'سر سید احمد خان اور 'چندہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2021
'سر سید احمد خان اور 'چندہ
'سر سید احمد خان اور 'چندہ

 

 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام آتا ہے تو خود بخود ایک چہرہ ذہن میں ابھر کر سامنے آجاتا ہے جو سر سید احمد خان کا ہوتا ہے۔یہ وہ نام اور چہرہ ہے جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو دیکھ کر مستقبل کی فکر شروع کی تھی۔جبکہ اس بات کو بھی محسوس کرلیا تھا کہ یہ تعلیمی مشن اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ ہر کسی کی جیب سے عطیہ نے وصول کرلیا جائے ۔خواہ وہ امیر ہو یا غریب ۔حصہ داری سب کی ہو۔اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تعلیم کے تئیں سب میں احساس اور بیداری پیدا ہوسکے 

سرسید احمد خان کے اس عظیم مشن کی کامیابی میں چندہ نام کی بوند بوند کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔کیونکہ اس کے لیے انہوں نے بہت پاپڑ بیلے اور محنت کی یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں سرسید کے چندہ وصولی پر متعدد واقعات سرخیوں میں رہے اور اب تاریخ لا حصہ ہیں۔ جنہیں آج بھی تعلیمی مشن کے لیے مشعل راہ مانا جاتا ہپے۔

یاد رہے کہ سر سید نے اپنے مشن کا آغٓاز مرادآباد سے ایک مدرسہ کے قیام سے کیا تھا۔ مرادآباد کے بعد سر سید کا تبادلہ جب غازی پور میں ہوا تو انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی تاکہ یورپ میں سائنس کے میدان میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اسے ہندستانی زبان میں منتقل کرکے ہندستانیوں میں سائنسی مزاج پیدا کیا جائے۔

 ذہنوں کو بیدار کرنے کے لیے جب سر سید نے اصلاحی مضامین لکھے تو ایک ہلچل مچ گئی۔ سر سید نے اپنے مشن کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے 24 مئی 1875 کو علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ دو سال میں ترقی کر کے 8 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں تبدیل ہوا۔ 27 اگست 1920 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا بل پیش کیا گیا۔ 9 ستمبر 1920 کو بل پاس کیا گیا۔ 14 ستمبر 1920 کو گورنر جنرل نے بل کو اپنی منظوری دی اور یکم دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور 17 دسمبر 1920کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی تقریب عمل میں آئی تھی۔

مگر یہ کہانی سطروں میں پڑھنے میں جتنی آسان ہے اس میں اتنی ہی سخت جدوجہد ہے۔ سر سید جانتے تھے کہ تعلیم کے لیے اس کوشش میں انہیں لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوانا ہوگا ۔اب یہ کیسے ہوگا یا سر سید نے کیسے کیا یہی اصل کہانی ہے۔ اس لسللے میں سر سید نے موقع شناسی اور حاضر جوابی کے ساتھ مزاح کا سہارا لیا ۔کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔کسی کو نہیں بخشا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ایک ہرا بھرا تعلیمی ادارہ دیکھ رہے ہیں۔

 ممتاز دانشور نورالحسن نقوی نے اپنی کتاب میں لکھاہے۔ ’’کالج کے لیے روپیہ اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ انہوں نے اٹھا نہ رکھا۔کتابوں کی دکان کھولی اور اس میں بیٹھ کرکتابیں بیچیں۔ ایک بار تیس ہزار کی لاٹری کھلی، اعتراض ہوا یہ گناہ ہے۔ انہوں نے جوا ب دیا ہزار گناہ اپنے لیے کرتے ہیں ایک گناہ کالج کے لیے بھی صحیح۔ ایک دوست موجود تھے بولے، اس کا گناہ مسلمان رئیسوں پر ہوگاکہ وہ سید احمد کی مدد کرتے تو یہ اس غلط کام کی طرف متوجہ کیوں ہوتا۔‘‘

مرحوم ڈاکٹر شکیل صمدانی نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ ۔۔

یہ بات بھی یہاں قابلِ ذکر ہے کہ سرسید کے اس وقت تک کسی کا چندہ قبول نہ کیا جب تک کہ انہوں نے پہلا چندہ اپنی جیب خاص سے ادا نہ کردیا۔سرسید نے چند ہ اکٹھا کرنے میں جن دشواریوں کا سامنا کیا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ انہوں نے چندہ اکھٹا کرنے میں بے پناہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہمت نہ ہاری اور نئے نئے طریقوں سے کالج کے لیے رقم اکٹھا کی۔

سر سید کی کہانی سرسید کی زبانی میں الطاف حسین حالی نے بھی اس پہلو پر بڑے تفصیل سے روشنی ڈالی ۔سر سید کے اس مشن کا یہ بھی ایک اہم پہلو رہا تھا۔بقول الطاف حسین حالی

 ہنسی مذاق میں زبردستی وصولی 

چندہ کے علاوہ جب کبھی ان کو دوستوں سے کچھ اُچک لینے کا موقع ملا، انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ

 "خانہ دوستاں بروب و درِ دشمناں مکوب“

"ایک روز مسٹر تھیوڈور بک× کے والد جو، سیاحت کے لئے ہندوستان میں آئے ہوئے تھے، ایک خاص سکہ کی اشرفی دوستانہ طور پر مولوی زین العابدین کو دینی چاہتے تھے اور وہ اُس کے لینے سے انکار کرتے تھے۔ آخر دونوں صاحب سر سید کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا۔ سر سید نے بہت بدمزہ ہو کر کہا کہ:

دوستوں کے ہدیہ کو رد کرنا نہایت بد اخلاقی کی بات ہے۔

- انہوں نے وہ اشرفی لے لی، سر سید نے کہا:

دیکھوں کس سکہ کی اشرفی ہے؟

اور اُن سے لے کر مدرسہ کے کھاتہ میں جمع کر دی۔

اسی طرح ایک دن سید محمود نے قاضی رضا حسین مرحوم سے کسی بات پر پچاس روپیہ کی شرط باندھی اور یہ ٹھہرا کہ جو ہارے، پچاس روپیہ مدرسہ میں دے۔ اتفاق سے سید محمود ہار گئے، وہ سو رُوپیہ کا نوٹ لے کر آئے اور قاضی صاحب سے کہا کہ

پچاس روپیہ دیجیئے اور نوٹ لیجئے۔

انہوں نے کہا کہ "وہ تو ہنسی کی بات تھی، کیسی شرط اور کیسا روپیہ؟ دوسرے شرط بِدنا جائز بھی نہیں ہے۔ سر سید بھی وہیں موجود تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ روپیہ مدرسہ میں آتا ہے، فرمایا کہ: "جس شرط میں اپنا فائدہ ملحوظ نہ ہو وہ جائز ہے۔“

 اور فورا بکس میں سے پچاس رُوپے نکال کر سید محمود کو دے دئے اور نوٹ لے لیا۔

ایک بار مدرسہ کے کسی کام کے لئے چندہ کھولا گیا۔ سر سید نے اپنے قدیم دوست مولوی سید زین العابدین خاں سے چندہ کا تقاضا کیا۔ انہوں نے بدمزہ ہو کر کہا "صاحب، ہم تو چندہ دیتے دیتے تھک گئے۔

 سر سید نے کہا۔۔۔ "ارے میاں! اب کوئی دن میں ہم مر جائیں گے، پھر کون تم سے چندہ مانگے گا۔“

یہ الفاظ کچھ ایسے طور پر کہے گئے کہ دونوں آبدیدہ ہو گئے اور چندہ فورا ادا کیا گیا۔

 انگریزوں سے چندہ کی درخواست دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصول ہونے کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔ ایک بار سر سید نے ایک محض اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا اس نے بہت روکھے پن سے یہ جواب دیا کہ "آپ کو اس کام کے لئے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہئے۔“

سر سید نے کہا: "بے شک ہم کو قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ انسٹی ٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو انگریزوں کے لئے کوئی ذلت کی بات اس سے زیادہ نہ ہو گی کہ وہ باوجودیکہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔“

وہ انگریز سن کر شرمندہ ہوا اور اُسی وقت ایک نوٹ بیس روپے کا سر سید کی نذر کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان پرجب جاری کیا گیا تھا فتویٰ سرسید احمد خان کو ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنےکا خیال آیا۔ حالانکہ جب انہوں نےمسلمانوں کوانگریزی کےساتھ جدید تعلیم فراہم کرانےکےلئےکالج کی بنیاد ڈالی توخود مذہبی رہنماؤں نےان کی بہت تنقید کی۔

 انگریزوں سے چندہ کی درخواست

 دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصول ہونے کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔ ایک بار سر سید نے ایک محض اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا اس نے بہت روکھے پن سے یہ جواب دیا کہ "آپ کو اس کام کے لئے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہئے۔

 سر سید نے کہا: "بے شک ہم کو قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ انسٹی ٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو انگریزوں کے لئے کوئی ذلت کی بات اس سے زیادہ نہ ہو گی کہ وہ باوجودیکہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔

 وہ انگریز سن کر شرمندہ ہوا اور اُسی وقت ایک نوٹ بیس روپے کا سر سید کی نذر کیا۔