اشتعال کے خلاف اوزار تصوف اور بھکتی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 09-01-2023
اشتعال کے خلاف اوزار تصوف اور بھکتی
اشتعال کے خلاف اوزار تصوف اور بھکتی

 

 

آواز دی  وائس : نئی دہلی 

 ’کیا تصوف ، بھکتی اوربھکت بانی‘فرقہ وارانہ اشتعال کا کاٹ ہوسکتا ہے؟ اس سوال پر آوازدی وائس کے اسٹوڈیو میں دانشوروں کے درمیان ایک گفتگو ہوئی جس کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر انیتا پانیوال نے سوال کیا کہ روحانیت ہندوستانی روایت کا اہم حصہ رہی ہے، کیا آج بھی اس کی معنویت قائم ہے؟ اگر آج کے دور میں ماضی کی روحانی روایات کو زندہ کریں تو نفرت اور بھید بھائو کو نہیں ختم کیا جاسکتا؟ انہوں نے انسانوں کے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کرنے پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جب کہ ڈاکٹر رضی الدین عقیل پروفیسر دہلی یونیورسٹی نے صوفی نظریات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ صوفی رسول کی پیروی کرتے ہیں اور وہ خدا کی محبت میں یقین رکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اللہ نے سب کو بنایا ہے لہٰذا انسانوں کے بیچ تفریق نہیں کرسکتے کہ دوسرے مذہب والے الگ ہیں ۔ انسان اور دوسری مخلوقات ہیں ، تین لاکھ چوراسی ہزار مخلوقات ہیں، ان میں انسان اشرف المخلوقات سمجھا جاتا ہے۔پھر جو ہندو مسلمانوں کے بیچ یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کے درمیان بھید بھائو لانے کی کوشش کی جاتی ہے،صوفی ان سے ہمیشہ آزاد رہے ہیں۔

وہ سوچتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کا بنایا ہوا ہے تو اس کی بنائی ہوئی ہر چیز سے آپ محبت کرسکتے ہیں، عشق کرسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فکر تصوف کا محور محبت ہے۔دوسرے مذاہب اور بھکتی جیسے نظریات کا زور بھی محبت اور رواداری پر ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہد حاضر اور ایک ہزار سال کی روحانی روایتوں کے سرچشموں کی مرکزیت میں تصوف ہے۔ سبھی سنتوں اور گرووں اور صوفیوں کا یہی مذہب ہے۔ رضی الدین عقیل نے مساوات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ بھکتی میں سمانتا پر اتنا زور ہے۔ ہم صوفیوں کو بھی ہندوستانی روایات سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔صوفیوں کے اشغال میں سے بعض سادھووں سے لی گئی ہیں۔ چلہ ماخوذ سادھووں سے لی گئی ہے ۔

انہوں نےبابا گورکھناتھ کے نظریہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باباگورکھ ناتھ کہتے ہیں کی صوفی درویش، اللہ کی جاتی کے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے دروازے کو جھانکتے ہیں۔ اس قسم کے سوال بھی ہیں کہ ان کی روایات کتنی ہندوانہ ہے اور کتنی مسلمانی ہے؟ مگر وہ پرکٹس کر رہے ہیں تو اس قسم کی سوچ سے اوپر اٹھ کر پرکٹس کر رہے ہیں۔ بابا گورکھناتھ نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ

اُت پتی ہندو جگنم جوگی ،اکلی پری مسلمانی

یعنی جنم سے تو ہم ہندو ہیں مگر جو روحانیت اپنائی ہے تو یوگی بنے ہیں اور ایسا کرنے میں ہم مسلمانوں کے قریب پہنچے ہیں۔ یہ بارہویں صدی کی بات ہے جب مسلمانوں نے اچھا پولٹیکل سسٹم فروغ دیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ بعد میں کیا ہوا تھا۔ صوفیوں نے بھی امرت کنڈ وغیرہ کو لے کر بتانے کی کوشش کی کہ جو ’الکھ نرنجن‘ کا کانسپٹ ہے۔ ایکیشورواد(توحید) میں جو آتا ہے۔۔۔صوفی ازم بہت واضح ہے کہ صوفی اوپر والے سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر اوپر والے نے جنھیں بنایا ہے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔

awazurdu

عقیل کے مطابق نظام الدین اولیا خدمت خلق میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے یہاں کا دستور رہا ہے پہلے سلام، پھر طعام اور پھر کلام۔

اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر دلجیت کور نے بھکت بانی کی وضاحت کی اور اس کی لسانی وتہذیبی اہمیت کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ گروگرنتھ صاحب میں بھکت بانی ہے۔جس میں پندرہ سکھ گرووں کی بانی ہے اور پندرہ بھکتوں کی بانی ہے۔ اس میں لسانی تنوع ہے کیونکہ وہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سنت نامدیو مہاراشٹر سے تھے۔ جے دیو، کبیر کو لے لیجئے۔

اس کا آغازبارہویں صدی میں بابافرید سے ہوتا ہے۔انہوں نے جس مشن کی بات کی، کبیر اسی بارے میں کہتے ہیں:

اول الله نور اپایا قدرت کے سب بندے

ایک نور تھے سب جگ اپجیا کون بلے کون مندے

اور یہی زبان بارہویں صدی میں بابا فرید کے یہاں ملتی ہے

فریدا خالق خلق میں خلق وسّے رب مانہہ

مندا کِس نُوں آکھیے جاں تِس بن کوئی

 ایک ہی زبان کو ہم مختلف ادوار میں دیکھ رہے ہیں۔ایک زبان بارہویں صدی میں بولی جارہی ہے اور اسی کا تسلسل ہم سولہویں صدی میں بھی دیکھ رہے ہیں اور آج بھی ہم اسی کی کھوج میں ہیں۔

ڈاکٹر دلجیت کور نے کہا کہ گرونانک جی نے بہت سے سفر کئے ہیں۔ وہ پاک پٹن بھی گئے۔ حالانکہ بابافرید اور گرونانک جی کے درمیان تین صدیوں کا فاصلہ تھا۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بھکت بانی میں سب کی بانی کہاں سے آگئی؟ گرونانک جی جہاں جہاں گئے بانی اکٹھی ہوئی اور پھر اسے کمپائل کیا گیا۔

گرونانک جی نے اس بات پر زور دیا کہ ہم ڈائلاگ کریں۔ لوگ آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔ بانیوں کے معاملے میں سیاحوں کا اہم کردار تھا ، لوگ انہیں موسیقی کے ساتھ سناتے تھے۔

موسیقی کے سبب ان کے بیچ بھید بھائو نہیں رہا۔ اس وقت تو ہوتا ہی نہیں تھا۔ اس وقت تو ہندو ،مسلمان ہوتا ہی نہیں تھا۔ موسیقی سب میں مشترک ہے۔ اکتیس راگ۔میرے خیال سے سنگیت ایسی زبان ہے جو ہر ایک کو سننے میں اچھی لگتی ہے۔

سنگیت کی معرفت بہت سی باتیں بول دی جاتی ہیں اور وہ دل کو چھوتی ہیں۔ میرے خیال میں جو موسیقی لائی گئی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ سنگیت کے ساتھ گاتے ہیں تو باہر کے شور شرابہ سے بچ جاتے ہیں۔روحانی رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر دلجیت کور کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رضی الدین عقیل نے کہا کہ سبھی روحانی روایتوں میں موسیقی اہم ہے۔ قوالی میں الفاظ اچھے ہوتے ہیں اور سنگیت بھی اچھی ہوتی ہے۔

انسانی کلاسیکل روایت میں امیر خسرو کی اہمیت مرکزی ہے۔ میرا خیال ہے کہ صوفیوں کی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بھی موسیقی ہے۔

awazurdu

موجودہ دور میں سماج میں مذہب کے نام پر اشتعال کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عقیل نے کہا کہ دھارمک اشتعال سیاسی ہے۔ آج جو کچھ منافرت ہے وہ سیاسی ہے۔ عوام میں نہیں ہے۔ ہمیں لگتا ہے ایسا کسی زمانے میں تھا۔مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے سماج کو اس سے بڑا خطرہ ہے۔

اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کی ڈاکٹر نوپما سریواستونے بھکتی پر بات کی اور کہا کہ سب سے پہلے ہمیں بھکتی کی بات سمجھنی چاہئے کہ بھکتی ہے کیا؟ بھکتی کا مطلب ہوتا ہے’خدمت‘۔ اور دوسری چیز جو بھکتی میں آتی ہے وہ ہے پریم اور تیسری چیز ہے مساوات۔ تلسی داس اور بھکتی کا کانسپٹ ’مساوات‘ پر مبنی ہے۔ مساوات سادھنا پر مبنی ہے۔ نرگن کی جہاں تک بات ہے تو کبیرداس کہتے ہیں:

جاتی پاتی کو پوچھے نہیں کوئی

ہری کو بھجے سو ہری کا ہوئی

تلسی داس بھی وہی بات کہتے ہیں کہ انہیں بھی جاتی پاتی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بنارس میں ایک راج گھاٹ ہے، وہاں پر سبھی طبقوں کے لوگ جاکر اشنان کرتے ہیں۔ تو تلسی اپنے عہد کے ایک ایسے شاعر ہیں جو لوگوں کے اندر مساوات کی بات کرتے ہیں۔ وہ وشنو کے اوتار رام کی بات کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ رام ان کا آدرش کس طرح بنتے ہیں؟

اگر وہ رام راج کی بات کرتے ہیں تو اس طرح کہ یہاں کوئی بھید بھائو نہیں ہے۔ کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ کسی طرح کا اندھ وشواس نہیں ہے۔ سب برابر ہیں۔ بھکتی کا مطلب ہی ہے کہ وہ سب کے لئے ہے۔تلسی داس اور کبیر داس کے یہاں سب برابر ہیں۔ انوپما نے کہا کہ سماجی سدھار کی بات بھی کرتا ہے بھکتی مومنٹ۔ کبیر کی بات آج بھی بامعنیٰ ہے۔

موکو کہاں ڈھونڈے رے بندے میں تو تیرے پاس رے

نا میں دیول نا میں مسجد نا کعبے کے لاس رے