سعودی عرب اور ہندوستان مضبوط اور مستحکم رشتے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-09-2021
تئیس ستمبر سعودی عرب کا یادگار قومی دن اور ہندوستان
تئیس ستمبر سعودی عرب کا یادگار قومی دن اور ہندوستان

 

 

awaz

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

 تئیس(23) ستمبر وہ تاریخی دن ہے جب سعودی عرب میں 91/سال پہلے ایک نئی سیاسی تبدیلی ظہور پذیر ہوئی۔ جس تبدیلی کا مقصود جزیرہ نما عرب کو ترکوں کے تسلط سے آزاد کرانا ہی نہیں تھا بلکہ تمام قبیلوں ان کی کثرت کو چھیڑے بغیر انہیں ایک رشتہئ وحدت میں پرونا بھی تھا۔ ملک عبدالعزیز نے ایک نئی ریاست کو وجود میں لانے کے لئے ہر ممکنہ تدابیر کیں۔

اپنی اولادوں کو نئی مملکت کو نئی سمت اور جہات دینے میں لگا دیا۔ 91سال میں اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب نے غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ تعلیم ہو یا تجارت، زراعت ہو یا سیاحت، سعودی عرب نے جزیرہ نما عرب میں ایک صدی پہلے والے جمود کو یکسر توڑ کر ایک نیا رنگ و روپ حاصل کیا۔ جہاں پہلے اوٹنوں پر سفر کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا وہاں شاہ عبدالعزیز کے زمانے سے جس طرح سڑکوں کا جال بچھایا گیا، دن بہ دن انہیں نئی وسعتیں اور طول طویل منزلوں سے ہم آہنگ کیا گیا، وہ آج سعودی عرب کو دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک کا ہمسر بناتا ہے۔

سعودی عرب میں جو تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں وہ خاصی دلچسپ ہیں۔ سعودی عرب اپنے معاشرے کی قبائلی خصوصیات سے مکمل طور پر دست بردار ہوئے بنا تبدیلی اور ترقی کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور اس کا سہرا بجا طور پر ملک سلمان اور ان کے ولی عہد اور جانشین محمد بن سلمان کو جاتا ہے۔

یہاں ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان تبدیلیوں کا آغاز ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کے زمانے سے ہو گیا تھا جنہوں نے سعودی معاشرے میں پائی جانے والی سختیوں کو اور وہ بھی خاص طور پر خواتین کے سلسلے میں، نرمی کا آغاز کیا تھا۔ خواتین کی تجارت میں شراکت کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ ان کی تعلیم کے لئے خصوصی ادارے قائم کیے۔

آج کے ملک سلمان اس وقت کے ملک عبداللہ کے ولی عہد اور جانشین تھے اور ملک عبداللہ نے سعودی معاشرے میں جن آزادیوں کی راہ ہموار کی تھی وہ اس میں برابر سے شریک تھے۔ آج سعودی عرب کے باہر وہاں وقوع پذیر تبدیلیوں پر جو لوگ ناک بھوں سکوڑتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سعودی عرب میں جو نوجوان نسل ہے وہ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان میں سے بڑی تعداد نے مغرب میں تعلیم حاصل کی ہے۔

وہاں کے معاشروں میں پائی جانے والی آزادیِ فکر، جمہوری کردار اور کسی حد تک جنسی مساوات کا بہ غور مشاہدہ اور براہِ راست تجربہ بھی کیا ہے اور اس کو بڑی حد تک پسند کرنے کی وجہ سے اپنے ملک اور معاشرے میں بھی اسے روا رکھنا چاہتے ہیں اور ولی عہد محمد بن سلمان اسی نسل کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اور ان کے خوابوں کو شرمندہئ تعبیر بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اسی لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ سعودی عرب، جہاں کبھی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مذہبی فرائض کے لئے حاضری کے علاوہ کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں اب سیاحت کے لئے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور خاص طور سے اردن کی سرحد کے قریب تبوک، مدین، العُلا آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لئے خاصی کشش رکھتے ہیں۔

امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ طائف، خیبر، بدر اور حدیبیہ بھی اسلامی سیاحت کے نقشے پر بہت جلد نمایاں ہو جائیں گے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے سعودی معاشرے میں وہاں کی خواتین کے لئے ذمہ داریوں کے نئے افق وا ہو رہے ہیں۔

امریکہ میں آلِ سعود کی ایک بیٹی پہلی دفعہ سفیر مقرر ہوئی ہے۔ جہاں کل تک عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی، آج وہاں خواتین ملک کی معیشت کو فروغ دینے اور آگے بڑھانے میں قائدانہ رول ادا کر رہی ہیں۔ وہ مختلف اور بلند پایہ اداروں میں کلیدی عہدوں پر نہ صرف فائز ہیں بلکہ اپنے ملک کی معیشت، معاشرت، سماجی اقدار اور سیاسی نظام کو ایک نئی سمت اور رفتار دینے میں نمایاں رول انجام دے رہی ہیں۔

سعودی عرب جس کے تمول اور ثروت کا سارا دارومدار اب تک پیٹرول پر منحصر تھا، اب انہوں نے مستقبل کے لئے معاشی فراغت کے واسطے متبادل انتظامات کرتے ہوئے نئی صنعتوں کو بھی لگانا شروع کر دیا ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔ سمندری پانی کے کھاری پن کو دور کرکے زرعی ضرورتوں کی کفالت کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

ملک کے معاشی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے غیر ملکی شہریوں کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لئے کفیل اور کفالت کے پرانے نظام کو ایک طرح کالعدم قرار دے دیا گیا ہے اور اب دنیاکا کوئی بھی شہری سعودی عرب میں صنعت و حرفت کے میدان میں نئے ادارے قائم کر سکتا ہے اور وہاں کی اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں میں آزادانہ طور پر حصہ لے سکتا ہے۔ سعودی عرب نے خارجہ پالیسی میں بھی اپنی آزادی اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ اور اپنے مغربی حلیفوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے سرے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی جرأت اور ہمت والا فیصلہ ہے۔

اسی طرح ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ بیان کہ وہ ایران سے بھی بہتر تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں ایک صحیح سمت میں صحیح سوچ کا غماز ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کا سعودی عرب بیسویں صدی کے نصف آخر کا سعودی عرب نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ سعودی عرب میں جو نئی نسل پیدا ہوئی، پنپی، مغرب میں تعلیم سے آراستہ ہوئی اور پروان چڑھی، وہ مغرب سے تہذیبی اور ثقافتی سطح پر متاثر تو ہو سکتی ہے لیکن اپنے معاشی مفادات اور سیاسی ضرورتوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔

ہندوستان اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے ہی پرانے ہیں جتنا خود مملکت کا وجود۔ ملک عبدالعزیز نے سعودی عرب کے وجود میں آنے کے بعد ہندوستان سے گئے وفد کی پذیرائی بھی کی اور ان کی فکرمندی کے احساسات کی قدر کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ وہ کوئی کام ایسا نہیں کریں جو عالم اسلام کے لئے تکلیف دہ ہو۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک عبدالعزیز کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی مناسک حج کی ادائیگی اور دربار رسولؐ میں پرامن طریقے سے حاضری ممکن ہو سکی۔

اس سے قبل کی لوٹ مار اور حاجیوں کو یرغمال بنا لینے کی حکایتوں سے کون ناواقف ہے؟ 1955 میں اس وقت کے صدر جمہوریہ شری راجیندر پرساد اور وزیر پنڈت جواہر لال نہرو کی دعوت پر ملک عبدالعزیز کے جانشین اور اس وقت کے سعودی عرب کے سربراہ شاہ سعود بن عبدالعزیز ہندوستان کے 17روزہ دورے پر آئے۔ اسی بیچ شاہ فیصل نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انہیں D-Litt. کی اعزازی ڈگری پیش کی۔

اس کے علاوہ ملک فیصل کے بیٹے اور شاہ عبداللہ کے وزیر خارجہ سعود الفیصل ہندوستان کے دورے پر تشریف لائے۔ حرمین شریفین کے ائمہ بالخصوص شیخ عبدالرحمن السدیس جب آئے تو ان کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔

ہندوستانی وزراء اعظم بھی سعودی عرب جاتے رہے اور ماضی قریب میں 2109میں ہمارے وزیر اعظم شری نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر گئے اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ہندوستان تشریف لائے اور ابھی ایک ہفتہ قبل سعودی عرب کے موجودہ وزیر خارجہ نے ہندوستان کا دورہ کیا اور افغانستان میں طالبان کے تسلط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ہندوستان سے سعودی عرب کے سفارتی، تجارتی، ثقافتی اور مذہبی روابط آج بھی بڑے مستحکم ہیں۔ ہندوستان کے 20کروڑ مسلمانوں کے لئے سعودی عرب میں مکہ مکرمہ بلدالامین ہے اور مدینہ منورہ گنبد خضرا کے مکیں کی ابدی آرام گاہ ہے اور بنی کریم ﷺ کا مولد ہو یا ان کا دیار، اس کا ذرہ ذرہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے خاک شفا اور تبرّک کی حیثیت رکھتا ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)