سر سید احمد خاں : علم دوستی اور احساسِ بیداری کی علامت

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 17-10-2025
 سر سید احمد خاں : علم دوستی اور احساسِ بیداری کی علامت
سر سید احمد خاں : علم دوستی اور احساسِ بیداری کی علامت

 



سید قمر عبّاس قنبر نقوی 

ہندوستانی دنیائے تعلیم و تعلم کی ایک بے مثال اور قابلِ قدر شخصیت، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب بابِ مدینۃ العلم امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اور رسولِ اکرمؐ کی دخترِ گرامی حضرت فاطمہ زہراؑ کی پاکیزہ نسل میں حضرت امام محمد تقیؑ سے ستائیسویں پشت میں جا ملتا ہے، جیسا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد میں آپ کے مرقد پر نصب سرخ پتھر پر کندہ ہے۔

آپ کے والد سید محمد متقی المعروف میر متقی دہلوی، والدہ عزیز النساء اور اہلیہ پارسا بیگم المعروف مبارک بیگم تھیں۔سر سید مسلمانوں کے ہمدرد اور اُن کے روشن مستقبل کے لیے فکرمند رہنے والے مخل  انسان تھے۔ انھوں نے بجنور، آگرہ، مرادآباد، غازی پور اور بنارس میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے مسلمانوں کی معاشی پسماندگی، تعلیمی زوال قیادت کی غفلت و بد حالی  اور حکومتی ناقدری کو قریب سے دیکھا۔ ان مشاہدات  نے اُن کے دل میں اضطراب پیدا کیا کہ اگر اب اصلاح اور بیداری پیدا نہ کی گئی تو مستقبل میں مسلمان  محض خانساماں، خدمتگار پنچر لگانے والے، ٹھیلہ چلانے اور مزدور بن کر رہ جائیں گے۔

چنانچہ سرسید نے فیصلہ کیا کہ قوم کو جہالت و جمود سے نکال کر علم و شعور کے قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کی تمام مشکلات کی جڑ عدمِ واقفیت یعنی جہالت تھی۔ اِس کمی کو دور کرنے کے لئے انھوں نے 1864 میں غازی پور میں "سائنٹفک سوسائٹی" قائم کی، جس کے تحت مغربی زبانوں کی اہم علمی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ پھر 1870 میں اسی مقصد کے لیے انھوں نے رسالہ "تہذیب الاخلاق" جاری کیا، تاکہ مسلمانوں میں وقت شناسی، فکری بیداری اور ذوقِ مطالعہ پیدا ہو۔

1875 میں سر سید نے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی، جو بعد میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج کہلایا، اور وہ ہی بالآخر 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں سامنے آیا ۔ سرسید کا یہ وہ خواب تھا جس کی تعبیر آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔1888 میں برطانوی حکومت نے اُن کی خدمات کے اعتراف میں انھیں "سر" کے خطاب سے نوازا۔

افسوس کہ یہ علمی مجاہد، جس نے نسلوں کو علم، عزت، شعور اور خود داری کی راہ دکھائی، 27 مارچ 1898 کو 81 برس کی عمر میں قانون پروردگار کے مطابق اس دنیا سے رخصت ہو گیا، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد کے احاطے میں مدفون ہو گیا۔آج سرسید کے یوم ولادت کی مناسبت سے پوری علمی دُنیا اُنھیں سر سید ڈے کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کر رہی ہے، لیکن آیئے سوچیں کہ اس عظیم رہنما کو حقیقی خراجِ عقیدت کیسے پیش کیا جائے، جو ہمیں ملک کی اولین ریسرچ یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی ایک عظیم الشان یونیورسٹی تحفہ میں دے گا۔

یاد رکھیے سر سید بھی ہماری طرح انسان تھے, اُنکے بھی والدین تھے، اولاد وہ بھی رکھتے تھے، ایک خاتون کے شوہر اور خواہشات کے حامل وہ بھی تھے ۔ لیکن فرق یہ تھا کہ انھوں نے اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے حقوقُ الناس اور قوم کی اصلاح کو کبھی فراموش نہیں کیا۔آج جب علیگ برادری دنیا بھر میں سر سید ڈے مناتی ہے، اُنھیں منانے کا حق  بجا ہے۔ مگر اِس موقع پر خود سے یہ سوال بھی کریں کہ یومِ ولادت صرف سر سید کا کیوں، ہمارا کیوں نہیں؟جو افراد یہ سوال اپنے دل میں پیدا کر لیں، وہی کامیاب ہیں، وہی سر سید کے حقیقی وارث ہیں، وہی آنے والی نسلوں کے علمی محافظ اور اُنکی صفوں میں  روشنی اور تابناکی پیدا کریں گے ۔

سر سید چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی شناخت اس طرح کی جائے کہ:ان کے ایک ہاتھ میں سائنس، دوسرے میں فلسفہ، اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہو۔یہ خواہش کی تکمیل کے لیے سر سید نے صِرف معجزے اور غیبی مدد کا انتظار نہیں کیا بلکہ عملی طور پر میدانِ عمل میں آئے ۔ سوسائٹیز بنائیں، اسکول و کالج قائم کیے، یونیورسٹی کھڑی کی۔

ہمیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں تعلیمی سوسائٹیز، کوچنگ سینٹرز، لائبریریاں اور وظائف کے نظام کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ کمزور طبقے کے طلبہ تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ یہی اصل خراجِ عقیدت ہے۔ آگرچہ یہ سچ ہے کہ سر سید بننا  آسان نہیں، مگر ناممکن بھی نہیں۔ احساسِ ذمہ داری، خلوصِ نیت، اور مضبوط ارادہ ہی روشن مستقبل کا ضامن ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سطح پر قوم کے علمی و اخلاقی ارتقا کے لیے وہی جوش و جذبہ پیدا کریں جو ایک صدی پہلے سر سید نے کیا تھا ـ

علی گڑھ میں "سر سید ڈے" کی تقریبات  

دُنیائے علم و عمل میں سر سید احمد خاں دہلوی کی وہ اکلوتی شخصیت ہے جن کا یومِ ولادت سر سید ڈے کے عنوان سے پوری علمی دُنیا میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ علم دوست خصوصا  علیگرین منا تے ہیں ۔سر سید ڈے کے موقع پر علیگڑھ مسلم یونیوسٹی میں تو اِنتہائی خوبصورت نظارہ ہوتا ہے یہ موقع طلاب کے لئے کسی قومی یا علمی تہوار سے کم نہیں ہوتا،  یونیورسٹی کی عمارتوں کو طلباء، اساتذہ، غیر تدرسی عملہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سجایا جاتا ہے، پورے کیمپس میں ہر سمت قومی پرچم اور یونیورسٹی مونو گرام کے پرچم لہراتے نظر آتے ہیں ـ  

سر سید ڈے پَر بعض حلقوں  کی جانب سے لگایا جانے والا یہ اِلزام غلط ہے کہ سر سید ڈے  صرف ڈنر اور عشائیہ تک محدود رہتا ہے، سر سید کے فکر و عمل پر گفتگو نہیں ہوتی۔ کس کو نہیں معلوم کہ سر سید ڈے  کی تقریبات کا آغاز ہی قبر سرسید پر اُس قرآنِ مجید کی تلاوت سے ہوتا ہے جس کا پہلا پیغام ہی حصول علم ہے ۔ اس موقع کی سجاوٹ ،گُل پوشی اور چراغاں خوشبو دار نئی زندگی اور روشنی کی علامات ہیں۔ اس موقع کا ڈنر انسانی ضرورت بھی ہے اور پوری دُنیا کو علمی اتحاد اور تہذیب کا پیغام بھی ہے ۔ اِس موقع کی تقریبات میں طلاب کا تقریری و تحریری مقابلے اور اُس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو "سر سید ایوارڈ" سے نوازا جاتا ہے۔ (واضح رہے کہ راقم الحروف کو 1983 میں پہلا "سر سید ایوارڈ" حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔)

سر سید کے مقاصد اور اُنکی  علمی، ادبی اور سماجی خدمات پر مشتمل خود سرسید اور دیگر ممتاز مصنفین کی كتب اور تصاویر کی نمائش کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، کینڈی ہال (مرکزی ہال) میں چانسلر یا وائس چانسلر کی صدارت میں  خصوصی جلسہ  منعقد ہوتا ہے، جس میں ملک و بیرونِ ملک سے ممتاز شخصیات اور  اولڈ بوائز شریک ہوتے ہیں۔یہ تمام سرگرمیاں یقیناً اہم اور قابلِ ستائش ہیں، مگر  طلبہ یاد رکھیں  کہ اصل خراجِ عقیدت تب ادا ہوگا جب یہاں کہ طلاب موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریاتِ کو پورا کرنے والے ہر شعبہ علم میں سب سے نمایاں اور آگے نظر آئیں، یہ ہی سر سید کی خواہش تھی، یہ ہی علیگڑھ تحریک کا مقصد اور یہ ہی ملک و ملت کی حقیقی ضرورت ہے ۔