سرسید کے خطوط اور تعلیمی ترقی کے کچھ رہنما اصول

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2025
سرسید کے خطوط اور تعلیمی ترقی کے کچھ رہنما اصول
سرسید کے خطوط اور تعلیمی ترقی کے کچھ رہنما اصول

 



ڈاکٹر عمیر منظر

شعبہ اردو

 مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ

 سرسید کے تعارف کی مختلف جہتیں ہیں۔تحقیقی، تاریخی اور سیاسی.ان کے علمی اور تحقیقی شغف کا اندازہ جام جم، آثار الصنادید،سلسلۃ الملوک،تصحیح آئین اکبری،تاریخ سرکشی ضلع بجنوراور اسبابِ بغاوت ہند جیسی اہم تصنیفات سے کیا جاسکتاہے۔سر سید کی مکتوب نگاری کو بھی ان کے بڑے مقاصد کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے خطوط سے تعلیمی ترقی کے بہت سے رہنما اصول  سامنے آتے ہیں۔اس میں ان کی اصول پسندی اور تحمل کوبھی دیکھاجاسکتا ہے۔ ان خطوط کوسائنٹیفک سوسائٹی کے قیام واستحکام اور علمی،تعلیمی اور مذہبی معاملات میں مکالمے کے لیے دستیاویزی حیثیت حاصل ہے۔ان خطوط میں مسلمانان ہند کی عمومی تعلیمی صورت حال اور بعض دیگر معاملات کو دیکھا جاسکتا ہے۔

سرسید بنیادی طورپر تعلیمی ترقی کے خواہاں تھے اور اس کے لیے بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں مگر کسی مخالفت کا کبھی جواب نہیں دیا۔پنجانی اخبار کے ایڈیٹر کو ایک خط1881میں سرسید نے لکھا۔یہ خط سرسید کے مزاج،شخصی رویے اور ان کے کام کو سمجھنے میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیا جاسکتاہے۔معاصرین کے ساتھ سرسید کی کشادہ ظرفی بھی اس خط کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

میں اپنے ان نامہربان دوستوں کا جو میری ذاتی مخالفت پرسرگرم ہیں اور گو کہ وہ میری ان باتوں میں جو میری ذات سے علاقہ رکھتی ہیں کتناہی مبالغہ کرتے ہیں اور لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں اور بے سروپا اتہام کرتے ہیں،ہمیشہ ممنون رہا ہوں اور رہوں گا...میں اپنے قدیم دوست مولوی امداد العلی بہادی سی ایس آئی سے اسی خلوص سے ملتا ہوں جیسا کہ ہمیشہ ملتا تھا اور آپ کے شہر کے مشہور عالم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کی (جن کو دو ایک دفعہ اتفاقیہ دیکھا ہے)ایسی ہی قدر کرتاہوں جس قدر کی وہ لائق ہیں۔ مجھ کو مطلق اس بات کا خیال نہیں ہے کہ یہ دونوں صاحب میری نسبت کیا لکھتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔...  مدرسۃ العلوم کوئی میرا ذاتی کام نہیں ہے جہاں تک میری سمجھ ہے،میں اس کو اپنی قوم کے لیے فائدہ مند سمجھتا ہوں اور جو کچھ اس میں کوشش کی جاتی ہے وہ قومی کام ہے...اگر وہ مخالفت ایک رائے کے اختلاف پر مبنی ہوتی اور جو کارروائی مدرسۃ العلوم میں ہوتی ہے اس میں نقص نکالے جاتے اور اصلاح پر رائے دی جاتی تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہ تھی مگر جب وہ اس میں کوئی نقص نہیں پاتے تو غلط بیانی اور بہتان بندی اور اتہام سے کام لیتے ہیں اور اس پر نہایت فخر کرتے ہیں۔...میں بھی کچھ سمجھتا ہوں اور کسی قدر قانون سے بھی واقف ہوں میں خوب جانتا ہوں کہ میں انتقام لے سکتا ہوں اور قانونی سزا دلا سکتا ہوں۔مگر میرے لیے کیا یہ مناسب ہوگا کہ جس قوم کے ساتھ میں ہمدردی کرنا چاہتا ہوں اور جس قوم کو اپنی گود میں بٹھانا چاہتا ہوں،اس کو قانون کے حوالہ کردوں۔(مکاتیب سرسید احمد خاں۔حصہ اول و دوم ص:158تا160)

 طویل خط کے اقتباس سے سرسیدکے عام رویے اور عمومی سوچ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس مخالفت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے، جس کا کہ انھیں سامنا تھا۔لیکن اس صبر اور تحمل کا جواب نہیں جس کا مظاہرہ انھوں نے کیا۔ مولوی مشتاق حسین کے نا م سرسید ایک خط میں لکھتے ہیں:

لوگ دنیا میں کسی کو چین لینے نہیں دیتے۔پھر لوگوں کے کہنے پر خیال کرنا محض لغو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو کام میں نے صرف خالص نیت اور صرف قومی بھلائی کے لیے کیا ہے اس کی نسبت لوگ اور بہت مقدس لوگ کیا کیا کچھ کہتے ہیں۔کیسے کیسے مقدس لوگ مجھے خود غرض،بد دیانت،تعمیرات مدرسہ میں غبن اور چوری کرنے والا وغیرہ وغیرہ بیان کرتے ہیں۔اور مقدس ہاتھوں سے جو پانچ وقت وضوسے دھوتے ہیں۔پس آدمی کو اپنے خداکے سامنے نیک نیتی سے کام کرنا چاہیے۔لوگوں کے کہنے پر مطلق خیال کرنا غلطی ہے۔پس اس طرح آپ کو بلحاظ اس کے کہ لوگ کیا کہیں گے،مولوی مہدی علی کے استعفی کی منظوری کے لیے کوشش کرنی چاہیے نہ کہ خلل انداز ہونا۔ (ایضاً ص:87۔86)

سرسیدکے خلاف جس طرح کے حالات تھے اس خط سے بھی اس کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔مولوی مہدی علی جن کا اس خط میں ذکر ہے وہ نوکری سے استعفی دے کرسرسید کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔جبکہ مولوی مشتاق حسین بربنائے دوستی یہ چاہتے تھے کہ مہدی علی نوکری سے مستعفی نہ ہوں۔اسی لیے سرسید نے انھیں خط میں لکھا کہ یہ حسن سلوک نہیں بلکہ ”بد سلوکی“ہے۔اسی خط میں سرسید نے آگے لکھا ہے کہ وہ ”بقیہ عمر میرے ساتھ علی گڑھ میں گزاریں گے۔یا میں ان کو دفن کروں گا یا وہ مجھ کو دفن کریں گے“۔سرسید نے قومی خدمت کے لیے کہا ں کہاں سے لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور لوگ ملتے بھی گئے۔غالباً یہ ان کے خلوص اور نیک نیتی کا ثمرہ تھا۔

 سرسید کی تعلیمی صورت حال پر گہری نظر تھی۔وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان تعلیم میں کس قدر پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے کسی وجہ سے سرسید کی مخالفت کی ان کے سامنے یہ اعداد و شمار نہیں رہے۔ 17جون 1887کو سر سید نے ایک خط ’ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن اضلاع شمال و مغرب و اودھ،نینی تال‘کے مسلمانو ں کی تعلیم سے متعلق لکھا۔سرسید لکھتے ہیں:

کلکتہ یونی ورسٹی کے امتحانوں کا نتیجہ ابھی مشہتر ہوچکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی اے کلاس میں 428طالب علم پاس ہوئے ہیں منجملہ ان کے صرف 22مسلمان ہیں ایف۔اے کے امتحان میں جو پاس ہوئے ہیں ان کی تعداد854ہے جس میں صرف 57مسلمان ہیں۔انٹرنس کے امتحان میں 3307طالب علم پاس ہوئے ہیں منجملہ ان کے مسلمان صرف 425ہیں۔یہ کافی ثبوت اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم اور خصوصاً کالج کلاسوں کی تعلیم نہایت گھٹی ہوئی ہے۔تمام برٹش انڈیا میں کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی تعلیم اور قوموں کی تعلیم کی حالت سے خراب اور پس ماندہ نہ ہو جس کے سبب سے ان کی تمدنی حالات بھی روز افزوں زوال پذیر ہوتی جاتی ہے۔ (ایضاً ص:184)

سرسید نے اس خط میں صرف ان کی تعلیمی پس ماندگی کا نقشہ ہی نہیں کھینچا ہے، بلکہ اس کے توسط سے انھوں نے حکومت کو مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی دورکرنے کے لیے اسکالرشپ کی تجویزبھی بھیجی ہے۔اسی خط میں وہ لکھتے ہیں:

تیرہ برس سے میرے ہاتھ میں کالج ہے اور مجھ کو ذاتی تجربہ مسلمانوں کی حالت کا ہے۔ا س وقت تک ہمارے کالج سے علاوہ ہندؤوں کے 9 مسلمان بی اے میں،25ایف اے میں پاس ہوچکے ہیں۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سوائے ایک کے اگر ان کی امداد کالج کی تعلیم جاری رکھنے میں نہ کی جاتی تو ان میں سے ایک بھی وہ تعلیم حاصل نہ کرسکتا۔(ایضاً ص:186)

سرسید نے تعلیمی پس ماندگی سے مسلمانوں کو نکالنے اور اسکالرشپ کے حصول میں مسلمانوں کو بعض رعایتیں دینے کی پرزورحمایت کی۔انھوں نے کہا کہ انٹرنس یا ایف اے میں جو فرسٹ ڈویژن پاس ہو نے کے بعد ان کو جو متعینہ اسکالرشپ ملتی ہے اگر طالب علم کسی وجہ سے اپنی تعلیم کسی دوسری پریسیڈنسی کے کالج میں جاری رکھنا چاہے اورکالج کی طرف سے اس کی اخلاقی رپورٹ بہتر ہے تو اس کی اسکالرشپ اس پریسڈنسی کے کالج میں منتقل کردی جائے۔اس کے علاوہ ایک خاص قاعدہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لیے وضع کرنے پر زور دیا ہے۔سرسید اپنے خط میں لکھتے ہیں:

اگر آپ کے ماتحت کالجوں میں کوئی ایسا مسلمان طالب علم داخل ہو جس نے خواہ ان کالجوں سے جو آپ کے ماتحت ہیں اور خواہ کسی دوسرے پریسیڈنسی کالجوں سے انٹرنس یا ایف اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہو اور اس کو گورنمنٹ اسکالرشپ نہ ملی ہو اور وہ ایسے کالج میں داخل ہو جہاں اس کا گھر یا سکونت مستقل نہیں ہے۔ اور اس کالج کی اتھارٹی جس میں وہ داخل ہوا ہے کامل تحقیق کے بعد آپ کو طمانیت کردے کہ اس کی حالت ایسی ہے کہ بغیر امداد کے وہ آئندہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتااور وہ اتھارٹی پرائیویٹ چندہ سے اس کی امداد کرنی مناسب سمجھے تو گورنمنٹ بھی اس کی امداد میں بحصہ رسیدی شریک ہو۔یعنی جو امداد کہ اس کو دینی تجویز ہو جس کی غایت مقدار میں آگے بیان کروں گا،اس کا نصف گورنمنٹ دے اور نصف پرائیویٹ چندہ سے دیا جائے۔اس قاعدہ کو ان مسلمان طالب علموں کی نسبت بھی جنہوں نے انٹرنس اور ایف اے کا امتحان سکینڈ ڈویژن میں پاس کیا ہو،بہ اضافہ ایک شرط خاص کے وسعت دی جاوے۔  (ص:189۔190)

اس خط کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ سرسید برطانوی ہندستان کے تعلیمی نظام میں مسلم بچوں کی بہتر کارکردگی کے لیے مستقل غور و فکرکرتے تھے اور تعلیمی ترقی کے امکانات تلاش کرتے رہتے تھے۔ اسکالر شپ کی بابت ان کی جو تحقیق ہے،اس کی بنیاد پر مسلم بچوں کے لیے حکومت کو جن مشوروں سے آگاہ کیا ہے، اسے سرسید کے ایک انقلابی قدم سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعلی تعلیم میں مسلمان بچوں کی تعداد اس وقت بھی بہت کم تھی اور یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے۔اعلی تعلیم میں آج بھی باصلاحیت اور ہونہار مسلم بچوں کے لیے اسکالرشپ بہت اہم سہارا ہے۔سرسید نے اس خط میں میرٹ کے ساتھ ساتھ معاشی پوزیشن کو بھی سامنے رکھ کر اسکالرشپ دینے کی وکالت کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی معاشی پوزیشن زیادہ خراب ہے،اس لیے وہ اسکالرشپ کے زیادہ حق دار ہیں۔انھوں نے متوسط درجہ کے اشراف خاندانوں کا خرچ چودہ روپیہ ماہانہ کا اندازہ لگایا تھا اور اس کے بعد خط میں یہ لکھا کہ ”میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کی مفلسی ایسے درجہ کو پہنچ گئی ہے کہ وہ اس قدر خرچ کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے“ان خطوط سے تعلیم کے تئیں سرسید کی غیر معمولی کوششوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تعلیمی پس ماندگی پر ایک صدی پہلے انھوں نے اتنی توجہ دی اور زندگی کی بہت سی آسائشیں قربان کردیں مگر نصب العین سے سرمو انحراف نہیں کیا۔سرسید ڈے پر دعوتیں اڑانے والے اس خط پر غور کریں۔خان بہادر محمد برکت علی خاں کو علی گڑھ سے 13،دسمبر 1883 کو لکھا تھا:

اگر آپ پسند کریں اوراجازت دیں،یعنی کسی دوست کے پاس نہیں ٹھہرتا،ڈاک بنگلہ میں ٹھہرتاہوں اور سب دوستوں سے کہتا ہوں کہ جو کچھ آپ میری مہمان داری یا دعوت میں خرچ کرتے ہیں وہ ازراہ عنایت نقد مرحمت فرماویں۔آپ نے سوسیٹی کے اخبار میں بہت سی ایسی رقمیں دیکھی ہوں گی بعوض دعوت،نقد روپیہ لیا گیا ہے۔(ص:97)

 بالعموم سرسید کو قسطوں میں اور الگ الگ سمجھا جاتا ہے۔سرسید کے ساتھ المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی بیشتر کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ان پر لکھنے والے یا تو ان کے پر جوش حمایتی ہیں یا وہ لوگ ہیں جنھوں نے قدیم مواد پر تکیہ کررکھا ہے۔سرسید کو آج بھی انگریزوں کا سخت قسم کا وفادار تصور کیا جاتا ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ انھیں کے اشاروں پر چلتے تھے۔یہ بات بہت عام ہے، مگر اس میں پوری طرح سچائی نہیں ہے۔سر سید کے ان چند مکتوبات سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ انھوں نے اپنے عہد سے بہت آگے دیکھنے کی کوشش کی۔ان خطوط کو سرسید کے عملی خاکوں کی ایک تصویر کے طورپر اس طر ح دیکھنا ہوگا کہ یہ تصویر آج بھی روشن اور متحرک صورت میں جلوہ گر ہے۔اور ان کی عصری معنویت کا یہی جواز ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے وحید الدین سلیم،سرراس مسعود،شیخ محمد اسماعیل پانی پتی اور مشتاق حسین کا، جن کی کوششوں سے سرسید کے بیشتر خطوط محفوظ ہو گئے ہیں۔