے میں ساڑھے تین سے چار سال لگ جاییں گے ۔ کورونا کی دوسری لہر کے خوفناک روپ کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ویکسین لگانے میں اتنا وقت صدیوں کے انتظار کے مترادف ہوگا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ ویکسین ہماری قوت مدافعت میں کب تک اور کتنا اضافہ کرے گی لیکن ابھی کوو ڈ سے بچاؤ کا یہی واحد طریقہ ہے۔ ظاہر ہے آج سب سے بڑی ضرورت ویکسینیشن مہم کو تیز کرنے کی ہے اور مفت ویکسینیشن کے آپشن کو غربت کی لکیر (بی پی ایل) کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں تک ہی محدود کرنے کا منصوبہ ہی سب سے زیادہ موثر ہوسکتا ہے۔

سب کو مفت ویکسین دینے میں کیا حرج ہے؟

دنیا بھر میں کورونا ویکسین کو مفت دیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں بھی دیگر تمام قسم کی ویکسینیں بھی مفت میں ہی دی جاتی ہیں۔ یہ دلیل بظاہر وزنی لگ سکتی ہے کہ جب باقی ویکسینیں مفت لگتی ہیں تو کورونا کو بھی مفت رکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ویکسینیشن حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے ہی اس کی قیمت برداشت کرنی چاہئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کمزور بنیادی ڈھانچے کی موجودگی میں اور صحت پر جی ڈی پی کا صرف 3.5 فیصد خرچ کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ دوسری تمام ویکسینیں جو مفت لگتی ہیں ان کے لئے انفراسٹرکچر ایک دن میں تو تعمیر نہیں ہوا ۔ پھر اتنی بڑی آبادی کو ایک ساتھ ویکسین لگانے  کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوو ڈ ویکسین اب بھی ہر ایک کو مفت لگتی ہے۔ محدود تعداد میں نجی مراکز ویکسینیشن مہم میں شامل کئے گیۓ ہیں اور جو لوگ وہاں ٹیکے لگواتے ہیں انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس گنجائش کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ جو لوگ ویکسین کے خرچ کو برداشت کرسکیں ان سے معاوضہ بھی لیا جاسکے۔

 اگر پیداوار میں اضافے سے ویکسین آسانی سے دستیاب ہو گی

ہندوستان میں بنی ویکسین بھوٹان ، نیپال ، مالدیپ سمیت متعدد ممالک میں بھی برآمد کی گئیں۔ تاہم ، اگر ملک کی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں تو برآمدات کو کم کرنا ہوگا۔ ویکسین کی عدم فراہمی کی ایک بڑی وجہ مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی اپنی پیداواری استعداد بڑھانے میں ناکامی ہے۔ مینوفیکچروں کا کہنا ہے کہ اگر ان کا مالی ڈھانچہ مضبوط ہو جائے اس سے ویکسینوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ویسے ، حکومتی پالیسی میں حالیہ تبدیلی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ مرکز نے ویکسین بنانے والوں کو 50 فیصد ویکسین براہ راست ریاستوں اور نجی شعبے کو فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ مینوفیکچررز کے لئے ایک بہت بڑی راحت کی بات ہوسکتی ہے ، جو ریاستوں اور نجی شعبے کو تین گنا قیمت پر ویکسین فروخت کر سکیں گی۔

ظاہر ہے اس سے مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو ان کے اخراجات کا حساب لگانے اور ان کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی۔ بھارت بائیوٹیک کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین کرشنا ایم ایلا نے اشارہ دیا ہے کہ نجی شعبے کو ویکسین فروخت کرنے کی اجازت ملنے کے بعد اگر لاگت وصول ہونے لگے گی تو ہم اکتوبر تک بڑے پیمانے پر پیداوار کو بڑھانے کے قابل ہوں گے ۔ ویسے ویکسینوں کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح انتظام کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اس کام میں نجی شعبے کی شرکت میں اضافہ ایک موثر اقدام ہوسکتا ہے۔

ظاہر ہے مفت ویکسینیشن سسٹم کے ساتھ مضبوط فریم ورک بنانا آسان کام تو نہیں ہوگا۔ تاہم کوو ڈ ادویات اور آکسیجن سلنڈر وغیرہ کی حالیہ بلیک مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے ، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ویکسین سب کے لئے آسانی سے دستیاب ہوں اور لوگ اس کی قیمت بھی برداشت کرے سکیں ۔ کیا اہل افراد خرچ کی ادائیگی کرسکیں گے؟ ایک رپورٹ کے مطابق نجی شعبے کے مینوفیکچررز سے براہ راست ویکسین لینے کے قابل ہونے کے بعد نجی اسپتالوں نے رواں ماہ تقریبا 80 لاکھ خوراکیں خریدی ہیں۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ ویکسین جلد ہی دوائیوں کی دکانوں میں بھی دستیاب ہوجائے گی۔ اس سے 18-44 سال کی عمر کے لوگوں کو اندراج کرنے اور مفت سرکاری ویکسین کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ اس کے بعد ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ کتنے لوگ پیسے دے کر ویکسین لگوانے کو ترجیح دیں گے۔

بظاھر ایسا لگتا نہیں ہے کہ اگر حکومت صرف بی پی ایل کے لئے مفت ویکسین کا بندوبست کرے تو صاحب استطاعت اخراجات برداشت کرنے کی مخالفت کریں گے۔ جو لوگ اپیل پر رضاکارانہ طور پر گیس کی سبسڈی چھوڑ سکتے ہیں وہ اس بار بھی مایوس نہیں کریں گے۔ اگر مفت ویکسین کے منصوبے کو 40.7 کروڑ بی پی ایل آبادی تک ہی محدود رکھیں جیسا کہ نیتی ایوگ نے سپریم کورٹ میں اس تعداد کی نشان دہی کی ہے ، تو بری طرح سے معذور صحت کے انفراسٹرکچر پر بوجھ بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔