محبت کا آئینہ ہے، تصوف

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 04-06-2023
محبت کا آئینہ ہے، تصوف
محبت کا آئینہ ہے، تصوف

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

                ”تصوف“ کی تشریح مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے مگر اس موضوع پر لکھی گئی تمام کتابوں اورصوفیہ کے مکتوبات وملفوظات نیز ان کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اس کا جو مفہوم سامنے آتا ہے اگر اسے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہوگا ”محبت“۔ حالانکہ محبت خود اپنے آپ میں ایک ناقابل فہم موضوع ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا ناممکن ہے۔اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔

محبت معنیٰ والفاظ میں لائی نہیں جاتی

یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی

                صوفیہ کرام”محبت“ کو صرف تصوف ہی نہیں،دین وشریعت کی بھی اساس مانتے ہیں۔ان کے خیال میں کائنات اور تمام مخلوقات کا وجود عشق ومحبت سے ہے اور عشق محبت کے لئے ہے۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’روضۃ المحبین و نزہۃ المشتاقین‘ کے ابتدائی صفحات میں تحریر فرماتے ہیں:

    ”پاک ہے وہ ذات جس نے محبت کی طرف دلوں کو جب چاہا اور جیسے چاہا پھیردیااوراس محبت کے ذریعے اپنی حکمت کے ساتھ اس چیز کو نکالا جس کے لئے ہرجاندار کو پیداکیاگیاہے اور محبت کی مختلف انواع واقسام کی تعریف وتفصیل کو مخلوق کے درمیان عام کیااورہرمحبوب کے لئے اس کے محبوب کی محبت سے حصہ مقرر کیا،خواہ وہ اپنی محبت میں درست ہویا غلط۔اوراس محب پر محبت کی وجہ سے انعام کردہ یا اسے مقتول بنا دیا،اور اس محبت کو ایسا تقسیم کیا کہ بعض کو اپنی ذات سے محبت کرنے والا بنادیا،بعض کو بتوں،بعض کو آگ سے اور بعض کو صلیبوں سے،کچھ کو وطنوں کا محب بنادیااورکچھ کوبھائیوں کا۔کسی کو عورتوں کا دلدادہ بنادیا تو کسی کوبچوں کا۔کسی کو اموال کا گرویدہ بنادیا تو کسی کو ایمان کا۔کسی کو موسیقی کا عاشق بنادیا تو کسی کوقرآن کا۔۔۔لیکن اللہ،اسکی کتاب اور رسول سے محبت کرنے والوں کوتمام محبت کرنے والوں پرزبردست فضیلت بخشی۔محبت کے لئے اور محبت کی وجہ سے زمین وآسمان کو پیدا کیاگیااورتمام مخلوقات کی تخلیق بھی اسی وجہ سے ہے اور محبت کے لئے ہی افلاک کا دائرہ حرکت میں ہے۔اور اسی کے لئے حرکات اپنی انتہا کو پہنچتی ہیں،اور اپنی ابتدا کو انتہا سے ملاتی ہیں،اور اسی کی وجہ سے دل اپنے مقصود کو حاصل کرتا ہے اوراپنے مطلوب تک رسائی حاصل کرتاہے اور ہلاکتوں سے خلاصی پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے کواختیار کرتا ہے۔“  

       صوفیہ کے ہاں اصل محبت تو خالق حقیقی کی محبت ہے اورمجازی محبت بھی اس کی معرفت کا ذریعہ ہے۔صوفیہ کا تصور ’ہمہ اوست‘ اسی عشق ِ حقیقی کانتیجہ ہے۔وہ ذات باری تعالیٰ میں اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ کائنات کے ذرے ذرے میں ’نورِحق‘ کا مشاہدہ کرتے ہیں اورہرچیز میں جمالِ ذات وصفات دیکھنے لگتے ہیں۔بیخودی کی یہ کیفیت کبھی کبھی انھیں اس منزل تک پہونچادیتی ہے،جہاں خود اور خدا کا فرق مٹ جاتا ہے اور ہرطرف ”نورِ وحدت“ کا نظارہ ہوتا ہے شاید ایسی ہی کیفیت میں بعض صوفیہ نے ’اناالحق‘ کا نعرہئ مستانہ بلندکیاتھا۔

                صوفیہ کی نظر میں انسان خالق کی شاہکار ہے۔خدا اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں بھی اس کی صفات کی جھلک نظرآئے۔اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے،وہ جمیل ہے اور جمال اسے محبوب ہے۔وہ عالم وعلیم ہے اور علماء اس کی نظر میں افضل ہیں۔اللہ سخی ہے اور اسے سخاوت کرنے والے پسند ہیں۔خداکو ایک کمزورکے مقابلے طاقت ورمومن محبوب ہے۔وہ حیا کرنے والا ہے اور باحیا بندوں کو پسند کرتا ہے۔وہ وعدہ پورا فرمانے والا ہے اور پابندِعہد بندے اسکی نظر میں محبوب ہیں۔وہ شکور،صادق اور محسن ہے اسے ان صفات کے حامل بندے پسند ہیں۔

                معروف صوفی حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ،میں نے حارث محاسبی کو فرماتے سنا،محبت تیرا کسی بھی چیز کی طرف مکمل طورپرپھرجانااورمائل ہوجانا ہے پھرتیرا اس کو اپنی جان،روح اورمال پر ترجیح دینا پھراعلانیہ اورخفیہ اس کی موافقت کرنااورپھر اپنی محبت کو کوتاہ سمجھنا۔  (روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین)

                حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں،جس کو محبت عطا کی گئی لیکن اس کی مثل خشیت عطا نہ ہوئی توایسا آدمی دھوکہ کا شکار ہے۔(ایضا)

                معروف صوفی حضرت یحیٰ بن معاذ کہتے ہیں:

                محبت کا ایک ذرہ ستر سال کی عبادت سے بہترہے۔

                وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

                 وہ شخص سچا نہیں جو اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور پھراسکی حدوں کی حفاظت نہ کرے۔(ایضا)

                اللہ کے وہ بندے جواپنے معبود سے سچی محبت کرتے ہیں، انھیں ولی یااللہ کا دوست کہاجاتاہے۔ان بندوں سے خود اللہ بھی محبت کرتا ہے۔ ان کے تعلق سے بخاری شریف کی ایک حدیث ہے،جس کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں۔رسول محترم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

        ”جو میرے ولی کی توہین کرتا ہے وہ مجھ سے اعلانِ جنگ کرتا ہے،اور بندہ فرائض کی ادائیگی کے علاوہ کسی چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کرسکتااور بندہ نوافل سے میرے قرب کو بڑھاتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں،جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے،لہٰذا وہ مجھ سے سنتا ہے،مجھ ہی سے دیکھتا ہے،میرے ذریعے پکڑتا ہے اور میری دی ہوئی طاقت سے چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے مانگے تومیں اسے عطا فرماتا ہوں،اگر وہ مجھ سے پناہ چاہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور میں کسی چیز میں ترددنہیں کرتا،سوائے اپنے اس مومن بندہ کی موت کے جو موت کو ناگوار سمجھتا ہے اور مجھے اس کی موت کی برائی ناپسند ہے حالانکہ موت تواس کے لئے ضروری ہے۔

                ذرا بندے کی محبوبیت کا عالم تو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا خود کیسے اس کی محبوبیت حاصل کرلیتا ہے گویا اب محبت کرنے والا خود محبوب بن جاتا ہے اور اس کی ناز برداری ایسی ہورہی ہے کہ خالق کی مرضی بھی شامل ہوگئی ہے اور جو بندہ چاہتا ہے مالک اسے پورا فرمادیتا ہے۔

                حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ محبت الٰہی کے تعلق سے کیا نظریہ رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوجاتا ہے جسے ابن قیم علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے۔

                ”ابوبکرکتانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حج کے زمانے میں محبت الٰہیہ کی حقیقت کا مسئلہ زیربحث آگیا۔شیوخ نے اس بارے میں بحث فرمائی۔جنید بغدادی علیہ الرحمہ، عمر میں ان سب سے چھوٹے تھے۔شیوخ نے فرمایا اے عراقی!تم بولو،محبت الٰہیہ کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ انھوں نے اپنا سرجھکا لیا،آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،پھر فرمایا ایک ایسا آدمی جواپنے نفس کو چھوڑچکاہو،اپنے رب کی یاد سے مل چکاہو،اس کے حقوق کو دلجمعی سے ادا کررہاہو،اپنے دل کی نگاہ سے اسے دیکھ رہا ہو،اللہ کی ذات میں مشغولیت کے انوار سے اس کا دل جل چکاہو،اس نے محبت الٰہیہ کاجام انڈیل لیا ہو،اگر بولے تو اللہ کو بولے،اگر گفتگوکرے تو اسی کے بارے میں،اگرحرکت کرے تو اللہ کے امر سے،اگر خاموش رہے تو اللہ کی وجہ سے،وہ اللہ کاہو،اس کے لئے ہو،اس کے ساتھ ہو۔

                صوفیہ کی نظر میں محبت،ایمان وایقان کی بنیاد ہے۔جنت کی کنجی ہے۔ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے مگرسب سے افضل محبت،محبتِ الٰہیہ ہے اور سب سے زیادہ مسرور کن دیدار،دیدارِ جمال خداوندی ہے۔دنیا کے حسینوں کا حسن اللہ کا عطاکیاہوا ہے۔یہ حسن جب اتنا پرکشش ہے کہ دیکھنے والے نظریں ہٹانے کو تیار نہ ہوں توخالقِ حسن کے جمال کا عالم کیا ہوگا؟جس کے متعلق فرمایا گیا کہ ’اللہ جمیلٌ ویحب الجمال‘۔یقینا اللہ جمیل ہے اور ایسا جمیل ہے کہ اس جیسا صاحبِ جمال کوئی دوسرا نہیں۔اللہ کا ایک صفاتی نام جمیل بھی ہے۔ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر حسن وجمال والا کون ہوسکتاہے،جسکی کاریگری نے کائنات کے ذرے ذرے میں جمال کے خزانے بکھیردیئے ہیں۔مسلم شریف کی حدیث ہے،حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ کے سامنے نور کا پردہ ہے اگر وہ اٹھادے تو اس کے چہرے کے انوار حدِ نگاہ تک اس کی مخلوق کو جلاکر بھسم کردیں۔“ اسی حسن کا ایک پرتوطور پر ظاہرہوا تھا توقیامت برپا ہوگئی تھی۔ ہرطرف سے صدائے الاماں بلند ہونے لگی تھی۔

                عشق حقیقی کے تعلق سے اہلِ دل نے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے۔انکی نظر میں عشق کی معراج دیدارِمحبوب ہے، لیکن اگر محبوب نے شربتِ دیدار نہیں پلایا تو بھی یہاں ناشکری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے،بلکہ اس سے تڑپ میں مزید زیادتی ہوتی ہے۔

جنت میں بھیج یا مجھے دوزخ میں ڈال دے

جلوہ دکھا کے پر مری حسرت نکال دے

          ابنِ قیم نے اس سلسلے میں اپنی مشہورزمانہ تصنیف ’روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین‘ میں کئی صوفیہ کے اقوا ل درج کئے ہیں جو رہروانِ راہِ سلوک کی مستانہ روی کا پتہ دیتے ہیں۔حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ کو فرماتے سنا:

       ”شوقِ خداوندی جب عارف میں متحقق ہوتو یہ سب اس کا سب سے عالی شان مقام ہے۔جب اس میں شوق پیدا ہوجاتا ہے تو وہ ہراس چیز سے توجہ ہٹالیتا ہے،جواس کو اس کے شوق سے غافل کردے۔

                یونہی جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ جب محبوب سے محب کی ملاقات ہوتی ہے تووہ روتا کیوں ہے؟فرمایا یہ اس کی ملاقات کے شوق کے سروراوردرد کی وجہ سے ہوتا ہے۔

                حضرت سفیان ثوری کا مشہور واقعہ ہے کہ انھوں نے حضرت رابعہ بصریہ سے پوچھا کہ آپ کے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟انھوں نے فرمایا،میں نے اللہ کی عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی محبت میں نہیں کی کہ میراحال برے مزدور کے جیسا ہوتابلکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق میں عبادت کی۔ (احیاء العلوم،چہارم،صفحہ۹۸۶)

                محبت الٰہی کی لذت کو وہی پہچان سکتاہے جسے اسکی معرفت عطاہوئی۔سونگھنے کی طاقت سے محروم انسان خوشبو کااحساس نہیں کرسکتا۔آنکھوں کی بینائی سے محروم شخص کے لئے حسین نظاروں اورخوبصورت رخساروں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔بہرا،آواز کے جادواور موسیقی کی لطافت سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔اسی طرح عشقِ الٰہی کی لذت بھی عاشق ہی محسوس کرسکتے ہیں۔

عشق سے عشق،محبت سے محبت مجھ کو

اس قدر ذوقِ بلا،شوقِ مصیبت مجھ کو