موجودہ حالات میں مسلمانوں کامستقبل کے لئے لائحہ عمل کیا ہو؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-08-2021
جامع مسجد
جامع مسجد

 

 

ارشد غازی، علی گڑھ

ہندوستانی مسلمانوں کو اجتماعی سطح پرہر اختیاری عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو قوم کے مستقبل کے لئے کارگر ہو۔

حکمراں جماعت کوئی ہو حکمت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے لئے اُن سے رابطہ میں رہنا چاہئے۔

جس کے لئے ہمہ وقت ایک ڈائیلاگ فورس تیار رہے، جسے شعوری بینک (Think Tank) سے مواد فراہم کیا جائے جو تحقیقی بورڈ سے وابستہ ہوں۔

حکمراں جماعت سے گفتگو ہو اس ضمن میں چند سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں:

پہلے ہم طے کریں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟

پھر اُن کی درجہ بندی کریں۔

ہمیں معلوم ہو کہ من حیث القوم حکمرانوں سے ہم چاہتے کیا ہیں؟

ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟

کس لہجے میں گفتگو ہونی چاہئے؟

ایجنڈا کیا ہوگا؟

حکومت تک بات پہنچانے کے لئے طریقہۤ کار کیا ہو؟

حکومت کے اہل کاروں سے ملنے کے لئے درجہ بندی ہو؟

پہلے کسے ملنا ہے؟

ملاقاتوں کا مقصد طے ہو۔

  ڈاٹا بینک قائم ہو۔

عوامی سطح پر مشورہ مانگا جائے،اُسے ریکارڈ کیا جائے۔رائے کا احترام کیا جائے۔ شعوری اعتبار سے! آگے بڑھنے سے قبل ہمارا غیر جذباتی ہونا اور فکری اعتبار سے بالغ ہونا ضروری ہے۔نہ صرف اپنی قوم کا بلکہ اہل وطن کابھی انفرادی اور اجتماعی نفسیاتی مطالعہ شرط ِ اوّلین ہے۔

ایک دوسرے پر تنقید سے گریز کیا جائے، صبر و تحمّل اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔ علمائے کرام اور دانشور ایک دوسرے پر اتہام اور بدگمانی سے بچیں کیونکہ جو خواص کا ذہن ہوتا ہے وہی عوام کا مزاج بنتا ہے۔

ہمارے مسائل کیا ہیں؟
یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ یاد رکھئے کسی سے کچھ حاصل کرنے کے لئے کچھ اُس کی سے کہنی پڑتی ہے جب کہ وہ حاکم اعلیٰ ہے۔ اللہ بھی راضی نہیں ہوتا جب تک آپ نہ کہیں کہ تما م تعریفیں تیرے لئے ہیں اور یہ کہ تیرے محبوب کو مقام ِ محمود ملے۔

اِس کے بعد ہی جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ملاقات کرتے وقت حکمت کے ساتھ اپنا مدعا پیش کرنا چاہئے۔مثلاً حکمراں جماعت پر مکمل اعتماد کرکے اسے نفسیاتی دباؤ میں لیا جائے۔ حکومت کے وہ فیصلے جو مفادِ عامہ میں لئے گئے ہیں، ان کی کھلے دل سے تعریف کی جائے۔حکومت کے وہ فیصلے جو مسلمانوں کے حق میں لئے گئے ہیں، ان کی تعریف کی جائے۔

پاکستانی اور چینی مقبوضہ کشمیر کو اپنا مسئلہ بنا کر بات کی جائے۔

کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری میں تعاون کی پیش کش کی جائے۔

ڈیفنس فنڈ میں ماہانہ ایک روپیہ ہر مسلمان کی طرف سے دینے کی تجویز رکھی جائے۔

کشمیری محاذ پر فعال مسلم ریجمنٹ کے قیام کی تجویز رکھی جائے۔

ہندوستانی مصنوعات کے استعمال پر مسلمان زور دے۔

ملک کے دفاع کے لئے مسلم اسکولوں اور مدارس میں این سی سی کی لازمی ٹریئنگ کی مانگ کی جائے۔

پندرہ اگست پر مدارس کے بچوں کا پریڈ میں حصہ اور جھانکی نکالنے کی مانگ کی جائے۔

کشمیریوں کے لئے معاشی پیکیج کی مانگ کی جائے۔ اِس کے بعد کہا جائے:مسلمانوں کے لئے عمومی معاشی پیکیج، تعلیمی سہولیات، سرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے جگہ رکھنے کے لئے۔ حفظان ِصحت کی بات کی جائے۔مسلم پرسنل لاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اس کی درخواست کی جائے۔

ایک عام آدمی کے لئے یہاں اختصار کے ساتھ بیان کرتا چلوں کہ مسلم پرسنل لاء ہے کیا؟ مسلم عہد میں سارے فیصلے اسلامی قوانین کے تحت ہوتے تھے۔ جب انگریز علمداری کی ابتدا ہوئی تو انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں دخل در معقولات شروع کئے۔ پہلے قانونِ شہادت، قانونِ معاہدات ختم کئے پھر عائلی قوانین کو بدلنے کی تیاری کی جانے لگی۔

اس پر سارے ملک کے مسلم علماء اور دانشور حرکت میں آ گئے اور اس قانون کے خلاف طاقت کے ساتھ آواز بلند کی، انگریزی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ عائلی قوانین کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہ کرے،جسے انگریزوں نے قبول کرلیا۔

علمائے عظام کی مسلسل کوششوں کے بعد 1937ء میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ منظور ہوا۔ اس کی رو سے طے ہوا کہ نکاح،طلاق،خلع،مباراۃ،فسخ نکاح،حضانت، ہبہ،وراثت، وصیت وغیرہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہیں تو اُن کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔

اسلامی قانونِ شریعت کو عُرف و رواج پر بالا دستی ہوگی۔

اسی کو مسلم پرسنل لاء سے جانا جاتا ہے۔ ملک کے آئین میں بنیادی حقوق کے ذیل میں تمام شہریوں کے لئے عقیدہ و ضمیر کی آزادی اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔یہ دفعات مسلم پرسنل لاء کی تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔

خبر ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اب حجّت تمام کرنے کے لئے حکومت ِوقت سے ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔جہاں اور نقصانات ہوں گے وہیں یکساں سول کوڈکے تحت مسلمانانِ ہند اربوں روپے کی اوقاف کی جائیداد سے بے دخل کر دئیے جائیں گے۔

اپریل 1980 ء میں ایک قانون بنا تھا جس کی سیدھی ضرب اوقاف کی جائیدادوں پر پڑ رہی تھی، مسلم پرسنل لا بورڈ کی کوششوں سے وہ قانون واپس لیاگیاتھا۔ احساس کمتری،خاموشی،بدزبانی،مخاصمت، تصادم، دل ہی دل میں کڑھنا،دوسرے کو کم عقل سمجھنا، ہمارے مسائل کا حل نہیں۔جہاں ایک دانشور نے بات ختم کی ہے ہمیں اس سے آگے کی بات کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔

پچھلے دنوں ملک کے عہدیداروں اور اہلکاروں نے ملک کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ نفرت اور ٹکراؤ کی سیاست کے خلاف متحد ہوجائیں۔

 انھوں نے کہا: ملک کی دائیں بازو کی سیاست ان بنیادی اصولوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے جن ستونوں پر جمہوریت کو قائم کیا گیا تھا۔لوگ سمجھ رہے ہیں کہ مذہبی منافرت کی جو فضا تیار کی گئی ہے اس کا اصل محور مسلمان ہیں۔

موجودہ صورت حال پر ملک کے غیر مسلم دانشوروں کی طرف سے مسلمانوں کی مسلسل خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے ڈاکٹر راج موہن گاندھی کی انڈین ایکسپریس کے سنئیر صحافیوں سے گفتگو سامنے آئی ہے جس میں وہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی طرف سے خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی خاموشی ملک کے مستقبل کے لئے اچھی نہیں ہے۔

ملک کے متعدد صحافیوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ موجودہ حالات میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم دانشوروں کی خاموشی بھی ملک کے لئے خوش آئند نہیں۔سخت نقصان دہ ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی نظریہ، سیاست اور حکومت جو ملک کے تمام شہریوں کو برابری کی سطح سے نہ دیکھتی ہو وہ کسی بھی حال میں قابل ِقبول نہیں ہو سکتی۔منافرت اور تفریق پر مبنی نظام کسی ایک برادری کو نہیں اجتماعی طور پر پورے ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔کلّیہ یہی ہے کہ نفرت سے نفرت ہی جنم لیتی ہے۔

نفرت کا خاصّہ ہے کہ وہ نکلتی ضرور ہے خواہ اپنوں کے خلاف نکلے۔جس کی ایک مثال بنگلہ دیش ہے جہاں بچوں کو درسیات میں ہندوستان کے خلاف نفرت کا درس دیا گیا، پیدا کی گئی اسی نفرت کی آگ میں انھوں نے اپنا گھر خود ہی پھونک ڈالا۔

اب آخری سوال ہے کہ ہمارا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے۔ میں یاد دلاؤں کہ مسلمانوں کے لئے اندرا گاندھی کی پنگ پانگ سیاست جس سال زوروں پر تھی، اور اُن کے سکریڑی نے صاف کردیا تھا کہ حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے میں سنجیدہ ہے۔

تب1972 ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا انعقاد ہوا اور تمام مسلمانان ِہند بلا تفریق ِ مسالک ایک چھت کے نیچے جمع ہوئے اور حکومت کو اسلامی تعلیمات کے خلاف کسی بھی غیر منطقی فیصلے سے باز رکھنے میں کامیاب ہو ئے۔

مجھے یاد ہے جب اندرا گاندھی سے ایک اعلیٰ سطح کی ملاقات کی گئی تو اُدھر سے کہا گیا: ہمیں آپ لوگوں کا انتظار تھا۔ اس جملے کی نفسیات کا مطالعہ ہونا باقی ہے۔

یہ تفصیل میں نے یوں لکھی کہ آج پھر اسی اسلامی تدّبر اور حکمت ِعملی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

ضروری ہے کہ کسی ایک پلیٹ فارم سے کل ہند پارٹی میٹنگ کا اعلان کیا جائے اور تمام مکاتب ِفکر کے شیوخ کو ایک پرچم تلے جمع کیا جائے۔ بدگمانیوں سے بچتے ہوئے اس پروگرام میں اُن لوگوں کو خاص مقام دیا جائے جو حکومت ِ وقت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر رابطے میں ہیں۔ اس پروگرام کا ایجنڈا ماہرانہ طرز پر مرتب کیا جائے۔

لائحہ عمل طے ہو، مسائل کیا ہیں، اُن کی درجہ بندی کی جائے۔ حکومت کو باور کیا جائے کہ آئین کی رو سے وہ کس حد تک آگے بڑھ سکتے ہیں؟

کہاں اُن کے پَر جلنے لگیں گے۔اس بڑی میٹنگ میں کچھ بڑے فیصلے لینے ہوں گے۔قلم کے ماہر، خطابت کر ماہر، سوچنے والے افراد کے ذمہ مستقل بنیادوں پر کام دیا جائے۔ ایک ایسی فعال تنظیم بنائی جائے کہ حکومت ہر فیصلے سے قبل آپ کی طرف ایک بار ضرور دیکھے۔ اور سوچے کہ ملک کے 25 کروڑ مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

آفرین ہے کہ 4/ جولائی کو آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے تئیں بہت اچھی باتیں کہیں۔ جو اُن کی ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد سے ایک صحت مند ملاقات کا نتیجہ تھا۔

بغیر کسی لیت و لعل کے ڈاکٹر موہن بھاگوت کی باتوں کو سراہا جانا چاہئے۔چار سال قبل راقم الحروف کی ایک ملاقات نائب صدر جمہوریہ وینکٹا نائیڈو جی سے ہوئی۔ میں نے حکومت کی کچھ باتوں کی اُن سے شکایت کی تو انھوں نے مسکرا کر کہا: غازی ؔ صاحب یہ سب سیاست ہے۔

آپ دل بُرا نہ کریں۔ ہماری خاموشی بہرحال وہ پتھر نہیں جو چٹانوں سے بہتے تیز رفتار پانی کو روک سکے۔ دنیا کا کوئی ایسا سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ جس کا حل گفتگو سے نہ نکالا جا سکے۔

ہمیں اپنے میں فکری تبدیلی لانی پڑے گی۔اختلاف رائے کے ساتھ صحت مند ضابطوں کے تحت آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

ملک کے جو حالات ہیں وہ نئے نہیں، قوم اس سے بُرے حالات میں ثابت کر چکی ہے کہ وہ وقت سے نپٹنے کا ہنر جانتی ہے۔

اُمید ہے کہ جذباتیت کے بجائے مثبت اور فکری رُخ اپنانے سے نتائج قوم و ملّت کے حق میں بہتر طور پر ظاہر ہوں گے۔