سر سید احمد خان اور خواتین کی تعلیم

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-10-2021
سر سید احمد خان اور خواتین کی تعلیم
سر سید احمد خان اور خواتین کی تعلیم

 

 

ایمان سکینہ،نئی دہلی

 سیداحمد تقی بن سید محمد متقی انیسویں صدی کے برطانوی ہندوستان میں ایک اسلامی پسند مصلح قوم، فلسفی اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ اگرچہ ہندو مسلم-اتحاد میں یقین رکھتے تھے، تاہم وہ دو قومی نظریے کے حامی تھے، بلکہ انہیں دو قومی نظریہ کا بانی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی۔

سرسیداحمدخان ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے، جن کے مغل دربار سے مضبوط تعلقات تھے، جہاں انہوں نے قرآن اور علوم جدیدہ یعنی سائنس کی تعلیم حاصل کی۔  ایڈنبو یونیورسٹی(University of Edinbu) سے انہوں نے اعزازی ایل ایل ڈی( LLD) کی ڈگری حاصل کی۔

سرسید احمد خان 17 اکتوبر1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1838 تک ، ایسٹ انڈیا کمپنی(East India Company) کے تحت کام کیا اور 1867 میں ایک چھوٹی عدالت کے جج بھی بنائےگئے۔ وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے خواہاں تھے، بلکہ وہ صحافتی اور تاجرانہ طور پربھی مسلمانوں کو منظم کرنا چاہتے تھے۔

وہ کہا کرتے تھے کہ دوسروں کو اسلام کا چہرہ نہ دکھاؤ بلکہ دوسروں کو اپنا چہرہ ایک سچے اسلام کے پیروکار کے طور پر دکھاو جو کردار، علم ، رواداری اور تقویٰ کی نمائندگی کرتا ہو۔یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے بے جا مذہبی سختی اور قدامت پسندی پر سوال اٹھائے تھے۔ بہت سے ماہرین اورعلماء نے نشاندہی کی ہے کہ سید احمد خان کے اصلاحی و تعلیمی نظریے میں خواتین کے لیے کوئی شق شامل نہیں تھی۔

 اس کے نتیجے میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کے تعلیمی نظریہ پر'مبنی بر مرد مرکوز' کا لیبل لگا دیا گیا۔

تاہم سرسید کی تعلیمی اصلاحات کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے اس ماحول کو سمجھنا ضروری ہے جس دور میں وہ جی رہے تھےاورکام کیا کرتے تھے۔

اگرچہ سرسید کی حیات و خدمات پر بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے، تاہم مسلم خواتین کی تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات پر بہت کم تحقیقی کام ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سےایسا ہوا کہ سرسید احمد خان کو خواتین کی تعلیم کے مخالف کے طور پر پیش کیا گیا۔

ہندوستان جیسےنوآبادیاتی ملک میں ترقی اور خوشحالی کے لیے سید احمد خان نے انگریزی حکومت کی اصلاحات و تعلیمی تصورات کی پالیسی(trickle-down effect) پر نہ صرف یقین کیا بلکہ اسے یہاں کے لیے مفید قرار دیا۔

کسی بھی منصوبے یا پروگرام کو اس طرح نافذ کیا جانا چاہیے کہ وہ معاشرے کے اعلیٰ طبقات کو فائدہ پہنچائیں اور ان کی عمومی ترقی اور کامیابی کا باعث بنیں، اس ترقیاتی ماڈل کے مطابق جس کے فوائد بالآخر معاشرے کی نچلی تہوں تک بھی پہنچیں گے۔

اس کے نتیجے میں جب مسلم خواتین کو تعلیم دینے کی بات آئی تو سرسیداحمد خان نے روایتی برطانوی افادیت پسندانہ ماڈل پرعمل کرنے کا انتخاب کیا۔

چونکہ تعلیم میں سرمایہ کاری کے لیے محدود وسائل تھے، اس لیے ان کا خیال تھا کہ اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کو ترجیح دی جائے۔

ان کا خیال تھا کہ جب اشرافیہ اپنی تعلیم مکمل کر لیں گے تو وہ فطری طور پر ان لوگوں کی مدد کریں گے جو تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ ہیں۔مزید برآں سرسید احمد خان کے دور میں تعلیم کو بنیادی طور پر انتظامی یا سرکاری ملازمت تک رسائی حاصل کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

چونکہ اس وقت خواتین شاذ و نادر ہی ملازمت کے لیے درخواست دہندگان ہوا کرتی تھیں یا اس طرح کی ملازمتوں میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ اس لیے یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ مردانہ تعلیم کو فوقیت دینی چاہیے۔

گھریلواور خاندانی شعبوں میں اصلاحات انیسویں اور بیسویں صدیوں میں ہوئی ہیں۔ اس وقت ازدواجی زندگی کی اصلاحات میں برطانوی تصور وکٹورین مورالٹی(Victorian Morality) کو ترجیح دی گئی تھی۔

خواتین کو اب 'گھریلو فرشتے' کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جو گھر کے تمام کاموں کی مناسب دیکھ بھال اور انتظام کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ دار ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی اور ڈپٹی نذیر احمد سمیت بہت سے مصلحین نے ہندوستانی ثقافت میں مسلمانوں کی طرف سے مطلوبہ اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ان رہنماوں کی کوششوں اور ان کی تحریروں کی اشاعت نے گھریلوخواتین کی اہمیت پر زور دیا۔

سرسید احمد خان کے سیکولر اور سائنسی اداروں دراصل تعلیم کے تئیں ان کی طویل جدوجہد کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سر سید احمد خان خواتین کی تعلیم کے حق تھے۔

جیسا کہ مسلم پرسنل لاء سے متعلق ان کے خیالات سے سمجھا جا سکتا ہے، جہاں انہوں نے طلاق اور خواتین کے حقوق جیسے مسائل پر دوسرے مسلم علما و ماہرین تعلیم سے شدید اختلاف کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے خواتین کے خلاف گھریلو زیادتی کی سخت مخالفت کی۔

سرسید نے 1863 میں سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی تاکہ نوجوانوں میں سائنسی ذہنیت پیدا کی جا سکے۔ خاص طور پراس وقت کے مسلم نوجوان جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جدید سائنسی سرگرمیوں سے خود کو پیچھے رکھے ہوئے ہیں، جنہیں شمالی ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں مذہب مخالف سمجھا جاتا ہے۔

 سرسید احمد خان کی وفات کے محض دس برس بعد علی گڑھ میں لڑکیوں کی تعلیم کے اسکول قائم کیا گیا۔ یہ دراصل ان کے تعلیمی تصوارت و نظریات کے تئیں ان کے خواب کی تعبیر تھی۔

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کرنے والوں نے اس سلسلے میں سرسید احمد خان کو محرک مانا۔ جس نے ملک بھر میں خواتین کی تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات کو تقویت اور استحکام بخشا۔

یہ کہنا مبالغہ نہیں ہے کہ سر سید احمد کا وژن اور ہندوستان میں خواتین کو تعلیم دینے کی کوششوں کی مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے دی ہے۔