اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں
اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

 


AWAZ

 

پروفیسر اخترالواسع

اردو کے حوالے سے ان تمام پریشان کن اور تکلیف دہ باتوں کے بیچ کچھ اچھی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے باوجود کورونا وبا کے منفی اثرات اور دیگر پریشانیوں کے رہتے ہوئے بھی مہاراشٹرا کے مالیگاؤں شہر میں ایک ۹؍دن کااردوکتابی میلا لگایا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی تاریخ میں یہ میلا اس اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل رہا - اس میں مالیگاؤں ہی نہیں آس پاس کے علاقوں سے بھی اردو کے شائقین بڑی تعداد میں آئے-

قومی کونسل کے جواں سال ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً ۹؍دن میں سَوا کروڑ روپئے کا کاروبار ہوا اور خاص طور پر خواتین نے جس طرح سے دلچسپی دکھائی، خریداری میں حصہ لیا وہ ایک انتہائی خوش آئند بات تھی۔ بچوں کے رسالے گل بوٹے کے مدیر جناب فاروق سید جو اس میلے میں شروعسے شریک رہے انہوں نے اس بات پر غیرمعمولی خوشی کا اظہار کیا کہ بچے بڑی تعداد میں نہ صرف میلے میں آ رہے تھے بلکہ وہ اپنے ذوق و شوق کے مطابق کتابوں کی خریداری بھی کر رہے تھے۔

مالیگاؤں کے اس کتابی میلے میں یہ پہلو ضرور افسوس کے قابل تھا کہ یونیورسٹی، کالج اور اسکولوں کی لائبریریوں کے لئے فنڈ مختص نہ ہونے کی وجہ سے علمی و ادبی کتابوں کی اس طرح خریداری نہ ہو سکی جیسی ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر، ان کے رفقاء کار اور مالیگاؤں کے رہنے والوں کو دلی مبارکباد۔ جب تک اردو کے ایسے شائقین موجود ہیں، خاص طور سے عورتوں اور بچوں کی صورت میں اس وقت تک اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور مالیگاؤں والوں کے اردو سے عشق سے دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤوالوں کو سبق لینا چاہیے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤوالوں کو مالیگاؤں والوں سے اردو کے حوالے سےسبق لینا چاہیے تو کچھ لوگ ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں اور وہ شاید نہیں جانتے کہ جب ہم کوئی ایسی بات کہتے ہیں تو انتہائی دکھے دل سے کہتے ہیں کیوںکہ ہم بھی دہلی اور لکھنؤ کے بیچوں بیچ رہنے والوں میں سے ہیں۔ ہمیں بھی ہمارے گھر والوں نے پہلے گھر پر ہی مولوی اسماعیل صاحب کی پانچوں اردو ریڈر پڑھوائیں، تختی لکھنا سکھوایا۔ اس کے بعد پھر باقاعدہ رسمی تعلیم کے لئے چوتھی جماعت میں اسکول میں داخل کرایا۔ لیکن اب ہمارا اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اردو کے سلسلے میں کیا رویہ ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

دہلی میں تو تھوڑا بہت اردو تعلیم کا اسکولوں میں چلن بھی نظر آتا ہے لیکن یوپی میں تو صورتحال اور زیادہ سنگین ہے۔اردو اخبارات کی اشاعت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سڑکوں کو تو چھوڑیے، گھروں کے دروازوں، دکانوں کےبورڈوں پر بھی اردو نظر نہیں آتی اور اس سے بھی زیادہ سوہان روح اردو والوں کا یہ رویہ ہے کہ قبرستانوں میں لوحِ مزار بھی اردو میں نہیں ہندی میں نظر آتے ہیں۔ میری نظر میں یہ لوحِ مزار قبر میں سو رہے ہمارے پیاروں کے نہیں بلکہ اردو زبان کے ہیں۔

پہلے ہمارے گھر والے اور ہمارے بزرگ ہمیں موقع بہ موقع کسی بہانے سے انعام یا تحفے کی شکل میں اردو کے بچوں کے رسالے یا ان کے لئے تیار کی گئی کہانیوں کی کتابیں دیتے تھے لیکن اب مہنگے سے مہنگا تحفہ دیا جاتا ہے مگر اس میں کتاب نہیں ہوتی ہے اور خاص طو رسے اردو کی کتاب نہیں ہوتی ہے۔ جب اردو والوں سے پوچھو کہ اردو سے یہ دوری اور بے اعتنائی کیوں ہے؟ تو وہ فوراً کہتے ہیں کہ اردو کا رشتہ پیٹ (یعنی روزگار)سے تو ہےنہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے اور کیسے بتائے کہ چار چیزوں کا رشتہ معدہ سے نہیں دل سے ہونا چاہیے۔ ایک ماں، دوسرے مذہب، تیسرے ملک اور چوتھے مادری زبان۔ گھر میں فریج رکھنے کے لئے جگہ تنگ ہوگی تو کیا ہم جگہ کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے اپنی ماں کو گھر سے نکال دیںگے؟

اردو کا یہ تکلیف دہ منظرنامہ شمالی ہند تک ہی محدود ہے۔ بہار والوں نے تو لڑ جھگڑ کر اردو زبان کے لئے گنجائشیں پیدا کرا لیں۔ مہاراشٹرا میں اردو خاصی پھل پھول رہی ہے۔ تلنگانہ، کرناٹکا اور انتہا یہ کہ تامل ناڈو کے بعض اضلاع میں اردو اسی طرح پھل پھول رہی ہے جیسے کبھی دہلی کے اردو بازار اور لکھنؤکے امین آباد میں۔

 یہ بھی کم دلچسپ بات نہیں کہ اردو کے صفِ اول میں جو اس کے بنیاد گزار ہیں، ان میں سے بڑی تعداد ان کی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اردو کا ہمارے زمانے میں سب سے بڑا نقاد اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ، جن کی مادری زبان سرائی کی ہے۔ اردو کو کمپیوٹر سے جوڑنے والے ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ کی مادری زبان کشمیری ہے۔ اردو کی دنیا میں سب سے بڑی ویب سائٹ ریختہ سنجیو صراف کا کارنامہ ہے جن کی مادری زبان راجستھانی یا ہندی ہے۔

اردو میں مشاعروں کی تہذیب کو نیا رنگ اور آہنگ دینے والی جشن بہار ٹرسٹ کی بانی کامنا پرساد ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اسی طرح جشن ادب کی تنظیم کو قائم کرنے والے اور اس کا سالانہ اہتمام کرنے والے کنور رنجیت چوہان ہیں۔ ان کی بھی مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ ان تمام حقائق کےباوجود ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں اور خود غرضی کے تحت یہ نعرہ لگایا اور ہم نے اس پر یقین بھی کر لیا اور یہ بھول گئے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، ہر مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ (جاری۔۔۔)

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)