زكاۃ كے كچھ عصری مسائل

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 31-05-2022
 زكاۃ كے كچھ عصری مسائل
زكاۃ كے كچھ عصری مسائل

 



 

awazthevoice

ڈاكٹر محمد اكرم ندوى (آكسفورڈ)

ہمارے محترم دوست اور ساتهى جناب ڈاكٹر رضى الاسلام ندوى صاحب نے زكاة سے متعلق كچھ سوالات بهيجے ہیں اور ان پر ميرى رائے جاننى چاہى ہے _ ان كے حكم كى تعميل ميں ذيل ميں ان سوالوں كے جواب درج ہيں:

سوال نمبر 1:  كيا زكاۃ فنڈ سے غريبوں كى ٹريننگ كے لیے صنعت و حرفت اور مختلف ہنر سكهانے كے نفع بخش ادارے قائم كئے جا سكتے ہيں؟

جواب: فقہاء كى ايك بڑى تعداد كے نزديك يه ضرورى ہے كه غريبوں كو زكاۃ كے مال كا مالك بنايا جائے ، جب كه كچھ فقہاء كے نزديك ايسى كوئى شرط نہيں ہے ، اتنا كافى ہے كه ضرورت مند لوگ مال زكاة سے منتفع ہوں _ چنانچه اگر غريبوں كے فائده كے لیے كوئى اداره بنايا جائے اور اس كے متولى كو زكاۃ كا مال دے ديا جائے تو ايسا كرنا صحيح ہوگا اور اس ميں پہلى رائے كى بهى رعايت ہے ، كيوں كه متولى كو دينا فقيروں كو دينے كے مترادف ہے _ اس طرح كى نيابت اسلامى شريعت اور ديگر قوانين ميں معمول به ہے _ تمليك كا وه حيله جو بر صغير كے مدرسوں ميں رائج ہے كه زكاۃ كا مال كسى بچے كو دے ديتے ہيں اور پهر پہلے سے طے شده منصوبه كے تحت وه بچه اس مالك كو ہبه كے نام سے مدرسه ميں واپس دے ديتا ہے ، اس طرح كا حيله خدائے برتر وبالا كے احكام كے ساتھ ايك قسم كا مذاق ہے اور اس ميں يہوديوں كى سنت كا احياء ہے _ اس طرح كے حيلوں سے بچيں اور شريعت مطهره وحكيمه كو بدنام نه كريں۔

اس ميں شك نہيں كه كسى غريب كو اس كے پيروں پر كهڑا كرنا اور اسے با عزت روزگار كا اہل بنانا اس كى وقتى ضروريات پورا كرنے سے زياده اہم اور بہتر ہے_ لہذا اگر زكاۃ كے مال سے وه ادارے قائم كئے جائيں جن ميں غريب لوگ ٹريننگ حاصل كركے مختلف ہنر سيكهيں جيسے كمپيوٹنگ ، سلائى كا كام ، يا كوئى اور صنعت وحرفت تو يه عمل انہيں فرداً فرداً زكاۃ كے مال كا مالك بنانے سے زیادہ نفع بخش ہوگا اور امت بحيثيت مجموعى معاشى اعتبار سے مضبوط تر ہوگى _ اسى طريقه پر عالم عرب اور يورپ وامريكه كے اربابِ فتوى كا عمل ہے۔

سوال نمبر 2: كيا زكاۃ كا فنڈ زكاۃ جمع كرنے والے اداروں كے دفاتر اور اسٹاف كى تقررى ميں لگايا جا سكتا ہے؟

 جواب: زكاۃ كا ايك مصرف "والعاملين عليها" ہے ، يعنى جو لوگ زكاۃ كى وصولى اور اس كے انتظام كا كام كرتے ہيں وه بهى زكاة كے مستحق ہيں_ ظاہر ہے كه آج كے دور ميں جب زكاۃ كو منظم كيا جائے گا تو دفاتر كے قيام كى بهى ضرورت پيش آئے گى _اسى لیے بالعموم اربابِ فتوى كى رائے ہے كه زكاۃ كا مال دفاتر اور سٹاف پر خرچ كيا جا سكتا ہے۔

البته يه بات ذہن ميں رہے كه زكاۃ اصلاً فقراء كے لیے ہے ، اس لیے انتظامى امور پر اس كا كم سے كم حصه خرچ ہو _ قرآن كريم ميں زكاۃ كے آٹھ مصارف بيان ہوئے ہيں _ اگر ان آٹهوں كو برابر درجه ديا جائے تو ہر مصرف كے حصه ميں ساڑهے باره فی صد آئے گا _ اس كى پابندى كوئى ضرورى نہيں ، ليكن غريبوں كى مصلحت كے پيش نظر اگر انتظامى امور پر ساڑهے باره فيصد كے اندر خرچ كيا جائے تو زياده بہتر ہوگا ۔

سوال نمبر 3: ایک کئی منزلہ اسلامک سینٹر زکوٰۃ کی رقم سے تعمیر کیا گیا ، اس میں مختلف کام انجام دیے جاتے رہے ، مثلاً دینی پروگراموں کے لیے اجتماع گاہ ، خدمت خلق سینٹر ، کوچنگ کلاسز ، تبلیغ اسلام کا دفتر وغیرہ _ اب لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے گراؤنڈ فلور کو مسجد کی حیثیت دے دیں ، کیا زکاۃ کی رقم سے تعمیر ہونے والی عمارت کے ایک فلور کو مسجد کی حیثیت دی جاسکتی ہے؟

جواب:  زكاۃ كا ايك مصرف في سبيل الله ہے ، يعنى زكاۃ الله كے راستے ميں خرچ كى جاسكتى ہے _ كچھ علماء نے الله كے راستے ميں مسجدوں كو بهى شامل كيا ہے_ ان كى رائے كے مطابق زكوة كے مال سے مساجد كى تعمير ہو سكتى ہے ۔

مگر زياده تر فقہاء كى رائے اس كے حق ميں نہيں ہے _ اختلاف سے بچتے ہوئے مندرجه بالا مسئله ميں ميرا مشوره يه ہے كه اسلامك سنٹر اس فلور كو قانونى مسجد نه بنائے ، بلكه اپنى ملكيت قائم ركهتے ہوئے اسے مصلّی بنادے ، يہاں نماز پڑهى جائے ، اعتكاف كيا جائے اور ذكر وغيره كا شغل ہو ، زكاۃ كے مستحقين كو يه حق ہے كه زكاۃ كے مال كے مالك ہونے كے بعد اسے جس طرح چاہے استعمال كريں _ اسلامك سنٹر اگر ايك حصه ميں نماز پڑهنے كى اجازت دے دے تو اس ميں كوئى شرعى قباحت نہيں_ دنيا كے مختلف علاقوں ميں اسى رائے پر عمل جارى ہے اور اسلامى مراكز اپنى عمارتوں ميں ايك حصه نماز كے لئے خاص كرديتے ہيں ۔

 اگر اس كے بعد بهى كسى قسم كا تردّد ہو تو يه كرسكتے ہيں كه اس جگه كا ايك مناسب كرايه متعين كرديا جائے اور سارے نمازى چنده كركے ماہانه وه مبلغ اس سنٹر كو ادا كرديا كريں ۔